عالمی سطح پر سیاست کی بساط پر ان دنوں بہت سی چالیں چلی جارہی ہیں، لیکن ایران کے صدر رئیسی کی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں رحلت، عالمی فوج داری عدالت کا نیتن یاہو کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے پر غور، امریکاکے اسرائیل کی حمایت پرکمر بستہ رہنے، تین اہم ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان اور سعودی عرب اور امریکا کے اسٹریٹجک معاہدے کے قریب پہنچنے کی خبریں کافی اہمیت کی حامل ہیں۔
ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والا حادثہ اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ وائٹ ہاوس نے باقاعدہ یہ بیان جاری کیاتھا کہ امریکا اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھےہوئے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے اہم دارالحکومتوں میں متعلقہ حکام اس ضمن میں ہونے والی ہر پیش رفت کا بہت باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایران خطے اور دنیا کی سیاست میں اہم مقام رکھتا ہے۔
امریکا کے ساتھ اس کی چپقلش ، جوہری بم بنانے کے مبینہ منصوبے، اسرائیل کے ساتھ اس کی پرانی دشمنی اوراسرائیل پر اس کےحالیہ حملے، اور فلسطین کے موجودہ حالات میں اس کےموقف کی وجہ سےوہ عالمی طاقتوں اور فیصلہ سازوں کی نظروں میں رہتا ہے۔ اس کے تیل کے ذخائر،خلیجِ فارس تک اس کی رسائی اور آبنائے ہرمزکو بند کرنے کی اس کی صلاحیت اسے خطے کا خاص ملک بناتی ہے۔
ایسےمیں اگر کوئی اس کے ساتھ ایڈونچر کرنے کی کوشش کرتا تو یہ بہت تبا کن ہوسکتا تھا ۔ لیکن، شکر ہے کہ تمام تر سازشی نظریات اپنی موت آپ مرگئے، کیوں کہ خود حکومت ایران نے یہ اعلاکردیا کہ وہ بس ایک حادثہ تھا۔ تاہم جب تک ایرانی حکام نے سرکاری طورپر اس بارے میں بیان جاری نہیں کیا تھا طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں اور مختلف سازشی نظریات کا ذکر کیا جارہا تھا۔
یہ حادثہ ایسے وقت میں پیش آیاجب ایران مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ جہاں اسے اقتصادی چیلنجز سمیت داخلی مسائل کا سامنا ہے وہیں بیرونی محاذ پر تہران، اسرائیل کے خلاف ایک غیراعلانیہ جنگ میں ہے جس میں صہیونی حکومت کی غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں نے تنازع میں کلیدی کردار ادا کیا۔تاہم یہ امکان کم ہے کہ ایران میں طاقت کا خلا پیدا ہو، کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عبوری صدر نے عہدہ سنبھال لیا ہے اورپچاس روز میں انتخابات منعقد ہونے کا امکان ہے۔
ابراہیم رئیسی کا دورِ حکومت مختصر لیکن واقعات سے بھرپور رہا۔ انہوں نے 2021ء میں اقتدار سنبھالا۔ اپنے دورِ اقتدار میں ان کی انتظامیہ کو جس سب سے بڑے داخلی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ 2022ء میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی مبینہ طور پر ’’اخلاقی پولیس‘‘ کی حراست میں ہلاکت کے بعد ہونے والے ملک گیر مظاہرے تھے۔ ایران میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آئی، جواباً حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔بین الاقوامی محاذ پر چین کی بہ طور ثالث کوششوں کی وجہ سے ابراہیم رئیسی نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بحال کیے۔
ان کی خارجہ پالیسی کا سب سے مشکل دور اس وقت آیا جب گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسرائیل نے شام کے شہر دمشق میں ایران کے سفارت خانے پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں پاسدارانِ انقلاب کے اہم عسکری رہنما ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے جواب میں تہران نے دو ہفتے بعد اسرائیل پر ڈرونز اور میزائل سے حملہ کیا۔ یہ ایسا حملہ تھا جس کی مثال تاریخ میں ہمیں نہیں ملتی۔
ابراہیم رئیسی کے دور میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانےکےلیےبھی کوششیں کی گئیں۔ جنوری میں دونوں ممالک نے مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی پر ایک دوسرے کی سرزمین پر میزائل داغے، لیکن گزشتہ ماہ ان کے دورہ پاکستان نے اشارہ دیاتھا کہ تہران پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات چاہتا ہے۔
ایران کے خطے اور جغرافیائی سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے، ایران میں اقتدار کی منتقلی کو دنیا قریب سے دیکھے گی۔ اگرچہ کچھ مغربی مبصرین ایران کے نظام کو سپریم لیڈر کے ماتحت ایک آمرانہ نظام قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ پے چیدہ ہے۔ یہ درست ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر کو ریاستی پالیسیوں میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے، مگر ایسا نہیں ہے کہ صدر اور اقتدار کے دیگر مراکز کا کوئی اثرورسوخ نہیں۔ ایران کے نئے صدر کو داخلی محاذ پر اقتصادی پریشانیوں اور سیاسی تفریق کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ اس وقت ایک خطرناک اور متزلزل صورت حال سے دوچار ہے جس کی بنیادی وجہ غزہ میں اسرائیل کا وحشیانہ جبر ہے۔خطے کی حرکیات میں ایران کا متحرک کردار ہے، کیوں کہ وہ حماس، حزب اللہ اور اسرائیل میں لڑنے والے دیگر مسلح گروہوں کی کھلی حمایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سب نظریں اس جانب ہیں کہ اگلے ایرانی صدر اور ایران کی اسٹیبلشمنٹ، اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزی کا کیسے جواب دے گی۔
صدر رئیسی آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی فرد تصور کیے جاتے تھے اور انہیں خامنہ ای کے بعد ان کا جانشین بنائے جانے کا امکان بھی تھا۔مغربی اخبارات نے ان کے دورحکومت کے حوالے سے اپنے مخالفانہ تبصروں میں کہا کہ ان کے دورحکومت میں تہران نے نہ صرف تقریباً ہتھیاروں کی سطح کا یورینیم افزودہ کرنا شروع کر دیا تھا بلکہ بین الاقوامی ایجنسی کے انسپیکٹرز کو بھی محدود کردیا تھا۔
ایران کے صدر کو پیش آنے والے حادثے کے بعد گزشتہ دنوں سامنے آنے والی دوسری بڑی خبر آئرلینڈ، ناروے اورا سپین کی جانب سے کیا جانے والا یہ اعلان تھا کہ وہ 28 مئی سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے۔ اس کے ردعمل میں اسرائیل نے آئرلینڈ اور ناروے سے اپنے سفیر واپس بلا لیے اور اسپین سے بھی وہ اپنا سفیر واپس بلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسپین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اسرائیل کے خلاف ہے اور نہ حماس کی حمایت میں ہے، بلکہ یہ امن کے حق میں ہے۔اس کے ردعمل میں اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹزکا کہنا تھا کہ تینوں ممالک کا یہ فیصلہ مسخ شدہ اقدام ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی آپ کے لیے سودمند ہے۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کا کہنا تھا کہ میں آئرلینڈ اور ناروے کو واضح پیغام دے رہا ہوں کہ اسرائیل ان لوگوں کے خلاف اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے گاجو اس کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اسرائیل اس پر خاموشی اختیار نہیں کرے گا اور اس کے مزید سنگین نتائج ہوں گے۔ اگرا سپین نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ تبدیل نہ کیا تو اس کے خلاف بھی ایسا ہی قدم اٹھایا جائے گا۔
اس کے جواب میں ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانشیز کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہواب تک دنیا کی باتوں پر کان نہیں دھر رہے ۔وہ اب بھی اسپتالوں اورا سکولز پربم باری کر رہے ہیں اور خواتین اور بچوں کو بھوک اور سردی میں رکھ کر سزا دے رہے ہیں۔ دو ریاستی حل خطرے میں ہے جیسے کبھی موجود ہی نہ تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اس بارے میں کوئی قدم اٹھائیں، جیسے ہم نے یوکرین کے معاملے پر اٹھائے اور دہُرا معیار نہ اپنائیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں انسانی امداد بھیجنے اور پناہ گزینوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو ہم پہلے ہی کر رہے ہی، لیکن مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
آئرلینڈ کے وزیراعظم سائمن ہیرس نے اس حوالے سے مؤقف اپنایا کہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل ہی امن کی طرف معتبر راستہ ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے پر عمل کرنے کے لیےغیر معینہ مدت تک انتظار نہیں کیا جانا چاہیے، کیوں کہ یہ ایک درست فیصلہ ہے۔
اقوام متحدہ میں اب تک 140 ممالک فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ اسرائیل فلسطین کو بہ طور ریاست تسلیم نہیں کرتا اور وہاں پر قائم موجودہ حکومت، غربِ اردن اور غزہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مخالف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسی ریاست اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہوگی۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ میں140ممالک پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔ تاہم امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک نے اسے باضابطہ طورپر تسلیم نہیں کیاہے۔ فلسطین کوبہ طور ریاست تسلیم کرنے والوں میں22 ممالک پر مشتمل عرب لیگ،57ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون کی تنظیم اور120ممالک پر مشتمل نان الائنڈ موومنٹ بھی شامل ہے۔
امریکا اور برطانیہ ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے باضابطہ طور پر فلسطین کو ریاست تسلیم نہیں کیاہے۔ تاہم رواں برس کے آغاز میں برطانوی سیکریٹری خارجہ، لارڈ کیمرون نے عندیہ دیا تھا کہ ان کی حکومت اور اتحادی فلسطین کو بحیثیت ایک ریاست تسلیم کرنے کےمعاملے کو دیکھ سکتی ہے۔
رواں ماہ میں اقوام متحدہ کے193رکن ممالک میں سے 143 ممالک نے فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ عالمی سیست کے ماہرین کا موقف ہے کہ یہ ممالک اپنے عمل سے نہ صرف فلسطین کے لیے علامتی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں بلکہ ان کے اس فیصلے سے جنگ بندی کے لیے شروع کیے گئے سیاسی عمل کو بھی مدد ملے گی۔
متعدد عرب ممالک کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے بعد غزہ کی نگرانی کریں گے اور اس کی تعمیر میں بھی مدد کریں گے، لیکن اس عمل کے بدلے میں مغربی دنیا فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کرے۔اس تناظر میں ناروے، آئرلینڈ اورا سپین کے اس فیصلے کو ایک سفارتی قدم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اس سے غزہ میں موجودہ زمینی صورت حال تبدیل ہوتی نظر نہیں آرہی۔
گزشتہ دنوں عالمی سطح پر سامنے آنے والی ایک اور بہت اہم خبر یہ تھی کہ عالمی فوج داری عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام پر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو اور حماس کے رہنماؤں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر غور کر رہی ہے۔ نیتن یاہو نے ممکنہ طورپراپنے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کی خبر پر سخت ردعمل دیا۔اپنی گرفتاری کے لیے دائر درخواست کی مذمت کرتے ہوئےانہوں نے اسےایک غیر منطقی اور غلط فیصلہ قرار دیا۔
عالمی فوج داری عدالت کی جانب سے اسرائیل پر غزہ میں جنگی جرائم کے الزامات کے خلاف امریکی صدر جوبائیڈن اپنے اتحادی کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئے اور کہاکہ اسرائیل اور حماس کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ بائیڈن کا یہ ردعمل آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کے بیان کے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے کہا تھاکہ وہ غزہ جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گالانٹ کے وارنٹ گرفتاری کی استدعا کررہے ہیں۔
انہوں نے حماس کے رہنماؤں کے خلاف بھی وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔امریکی صدر نے عالمی عدالت کے فیصلے کو اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آئی سی سی کی جانب سے اسرائیلی رہنماؤں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہیں، اسرائیل اور حماس کی برابری نہیں ہوسکتی۔
واضخ رہے کہ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں مبینہ نسل کشی کے الزام پر ایک اور کیس بھی چل رہا ہے جو جنوبی افریقا کی درخواست پر دائر کیا گیا تھا۔بائیڈن نے عالمی عدالت انصاف میں چلنے والے کیس پر ردعمل دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ آئی سی جے کے الزامات کے برعکس اسرائیل، غزہ میں نسل کشی نہیں کررہا اور ہم ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
جنوری میں عالمی عدالت نے فیصلہ سنایا تھا کہ غزہ میں نسل کشی کا خطرہ ہے۔ عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا تھاکہ وہ غزہ میں نسل کشی کے بارے میں کنونشن کی خلاف ورزی نہ کرے اور اس حوالے سے ضروری اقدامات اٹھائے۔