• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرق کی دو بڑی طاقتوں روس اور چین کا نیا معاہدہ اور دوستی کے حالیہ تاریخی واقعہ پر مغربی قوتوں کو ورطہ حیرت اور صدمہ سے دوچار کر دیا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے حال ہی میں ماسکو کا دورہ کیا اور روس کے صدر ولادیمر پیوتن سے ملاقات کی۔ عالمی میڈیا میں اس دورہ کو بہت اہمیت دی گئی، خاص طور پر وائٹ ہائوس میں دو بڑی طاقتوں کے ملاپ تجدید عہد وفا کو گہری تشویش سے دیکھا جا رہا ہے جبکہ حال ہی میں چین نے ایران اور سعودی عرب معاہدہ کرواکر دنیا کو حیران اور امریکہ کو پریشان کر دیا تھا۔ اب چینی صدر کے دورئہ ماسکو نے مغربی ایوانوں میں ہلچل مچادی ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ کے حوالے سے میڈیا میں جو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اس میں یوکرین کے حالیہ جاری جنگ کا خاتمہ ،خطے میں امن کا استحکام اور روس چین کے مابین اشتراک عمل کو وسعت دینے کے حوالے سے ہو رہی ہیں۔ چین جو اب تک خاموش تماشائی بنا یوکرین میں ہونے والی جنگ کو دیکھ رہا تھا وہ روس کو یوکرین میں جنگ بند کرنے اور یوکرین کو روس سے بات چیت کے ذریعہ کسی معاہدہ کی طرف مائل کرنا چاہتا ہے۔ 

یہ واضح ہے کہ یوکرین کی جنگ کو مغربی قوتیں جس طرح طول دے رہی ہیں خاص طور پر امریکہ جو روس کو اس جنگ میں الجھائے رکھنا اور یورپی ملکوں کا خیرخواہ بننا چاہتا ہے جبکہ امریکہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یوکرین میں ہرگزرتا دن نئے المیوں کو جنم دے رہا ہے۔ بڑے علاقے اور بندرگاہ پر روس کا قبضہ ہو چکا ہے۔ نصف آبادی وہاں سے مشرقی یورپی ممالک کی طرف نقل مکانی کر چکی ہے۔ ماہرین کاخیال ہے کہ دنیا ایک نئی سردجنگ کی طرف محو سفرہے ۔جاری عالمی صورتحال امریکہ کے حق میں نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ امریکہ سیاسی و سماجی طور پر تنہا ہوتا جا رہا ہے۔

چین کا ون روڈ ون بیلٹ پروگرام کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے بلکہ چین نے بحر ہند اور مشرقی افریقی ممالک میں بڑی سرمایہ کاری کرکے وہاں اپنے دفاعی اڈے تعمیر کرلئے ہیں۔ مینوفیکچرنگ اور ٹریڈنگ کے شعبوں میں چین بڑی جمپ لے چکا ہے، مختلف ایشیائی افریقی اور لاطینی امریکی ممالک میں اپنی اجارہ داریاں قائم کرچکا ہے۔ چین کی مجموعی آمدنی امریکہ سے زائد ہے۔ غیر ممالک میں سرمایہ کاری امریکہ سے زائد ہے۔ اب روس سے دوستی اور معاہدوں کے بعد دفاعی اعتبار سے یعنی چین امریکہ سے ایک قدم آگے بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے خلائی ٹیکنالوجی میں بڑی پیش رفت کرلی ہے۔ 

وہ خلاء میں خلائی اسٹیشن تعمیر کر رہا ہے۔ اس ضمن میں چین کو روس کی اعانت حاصل ہے۔ ایسے میں لگتا ہے کہ دنیا دو بلاکوں میں بٹ سکتی ہے ۔ نئی سرد جنگ کی طرف بڑھتی محسوس ہو رہی ہے، مگر بعض مغربی سفارت کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ روس چین کے معاہدہ کے بعد نئی سردجنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ بعض ناقدین کا دعویٰ ہے کہ سال 2022ء میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کا جو سہ فریقی معاہدہ ہوا تھا اور برطانیہ نے آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوز دی تھی، اس وقت چین نے شدید احتجاج کیا تھا، مگر جنوبی بحرالکاہل میں چین نے تائیوان سمیت دیگر مشرقی ممالک کے قریب اپنی بڑی بڑی دفاعی انسٹالیشن تعمیر کی ہیں۔ 

اس حوالے سے بحرالکاہل میں واقع ممالک کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ چین بحرہند بحرالکاہل کی سمندری گزر گاہ پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔ ملا کا اسٹریٹ سے دنیا چالیس فیصد تجارت ہوتی ہے، خاص طور پر جاپان آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فلپائن،کمبوڈیا، ویت نام، ملائشیا، میانمار وغیرہ چین کے بحری نرغے میں آجاتے۔ قیاس ہے کہ مذکورہ ممالک ایک طرح سے چین کے نرغے میں آچکے ہیں۔ ان ممالک کا چین سے پرانا گلہ ہے کہ چین ناقابل اعتبار ساتھی ہے۔ اس کو صرف اور صرف اپنا مفاد عزیز ہے۔

حال ہی میں امریکی بینکنگ سیکٹر کو جن خساروں اور نقصانات سے گزرنا پڑا ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ،اس سے چین کے بینکنگ سیکٹر کو فائدہ ہوا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ جدید ترقی اور ایجادات کا زیادہ دارو مدار سیمی کنڈیکٹرز پر ہے جو سب سے زیادہ ذخیرہ رکھنے والا ملک تائیوان ہے ،اس کے بعد امریکہ ہے۔دراصل ہوائی جہاز سے لیکر کمپیوٹر تک میں سیمی کنڈیکٹر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ترقی مینوفیکچرنگ یا نئی ایجادات ممکن نہیں ہے ۔امریکہ کی اصل پریشانی یہ ہے کہ تائیوان پر چین کا قبضہ ہوگیا تو سیمی کنڈیکٹرز کا دنیا کا بڑا ذخیرہ چین کے قبضے میں آجائے گا۔ ایسے میں چین کو دنیا کا بے تاج بادشاہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تکنیکی اعتبار سے سیمی کنڈیکٹر کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔

امریکہ میں کسنجرانسٹیٹیوٹ آف فارن آفیئرز کی ایک اہمیت ہے۔ امریکہ چین تعلقات استوار کرنے میں سابق امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر پروفیسر ہنری کسنجرکا بڑا اہم کردار ہے۔ ان کے خفیہ دورہ کا بندوبست بھی پاکستان نے کیا تھا، تب سے پاکستان اور چین کی دوستی گہری ہوتی رہی، مگر دو ممالک کے مابین دوستی اور تعاون محض خیرسگالی کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ پاکستان میں ایک شاعرانہ محاورہ وضع کر لیاگیا ہے۔ چین سے ہماری دوستی ہمالہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ دو ممالک کی دوستی دو طرفہ قومی مفادات پراستوار ہوتی ہے۔ 

مثلاً روس اور چین کی دوستی دوطرفہ قومی مفادات پر استوار ہے مگر چین اور امریکہ کے مابین کشیدگی مفادات کے ٹکرائو کی وجہ سے ہے۔ دو ممالک کے درمیان دوستی کا دوسرا معیار برابری کا ہوتا ہے۔ امریکہ اور پاکستان ہم پلہ نہیں اس لئے اوپر سے ڈکٹیشن کرائی جاتی ہے ۔ لیکن امریکہ یہی عمل دوستی یا چین کے ساتھ نہیں کرسکتا۔

اس لئے روس اور چین کی دوستی اور نئے معاہدے عین قومی مفادات کے تابع ہیں۔ دونوں ہم پلہ طاقتیں ہیں۔ روس کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے جبکہ چین کے پاس کثیر سرمایہ ہے،بڑی فوج ہے، ایسے میں امریکہ اور نیٹوممالک کو دونوں ممالک کی گہری دوستی پر تشویش بجا ہے۔ 

دراصل چین اس بات کا خواہاں ہے کہ روس اور یوکرین جلد کسی معاہدہ پر پہنچیں اور جنگ بند ہوتاکہ چین کے متوقع نئے مشن میں روس پوری طرح چین کا ساتھ دے سکے۔ بعض سفارتکاروں کا خیال ہے کہ چین جلد از جلد تائیوان کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے تاکہ اس مسئلے کوحل کر کے اندرونی معاملات پر توجہ مرکوز کر سکے۔ مغربی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ چین کو نئی نسل کے نئے خیالات کا سامنا ہے ایسے میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو نے مزید اگلی ٹرم کے لئے بھی صدر منتخب کرلیا ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ اپنی تمام پالیسیاں پولٹ بیورو کے مشورہ سے ترتیب دیتے ہیں، کم از کم خارجی دفاعی معاملات پران کی پوری توجہ مرکوز رہتی ہے۔ شی جن پنگ چین میں پیدا ہوئے زمانہ طالب علمی سے کمیونسٹ پارٹی میں سرگرم رہے۔ وہ کم گو، خوش طبع اور ذہین رہنما ہیں انہیں عالمی تاریخ کے مطالعہ کا شوق رہا وہ اس المناک حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ چین کے عوام نے ماضی بعید میں منگولوں کے خوفناک حملوں سے کئی بار لٹے، آخر تنگ آکر چین نے دیوار چین تعمیر کی، مگر منگولوں کے حملے اس سے بھی نہ تھمے۔ 

ماضی قریب میں چین پہلے فرانس کی کالونی رہا پھر فرانس نے اپنی افریقی نو آبادیات پر پوری توجہ دینے کے لئے چین برطانیہ کے حوالے کردیا اس طرح چینی عوام نے ملک میں جاگیر دارانہ نظام اور بیرونی قوتوں کے ہاتھوں بہت ظلم سہے ،تاہم بیسویں صدی میں چین کے محنت کشوں نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے پرچم تلے اور مائوزے تونگ کی رہنمائی میں 1949میں انقلاب برپا کرکے جاگیرداری نظام سے چھٹکارہ پایا۔ چین کے کمیونسٹ انقلاب کے سب سے بڑے مخالف رہنما چیانگ کائی شک نے چین سے فرار ہو کر فارموسا جزیرے میں پناہ لی اوروہاں اپنی قوم پرست حکومت قائم کرلی، اب اس جزیرہ کا نام تائیوان ہے تاہم چینی کمیونسٹ پارٹی نے 1980ء کے عشرے کے وسط میں اپنی پالیسی ترمیم کی اور معیشت کو حیرت انگیز طور پر کنٹرول اور آزاد معیشت کے ملے جلے فارمولے کے تحت استوار کرکے دنیا کو حیران کردیا۔

اس کے ساتھ ہی چین نے دنیا کے بڑے صنعتی اداروں کو ارزاں بجلی اورارزاں افرادی قوت کے بل پر مال تیار کرکے دیا،اس طرح چین کو سرمایہ بھی ملا جدید ٹیکنالوجی بھی میسر آئی۔ مگر امریکہ میں جب ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت برسراقتدار آئی تو ٹرمپ نے پہلی آواز اٹھائی کہ امریکہ برطانیہ جرمنی کے صنعتکاروں نے زیادہ منافع کے لالچ میں چین کو ترقی کا موقعہ اور جدید ٹیکنالوجی فراہم کردی جبکہ لاکھوں امریکی یورپی محنت کش بیروزگار ہوگئے تب چین اور امریکہ کے مابین کشیدگی مزید بڑھی، مگر چین نے گریٹ لیپ فارورڈ کے مترادف کامیابی حاصل کرلی تھی اوراب وہ مزید ترقی کی طرف گامزن ہے۔ 

چینی صدر شی جن پنگ کے ماسکو کے دورہ کے اختتام پر کریملن سے جاری مشترکہ اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ امریکہ عالمی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہےکہ، ایشیا میں نیٹو کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں۔ روس چین معاہدہ کے مطابق سائبریا سے قدرتی گیس اور تیل کی فراہمی کے لئے دو پائپ لائن تعمیر کی جائیں گی۔ روس نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے گزشتہ معاہدہ سالٹ سے نکلنے کا بھی عندیہ دیدیا ہے۔

واضح رہے کہ 1980ء کےعشرے میں امریکہ اور روس نے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ اور پھیلائو کے روک تھام کے لئے ایک معاہدہ پردستخط کئے تھے، اب روسی صدر نے اس معاہدہ سے روس کی علیحدگی کا عندیہ دیدیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں ایک بار پھر جوہری ہتھیار سازی کی دوڑ شروع ہو جائے گی، ہر چند کہ دنیا میں تقریباً بیس ممالک کے پاس اعلانیہ یا پوشیدہ طور پر ہتھیار موجود ہیں۔

دنیا میں درجنوں ایٹمی ہتھیار ہوں یا چند سو ہوں ،پوری انسانیت کے لئے خطرہ ہیں، کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر دنیا نے پہلی بار ہیروشیما اور ناگا ساکی میں ایٹمی بموں کی تباہی دیکھ لی ہے حالانکہ وہ بم چھوٹے اورکم طاقت کے تھے مگر دنیا اس تباہی سے لرزگئی تھی جس کا آج بھی سوگ منایا جاتا ہے۔ مگر آج کی دنیا میں سینکڑوں جوہری ہتھیار اور مہلک ہتھیار پھیلے ہوئے ہیں جن سے کرئہ ارض اوراس پر آباد تمام جانداروں کوتباہ کیا جا سکتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ آج کرئہ ارض مختلف قدرتی آفات کا شکار ہے۔ ایسے میں انسان کے ہاتھوں اور قدرتی آفات کے ذریعہ تباہی کا تصور بھی بہت خوفناک ہے۔

جاری حالات میں ایشیا پیسفک کا خطہ زیادہ مخدوش ہوتا جارہا ہے ،مگر روس چینی معاہدہ اور تعاون کاایک اہم فائدہ یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو ممالک گزشتہ عراق جنگ کی طرح کسی پر ٹوٹ پڑنے سے قبل سو بار سوچیں گے۔

اس حوالے سے امریکہ کا ریکارڈ بہت خوفناک رہا ہے۔ پانچ سو برس کی امریکی تاریخ میں امریکہ گیارہ جنگیں لڑچکا ہے۔ پہلی جنگ امریکی صدر میڈلین کے دور میں 1812 میں لڑی گئی۔ یہ جنگ برطانیہ کے خلاف تھی تاکہ امریکہ برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہو سکے۔ دوسری جنگ امریکہ نے میکسیکو سے لڑی 1866ء میں پھر ہسپانوی امریکی وار، 1895ء میں لڑی گئی۔ پھر کیوبا کے خلاف جنگ لڑی گئی، دوسری عالمی جنگ جرمنی اور اٹلی کے خلاف 1941ء میں امریکہ نے بلغاریہ رومانیہ اور ہنری کے خلاف لڑی، پھر امریکہ اتحادی مل کر جرمنی سے لڑے ،اس میں امریکہ اور روس کاکردار نمایاں رہا۔

امریکہ، جاپان جنگ میں پہلی بار ایٹم بم کا استعمال کیا گیا۔ پھر ویت نام کے خلاف طویل جنگ لڑی۔ غلط بیانی کرکے امریکہ اور اس کے اتحادی عراق پرچڑھ دوڑے۔ صدر صدام حسین کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کیا۔ بعدازاں لیبیا کے کرنل قذافی کے ساتھ خوفناک غیر انسانی سلوک کرکے قتل کردیا۔ مصر میں انورالسادات کا قتل کیا۔

اس کے بعد روس کے بہانے افغانستان پرحملہ کیا اور طویل جنگ لڑی۔ اس طرح امریکہ نے ماضی میں گن بوٹ پالیسی اپنائے رکھی۔ ہر چند کہ جاپانیوں نے پرل ہابر پر خوفناک حملہ کیا۔اسامہ بن لادن نے ٹریڈ ٹاورز پر حملہ کیا،مگر زیادہ تر جنگیں امریکہ نے تھوپیں ،اس کے جواز گھڑے گئے جو غلط نکلے۔ 

مثلاً کوریا، ویت نام، عراق اور افغانستان درحقیقت جیسا کہ عرض کیا امریکہ کی معیشت سیاست اور تجارت کی اصل بنیاد ہتھیاروں کی فروخت پراستوار رہی، مگر اب ملٹی پولر دنیا میں امریکہ کو اپنی اجارہ داری گن بوٹ پالیسی ختم ہوتی نظرآرہی ہے۔ عالمی منڈی میں ہتھیاروں کی فروخت میں بڑا حریف روس سامنے آیا ہے، جب کہ معیشت اور تجارت میں بڑا حریف چین سامنے آیا ہے۔ ایسے میں امریکہ کی تشویش کا بڑھنا عین فطری بات ہے۔

روس کے پاس تیل اور قدرتی گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ ایسے میں روس یورپی ممالک کو گیس اور تیل کی فراہمی کرتا رہا ہے اور یورپ اپنی ضرورت کا چالیس فیصد حصہ روس کی فراہمی سے پورا کرتا ہے، چونکہ یوکرین وار کی وجہ سے روس پر پابند ی عائد ہے اور اس ضمن میں امریکہ کسی طور پر یورپی یونین کو روس پر سے انحصار ختم کرنے پراصرار کر رہا ہے۔ اس مسئلے میں یورپی ملکوں میں اختلاف ہے کہ روس سے تیل اور گیس خریدیں یا امریکہ کا ساتھ دیں، جبکہ امریکہ سے تیل کی فراہمی انہیں مہنگے داموں ملتی ہے اور اس میں وقت بھی لگتا ہے، جبکہ روس پڑوس میں ہے اور پائپ لائن سے کام ہو جاتا ہے۔

اس طرح معاملات مزید بگڑ رہے ہیں ،جس کی وجہ سے امریکہ کی تشویش میں اضافہ ہو رہاہے۔ مزید براں روس اور یوکرین دنیا کو سب سے زیادہ گندم فراہم کرتے ہیں مگر ایک طرف یوکرین ہتھیار اور رقم دے کرجنگ کو طول دے رہا ہے اور دوسری طرف روس پر پابندی عائد کرکے گندم و دیگر اشیاء کی فراہمی روک رہا ہے جس کی وجہ سے بیش تر ممالک میں خوراک کی کمی کا مسئلہ کھڑا ہو رہاہے، خاص طور پر افریقی اور لاطینی امریکی ممالک میں اناج کی کم دستیاب ہوشربا مہنگائی کو فروغ دے رہیہے اور عوام الناس کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دراصل کووڈ۔19کی وجہ سے دنیا کی معیشت اور معاشرت کو بڑا جھٹکا لگا ہے، بعدازاں یوکرین وار اور امریکی پالیسی نے مزید حالات خراب کردیئے۔ دنیا میں مہنگا ئی ،افراطِ زر اورکساد بازاری کا دور دورہ ہے۔ ماہرین کوشدید خدشہ ہے کہ دنیا گزری صدی کے تیسرے عشرے کی صورت حال سے دوچار نہ ہو جائے جب دنیا کساد بازاری اور معاشی انحطاط کی وجہ سے کئی برس خوفناک عذاب سے گزری تھی یہاں تک کہ لوگوں نے گھروں کا سامان تک اُونے پونے فروخت کردیا، حد تو یہ تھی کہ، بعض لوگوں نے اپنے بچے تک فروخت کردیئے تھے۔

آ ج کی ملٹی پولر دنیا میں امریکہ تنہا سپر پاور نہیں ہے۔ اس کے مقابل روس اور چین کھڑے ہیں اور یہ دونوں طاقتیں امریکہ کو لوہے کے چنے چبانےپر مجبور کر رہی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ امریکہ ان کے ساتھ بھی مقابلہ نہیں کر سکتا آخر ایک دن امریکہ کو ان کے ساتھ دوستی اور تعاون کا معاہدہ کرنا پڑے گا۔ مگر بیش تر ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ اپنے حریفوں سے دوستی نہیں کرے گا کیونکہ ان کے خیال میں گھوڑا گھاس سے دوستی نہیں کرسکتا۔

امریکہ نے مذکورہ گیارہ جنگوں میں بتایاہے کہ نولاکھ سے زائد ریگولر فوجی ہلاک ہوئے جبکہ ساڑھے تین لاکھ کے قریب پیرا ملٹری رضاکار ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی لاتعداد شمارکی گئی اور اربوں کھربوں ڈالر کی املاک تباہ ہوئی۔ تاریخ داں مارلوبین کے مطابق صرف دوسری عالمی جنگ میں چھ سال کے عرصے میں چھ کروڑ سے زائد فوجی اور شہری رضا کار ہلاک ہوئے جبکہ تین کروڑ شدید زخمی اور اپاہج ہوئے ،اربوں ڈالر کا نقصان الگ ہوا۔ یورپ کے کئی شہر تباہ ہوگئے۔ 

دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد سابق سوویت یونین اور امریکہ سپر پاوربن کر ابھرے یہاں سے دونوں سپر پاورز کے مابین سرد جنگ کا آغازہوا۔ سردجنگ کا ماضی میں سب سے زیادہ فائدہ امریکہ نے اٹھایا۔ اب اگر نئی سردجنگ کا آغاز ہوا جس کے آثار نمایاں ہیں تو اس کا سب سے بڑا فائدہ چین روس بلاک کو ہوگا۔ ہرچند کے امریکہ کے پاس اب منڈی میں فروخت کرنے کے لئے جمہوریت، انسانی حقوق اظہار رائے کی آزادی اور حقوق نسواں کے سوا کچھ نہیں ہے، جن کو سب سے زیادہ پامال بھی امریکہ نے ہی کیا ہے۔ طاقت کا توازن اب امریکہ مخالف دھڑے کے حق میں نظرآتا ہے۔ امریکہ حلیف خود معاشی، سیاسی اور نسلی بیماریوں سے نڈھال ہیں وہ تجربہ کار روس اور تازہ دم چین کے سامنے آنے سے کترائیں گے۔

امریکہ کا گزشتہ برس برطانیہ آسٹریلیا سے دفاعی تعاون کا معاہدہ زیادہ کارآمد ثابت ہونے کی پوزیشن نہیں رکھتا، کیونکہ دنیا کے 198 ممالک میں زیاہ تر جنگجو ممالک اپنا وزن روس اور چین کے پلڑے میں ڈالیں گے۔ ایسا ماہرین کا اندازہ ہے جو زمینی حقائق پر نظر رکھتے ہیں۔ امریکہ اور اس کےحلیف ممالک نے سوشلزم اور سابق سوویت یونین کی پالیسیوں کے خلاف بہت زیادہ پروپیگنڈہ کرکے اور جمہوریت پسند آزاد پسند لبرل رہنمائوں کا صفایا کرکے دنیا کے بیش تر ممالک میں اپنی پسند کے وفادار جرنیلوں اور کرپٹ سیاستدانوں کو برسراقتدار لاکر عوامی تحریکوں کا راستہ روکا۔

جمہوریت پسند عوام دوست رہنمائوں کو یا تو قتل کیاگیا یا انہیں طویل قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا گیا ،جیسے افریقہ میں پیٹرک لوسمبا، نیلسن منڈیلا کے ساتھ ایشیا میں سوئیکارنو اور سری لنکا کے قوم پرست رہنما بندرانائیکے کو قتل کیاگیا، جبکہ لاطینی امریکہ میں بیش تر آزادی پسند رہنمائوں کو قتل کیا۔ 

کیوبا کے رہنما فیڈل کاسترو پر امریکی سی آئی اے نے سولہ حملے کئے، کھانے میں زہر تک ملوادیا مگر ہربار فیڈل کاسترو ان سازشوں سے بچ نکلے لکین اب دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے، امریکہ کو بھی اپنی پالیساں تبدیل کر دینی چاہئے، کیونکہ اب دنیا کو انسانی ہاتھوں سے تیار مہلک ہتھیاروں، قدرتی آفات سے پریثانی ہے جو اس کرئہ ارض کے ساتھ شاعرانہ انصاف کررہی ہیں۔ وہ سیاسی سرحدوں سے بالاتر آفات ہیں اس سے بچائو کی کوشش کریں۔