• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی اور شام کے زلزلے نے یورپ اورمشرق وسطیٰ کے ممالک کودہلا کررکھ دیا ہے۔ یوں تو پوری دنیا اسقدرتی آفت پر ہراساں ہے مگر ترکی اور شام کے قرب و جوار کے ممالک زیادہ پریشان ہیں۔ بی بی سی اور سی این این کے تاحال جائزوں کے مطابق چالیس ہزار سے کہیں زائد اموات ہو چکی ہیں۔ لاکھوں شدید زخمی ہیں۔ ملبے سے مسلسل لاشیں نکل رہی ہیں۔ دنیا کے سفید ہیلمٹ اسی ہزار امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ ترکی کے دس اہم شہرلگ بھگ ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں،جبکہ شام میں چار اہم شہر کھنڈر بن چکے ہیں۔

ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف امریکی جوبائیڈن نے اس عظیم سانحہ پر شدید رنج و غم کے اظہار کا اعلان تو کیا ہے لکین اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بیان بھی دیا ہے کہ، امریکہ اور اس کے اتحادی شام کی مدد کریں گے اور نہ امداد دیں گے،کیونکہ وہاں صدر بشارالاسد کی غاصب حکومت برسراقتدار ہے جس کو ہم تسلیم نہیں کرتے۔ امریکی صدر کے اس بیان کی شام سمیت دیگر ممالک میں بھی شدید نکتہ چینی کی جارہی ہے،ان کا کہنا ہے کہ انسانیت کا تقاضا ہےایسے سانحات پر سیاست ،عداوت اور نفرت سے بالاتر ہو کر متاثرہ افراد کی مدد کی جائے۔ 

سچ یہ ہے کہ امریکی صدر کے اس بیان نے امریکہ کاقد چھوٹا کردیا ہے۔ ترکی اور شام میں یہ ایک بڑا سانحہ ہے ،چالیس ہزار سے زائد افراد لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں اور وہاں تاحال ہزاروں رضاکار افراد ڈاکٹر شب و روز کام کررہے ہیں، ان میں سرکاری رضا کاروں کے علاوہ بیش تر معروف اور فعال غیرسرکاری تنظیموں کے رضا کار شامل ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہاں خوراک ، دوائوں اور گرم کپڑوں کی قلت ہے۔ ہرچند کہ یہ اشیاء دیگر ممالک ارسال کررہے ہیں مگر شدید متاثرہ افراد کی تعداد بہت زیادہ اور رقبہ بہت بڑا ہے، اس پر ستم یہ ہے کہ برفباری، بارش اور شدید یخ بستہ ہوائوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، ایسے موسم میں امدادی کام کرنے والے رضاکاروں کو جن میں مرد اور خواتین نرسیں ڈاکٹر وغیرہ شامل ہیں، انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ایک خبر یہ بھی ہے کہ ترکی کی حکومت نے تاحال ایک سو اڑتالیس سے زائد بڑی تعمیراتی اداروں کے مالکان اور ٹھیکیداروں کو گرفتار کرلیا ہے۔ دراصل نوے کے عشرے اور اکیسویں صدی کے اوائل میں ترکی میں اونچی اونچی چھ تا بارہ منزلہ عمارتوں کی تعمیرکا سلسلہ زوروں پر تھا، اس وقت میڈیا میں شور اٹھا تھا کہ معیاری تعمیرات نہیں ہو رہی ہیں۔ عمارتیں تعمیراتی اصول اور قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں بن رہے ہیں، مگر کچھ وقت کے بعد یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

حالیہ خوفناک زلزلہ میں بے شمار عمارتیں چشم زدن میں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عمارتیں ناقص میٹریل سے تعمیر کی گئی تھیں۔ تعمیرات کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کیا گیا تھا اور بدعنوان ٹھیکیداروں نے منافع کے لالچ میں ہراصول اور قانون کو روند دیا۔

دراصل ترکی خلافت عثمانیہ کے تحلیل ہونے کے بعد دوکشتیوں میں سفر کرتا آیا ہے۔ اس کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ ایک حد تک قدامت پسند پرانی روایات کے پاسدارتھے، جبکہ انقرہ ،استنبول اور ازمیر میں جدید طرز زندگی روشنیاں اور فیشن عام رہا۔ ترکی کی ہر حکومت کی خواہش رہی کہ وہ یورپی یونین میں شامل ہو جائے مگر یورپی یونین کے بیشترممالک اس کی مخالفت کرتے رہے۔

خوفناک زلزلے نے ترکی کی سیاست ، معیشت، معاشرت کو شدید نقصان پہنچایا

ساٹھ اور ستر کے عشرے میں ترکی ایران اور پاکستان کا معاہدہ آرسی ڈی طے ہوا تھا۔ اس دوران ان تینوں ممالک کے آپس کا تعاون و اشتراک مثالی تھا۔ آر سی ڈی ہائی وے تینوں ممالک کے بیچ اہم کردار ادا کرتی تھی۔ ترکی کا رقبہ سات لاکھ چوراسی ہزار کلو میٹر، آبادی آٹھ کروڑ اسی لاکھ کے قریب اور سالانہ مجموعی آمدنی 3.56ٹریلین ڈالر ہے،جبکہ سالانہ اوسط آمدنی بارہ ہزار ڈالر سے کچھ زائد ہے ۔ سلطنت عثمانیہ 1300میں قائم ہوئی۔ 

سترہ خلفاء نے جنگ وجدل میں سلطنت عثمانیہ کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سے قبل یہ سب خلیفہ کہلاتے تھے، بعدازاں سب کا لقب سلطان ہوگیا۔ یہ بڑی سلطنت مشرقی یورپ تک پھیلی ہوئی تھی جو 1300سو 1924تا قائم رہی۔ سلطان عبدالحمید دوم کے دورمیں 1923ء میں ترکی کے رہنما مصطفی کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ کوختم کرکے ترکی کو جمہوریہ قرار دیا، اس کے بعد ترکی میں جدید ترقی لبرل خیالات اورجدید تعلیم کا دور شروع ہوا۔ ترکی کے عوام نے مصطفی کمال پاشا کو اتاترک کا لقب عطا کیا۔

مسلم اُمہ اور عالمی تنظیمِ اسلامی کو اپنا انسانی اور برادرانہ کردار ادا کرنا چاہیے

آج ترکی میں دو سو سے زائد جامعات،انجینئرنگ، میڈیکل، کمپیوٹر اور دیگر علوم جدید کے کئی کالج اور ادارے قائم ہیں۔ ترکی کی یورپ میں بہت اہمیت ہے ۔یورپی یونین ترکی کو اپنارکن بنانے سے کتراتی ہے ان کے ذہنوں میں ترکی کی ماضی کی بڑی فتوحات تازہ ہیں۔

ترکی کا بڑا شہر اور سیاحت کا مرکز استنبول دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک چوتھائی حصہ اس کا یورپ میں واقع ہے ،درمیان میں بحرکیسپین گزرتا ہے۔ اس لئے ایک حصہ سے استنبول میں داخل ہونے کے لئے آدھے گھنٹے کا بحری سفر کرنا پڑتا ہے، مگر جب سے پل تعمیر ہوا ہے زیادہ ٹریفک پل سے گزرتا ہے۔ یہ خوبصورت شہر کبھی مسجدوں کا شہر کہلاتا تھا۔ اب ڈھاکہ کو مساجد کا شہر کہا جاتا ہے۔

لگ بھگ پانچ سو برس تک قائم رہنے والی یہ عظیم سلطنت عثمانیہ بکھر کررہ گئی۔ اس کی وجہ ملوکیت شاہی خاندانوں کی اجارہ داریاں اور قدامت پسند سوچ اپنے اطراف سے بے خبر عصری تقاضوں سے لاعلمی تھی۔ اس لئے زوال مقدر بن چکا تھا۔ ایسا ہی کچھ ہندوستان میں مغل سلطنت کے ساتھ ہوا۔ کسی فلاسفر نے کہا تھا کہ جتنی بڑی سلطنت ہوگی وہ اتنی جلد زوال پذیر ہوگی۔ اس حوالے سے ایک پیش گوئی یہ ہے کہ ،مستقبل قریب میں روس، چین، بھارت بکھر جائیں گے۔ 

بعض حلقے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے حوالے سے یہ بھی کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں امریکہ کا شیرازہ بھی بکھر جائے گا،مگر بعض دانشوروں اور سیاستدانوں کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ امریکی آئین میں ہر ریاست کو الگ ہونے اور اپنی آزاد ریاست قائم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، مگر کوئی ریاست الگ ہونا نہیں چاہتی ،اس کی بڑ ی وجہ جغرافیائی ذرائع آمدورفت اور معاشی طور پر ایک دوسرے پر انحصار کا نظام ہے جو بہت پیچیدہ ہے۔بہرحال بات اس وقت ترکی میں حالیہ زلزلہ کی ہو رہی ہے،جس کی شدت اور تباہی ادانا اناطالیہ، ازمیر، کونیاسی ،دیاکمبر ،کیوری کو، نیا ڈار، کین کیوری اور لعب میں زیادہ ہوئی،تاہم انقرہ، استنبول محفوظ رہے۔

ترکی اور شام کے خوفناک زلزلوں کے حوالے سے چند ماہرین نے یہ انکشاف کیاہے کہ، کچھ دنوں میں مزید آفٹر شاک آسکتے ہیں کیونکہ ٹائی ٹینک پلیٹیں پھرکسی وقت حرکت میں آسکتی ہیں اور گزشتہ ہفتے ایسا ہو بھی گیا۔

1999ء میں بھی ترکی میں زلزلہ آیا تھا مگر اس میں جانی نقصان کم ہوا تھا۔حالیہ زلزلے کے جھٹکے لبنان قبرص کے علاوہ قر ب و جوار میں بھی محسوس کئے گئے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ ہر سائنسی یا قدرتی عمل کو دشمن کی سازش قرار دینے میں دیر نہیں کرتے اس بار ایسے لوگوں نے بیلجیم اور ہالینڈ پر یہ الزام دھرا ہے کہ چونکہ وہاں بیشتر آبادی یہودیوں کی ہے اور انہوں نے ترکی کے خلاف سازش کرکے زلزلہ برپا کردیا۔ یہ محض لوگوں کی ذہنی اختراع اور ایک دوسرے سے بغض ہے۔ ورنہ دنیا جانتی ہے کہ یہ قدرتی زلزلہ تھا۔ قدرتی آفت تھی جو ہزاروں برس سے گاہے بہ گاہے رونما ہوتی رہی ،سلطنت روما، پامیئی اور دیگر اس خوفناک آفت میں تباہ ہو چکے ہیں۔

امریکہ کی ہر بڑی یونیورسٹی میں قدرتی آفات پر نظررکھنے اور اس پر تحقیق کیلئے مراکز قائم ہیں۔ یونیورسٹی الاسکا ،یونیورسٹی کیلی فورنیا ریسرچ سینٹرکے مطابق، زمین کے اندر تین قسم کی فالٹ لائن ہیں۔ اگر پچاس میل تک گہرائی ہو تو زلزلہ آتاہے۔ زلزلوں کا سلسلہ بہت دراز ہے۔ زیادہ تر زلزلہ 4.0 تک آتے ہیں، اس سے عموما کوئی نقصان نہیں ہوتا ،اگر یہ 7.5یا 7.8تک ہو جائے تو خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ماضی میں 9.5تک کے زلزلے بپا ہو ئے اور شہر اوندھے ہوگئے اُلٹ گئے۔ 

سال 1970ء تا 2017ء تک لگ بھگ پچاس برسوں میں چین، ایکویڈور، گوئٹے مالا، ہیٹی،ایران، بھارت، انڈونیشیا، جاپان، پاکستان، میکسیکو، پیرو اور ترکی میں زلزلے آتے رہے ،جس میں جانی اور مالی نقصانات بھی بہت ہوئے۔ بعض ممالک میں ریلوے لائنیں اکھڑ گئیں، کہیں طیاروں کے رن وے میں دراڑیں آگئیں۔ کہیں پل ٹوٹ گئے تو کہیں بجلی اورپانی کی فراہمی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ عمومی طور پر سرکاری حلقے جانی نقصان سے زیادہ مالی نقصانات کو ترجیح دیتے ہیں کہ سرکاری اور نجی املاک کو کس قدر نقصان پہنچا۔

ماضی قریب میں بھارت کے شہر احمد آباد میں برپا ہونے والے زلزلہ میں اسکول کی چار سو سے زائد لڑکیاں ہلاک ہو گئیں تھیں اس کے علاوہ دیگر نقصان بھی ہوا۔ بتایاجاتا ہے کہ یہ ٹائی ٹینک پلیٹ بحر ہند سے قدرے سرک کر بھارت کے مغربی ساحل سے گوادر تک حرکت میں آئی تھی مگر اس کا پورا زور بھارت کے مغربی حصے پر رہا، چونکہ صبح کا وقت تھا بچے اسکول جارہے تھے،لڑکیوں کے اسکول کے قریب ایک تنگ سڑک کے اطراف کے تمام گھر گرگئے اور تمام لڑکیاں ہلاک ہوگئیں۔ اس کے علاوہ چھ ہزا ر سے زائد افراد ہلاک اورکروڑوں کی املاک تباہ ہوئی۔

دنیا میں گزرے بیس تیس برسوں میں دو درجن سے زائد خوفناک زلزلے اور سونامی برپا ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد ہلاک اور لاکھوں زخمی ہوئے ،اس کے علاوہ اربوں ڈالر کی املاک تباہ ہوئی۔

کہاجاتاہے کہ چند سو سال قبل پوری زمین ہل کر رہ گئی تھی اور ہر فرد چکرا کر زمین پر گر پڑا تھا، اس واقعہ میں ہندوستان میں بدھا اور مہاراجہ کھا گیا ہے اس حوالے سے جانی یا مالی نقصان کا کوئی ذکر نہیں ملتا اس زلزلے کو سب سے بڑا بوکھم کہا گیا تھا، اس کے علاوہ ماضی قریب میں جو خطرناک زلزلے برپا ہوئے ان میں سال 1998ء میں افغانستان میں 6.6ریکٹر کے اسکیل پرزلزلے نے چودہ ہزار افراد کو ہلاک اور بیس ہزار سے زائد کو زخمی کیا۔ 

مئی 2003ء میں الجزائر میں 6.8اسکیل کے زلزلہ میں ڈھائی ہزار افراد ہلاک اور کئی سو زخمی ہوئے۔ دسمبر 2003ء میں ایران میں زلزلہ سے اکیس ہزار افراد ہلاک اور ہزاروں شدید زخمی ہوئے۔ اکتوبر 2005ء میں کشمیر میں ریکٹر اسکیل پر 7.6کے زلزلے میں اسی ہزار ہلاک اور ہزاروں شدید زخمی ہوئے۔ شہر باغ کی زمین الٹ گئی تھی۔ مئی 2007ء میں جاوا انڈونیشیا میں زلزلہ سے آٹھ ہزارافراد ہلاک اورہزاروں زخمی ہوئے۔

مارچ 2008 میں سماٹرا کے جزیرے پر زلزلے سے ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک اور تین ہزار سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ مئی 2007ء میں جاوا انڈونیشیا کے زلزلہ میں جو 6.3ریکٹر اسکیل کا زلزلہ ایا، جس میں نو ہزار افراد ہلاک ہزاروں زخمی ہوئے۔ مئی 2008ء میں چین میں خوفناک زلزلہ سے اٹھاسی ہزارافراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کے تمام مویشی بھی ہلاک ہوگئےتھے۔جنوری 2010ء میں جزیرے ہیٹی پر آنے والے زلزلے میں سوا تین لاکھ افراد ہلاک اور ہزاروں شدید زخمی ہوئے۔ 

یہاں ایک عجیب بات یہ ہے کہ ہیٹی اور ڈومینکن ری پبلک ایک جزیرے پر دو ریاستیں قائم ہیں جو کیریبین جزائر کے قریب اور امریکہ کے قریب واقع ہیں، مگر زلزلہ صرف ہیٹی میں آیا ،جو ایک غریب ریاست ہے ۔ بلند عمارتیں یا پکے مکانات بہت کم ہیں مگر پھر بھی اس جزیرے پر تاحال بہت زلزلے آئے،جانی نقصان بھی بہت ہوا ۔ اب یہاں کے آبائی باشندے آہستہ آہستہ ریاست چھوڑ کر جارہے ہیں اور نئی پناہ کے لیے جگہ کے متلاشی ہیں۔

موسمی تغیرات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ سال 2022ء گرم ترین سال تھا۔ اس سال قدرتی آفات کا سلسلہ دراز ہوا جیسے ہیٹ وے میں تیزی آئی۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اوردیگر مضر خطرناک گیسوں کا اخراج بڑھا۔ گرمی سمندر میں جذب ہوتی رہی جس سے سمندری طوفانوں میں اضافہ ہوا۔ بحرہند میں مون سون ہوائوں کے وقفے میں اضافہ ہوا۔ ارجنٹائن ،آسٹریلیا ، ایمازون اور امریکہ کے جنگلوں میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی۔ پاکستان میں بارشیں ہوئیں سیلاب آئے جبکہ برطانیہ گلوبل وارمنگ اور ہیٹ کی وجہ سے اسکولوں کی چھٹیاں کرنا پڑیں پورا نظام درہم برہم ہوگیا۔

ترکی جیسے ملک میں جس کی معیشت گزشتہ دس برسوں سے مسلسل کساد بازاری کاشکارہے، اس کے لیےقدرتی آفات کا مقابلہ کرنا اور ان نقصانات کا ازالہ کرنا مشکل تھا۔ حالیہ زلزلے نے بقول ترکی کے صدر، طیب اردگان کے ترکی مزید دس برس پیچھے چلا گیا۔

گر چہ آج کی ترقی یافتہ دنیا نے بیشتر قدرتی ا ٓفات کا قبل از وقت پتہ چلانے اور وارمنگ جاری کرنے کا بندوبست کرلیا ہے، مگر زلزلہ وہ قدرتی آفت ہے،جس کا ابھی تک قبل ازوقت پتہ لگانے کا بندوبست نہیں ہوسکا ہے۔ تاہم امریکی اور دیگر ممالک کے سائنس دانوں اور ماہرین اس مشن پرمسلسل کام کررہے ہیں۔میکسیکو میں ایک بڑے تحقیقی مرکز میں Intensityاور Magnitudeاسکیل ناپنے کے طریقہ کار کے حوالے سے کام کیا جارہا ہے۔

دراصل جب ٹائی ٹینک پلیٹ حرکت کرتی ا ور دوسری پلیٹ سے ٹکراتی ہے تو اس سے بہت طاقتور انرجی پیدا ہوتی ہے اور اپنا پریشر بناتی ہے،اس سے زلزلہ پیدا ہوتاہے۔ زلزلہ زمین کی اوپری سطح کو ہلا دیتا ہے ۔ ایسے میں اونچی عمارتیں، بجلی کی تنصیبات، پل سب کچھ زمین بوس ہو جاتے ہیں اور ہزاروں افراد مویشی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ 

ہرطرف تباہی اور آہ و بکا کاراج ہوتاہے۔ انسان خواہ جتنا بھی ترقی یافتہ ہو جائے وہ قدرتی آفات کے سامنے بے بس ہو تاہے۔ سال 2022ء میں میکسیکو کے تحقیقی مرکز میں نصب جدید وارمنگ سائرن نے تیس سیکنڈ قبل وارننگ دی، ایسے میں زلزلہ برپا ہو چکا تھا۔ ساحل سمندر پر لنگر انداز تین جہاز ڈوب گئے، سینکڑوں عمارتیں زمین بوس ہوگئیں اور ہزاروں افراد لقمہ ٔ اجل بن گئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلے دو اقسام کے ہوتے ہیں پہلا ٹائی ٹینک اوردوسرا والکوینک ، پہلے میں زمین کی اوپری سطح ہلتی ہے، جس سے بہت کچھ تتر بتر ہو جاتا ہے، جبکہ دوسرا دھماکہ کے ساتھ زمین کو جنبش دیتا ہے اورآتش فشاں ابل پڑتا ہے،جس کا لاوا دور تک پھیل جاتاہے اور آگ لگ جاتی ہے،مگر جب لاوا ٹھنڈا ہوجاتا ہےتواس پر کاشت کی جاتی ہے اور فصل بہت عمدہ لگتی ہے۔ آتش فشاں کچھ وقت بعد اُبل کر سوکھ جاتا ہے۔ 

دنیا کے بیشتر آتش فشاں سوکھ چکے ہیں، اب وہ مردہ کہلاتے ہیں، مگر بعض کچھ عرصہ بعد پھر دھماکے سے اُبل پڑتے ہیں۔بعض آتش فشاں ابل کر جو لاوا زمین پر پھیلا تے ہیں اس میں قیمتی دھاتیں ہیرے وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ لاوے کی زمین بہت زرخیز ہوتی ہے۔ اس کو کاشتکار کھیتوں میں پھیلا کر فصل بوتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ زیادہ تر آتش فشاں پہاڑوں کے درمیان یا قرب وجوار میں اُبلتے ہیں۔ بعض سو سال بعد پھٹ پڑتا ہے۔ زلزلے کے مقابلے میں آتش فشاں قدرے کم نقصان دہ ہوتا ہے اور اس کا سلسلہ ٹھنڈا ہو کر فائدے مند بھی ہوتا ہے، مگر بعض علامت میں آتش فشاں بہت نقصان دہ اور تباہی کا باعث ہوتا ہے۔

گزرے پچیس برسوں میں 7.8کے خوفناک زلزلوں نے چودہ ملکوں میں خوفناک تباہی برپا کی اور دنیا کے جنگلوں میں شدید تر نقصان پہنچایا،دوسری طرف قدرتی آفات نے لوگوں کو مارا، اس طرح انسان کو کسی بھی طرف سے تحفظ یا سکون میسر نہیں آیا۔ معروف ماہر تاریخ اور ارضیات ویل ڈیورنڈ کہتا ہے کہ دنیا میں ہر دن کہیں نہ کہیں جنگ و جدل جاری رہی شاید ڈھائی سو دن امن رہا۔ گویا ایک سال بھی چین اور امن میسر نہیں آیا۔ بیشتر فلاسفروں نے انسان کو سماجی جانور کہا ہے، بعض دانشوروں نے حیوان ناطق لکھا ہے اوراکثر انسان کو اشرف المخلوقات بھی کہتے ہیں، مگر اربوں انسانوں کے ہجوم میں کم کم ہی انسان میسر آتے ہیں، مگر انسان جب حرص ،لالچ، حسد اور غصے کی زد میں آجاتا ہے تو وہ نیم وحشی بن جاتا ہے اوراپنی ساری اچھائیاں کھو دیتا ہے۔

حالیہ ترکی اورشام کے خوفناک زلزلہ کے بعد عمارتوں کے ملبے کے ڈھیر میں پھنسے انسانوں کے سامان کی لوٹ مار کرنے والوں کی بھی وہاں تعداد کم نہ تھی جبکہ سینکڑوں رضا کار انسانی ہمدردی سے سرشار ملبے میں دبے انسانوں کو نکالنے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ اکثر موقعوں پر دیکھا گیا ہے کسی اندوہناک حادثے کے بعد کچھ لوگ مدد کرنے آجاتے ہیں اورکچھ ایسے موقع پر چوری چکاری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ 

انسان کے اس منفی رُخ کو غربت، احساس محرومی یا لالچ ،کیا نام دیاجائے۔ اگر انسان واقعی نیک دل نہ ہوتاتو دنیا آج اس قدرترقی یافتہ نہ ہوتی۔ مذکورہ تمام منفی رویوں کے باوجود انسان پر انسانیت ضرور غالب ہے۔ گزرے تکلیف دہ دنوں کے باوجود سینکڑوں انسان انتہائی تکلیف دہ موسم میں بھی ترکی میں ملبہ ہٹانے اور لاشیں نکالنے میں مصروف ہیں۔ یہ اعلیٰ انسانی جذبہ ہی تو ہے جس نے دنیا میں کسی حد تک انسانیت کو زندہ رکھا ہے۔

ترکی اور شام میں صورتحال مزید مخدوش ہو چکی ہے ہزاروں افراد زخمی ہیں جو دوسروں کے رحم و کرم پر کھلے آسمان تلے ٹھٹھر رہے ہیں۔ ترکی اور شام کی حکومتوں نے پوری دنیا سے اپیل کی ہے کہ انہیں فوری خوراک ،پانی، کمبل، خیمے، جان بچانے والی دوائیں اور طبی امداد زیادہ فراہم کریں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک ارب ڈالر کی نقد امداد فراہم کردی ہے،تاہم عالمی رہنمائوں سے اپیل کی ہے کہ ترکی اور شام کی زیادہ سے مدد کی جائے، یہ بڑا سانحہ ہے۔

اب تک کے جمع شدہ اعدادو شمار کے مطابق 24ہزار سے زائد اموات کی خبریں ہیں اور پانچ لاکھ کے لگ بھگ زخمی ہیں۔ ان میں اپاہج افراد کی تعداد کی خبر نہیں، تاحال وہ زخمیوں میں ہی شمار ہو رہے ہیں۔ اس خوفناک زلزلہ نے ترکی،کی سیاست معیشت معاشرت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ شام جو گزشتہ آٹھ نو برس سے خانہ جنگی کا شکار رہا، وہاں کی صورتحال مزید تکلیف دہ ہے ،وہاں پہلے ہی خوراک پانی دوائوں کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ایسے کڑے نازک موقعہ پر مسلم اُمہ اور عالمی تنظیم اسلامی کواپنا انسانی اور برادرانہ کردار ادا کرنے کے لئے آگے آنا چاہئے۔ خدانخواستہ ایسا وقت کبھی بھی کسی پر بھی آسکتا ہے۔ اس لئے اس طرح تکلیف دہ سانحات کے لئے سب کو مل کر مقابلہ کرنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا ضروری ہے۔

واضح رہے کہ قدرتی ماحولیات اور موسمی تبدیلیاں ایک حقیقت ہیں، اس سے فرار ممکن نہیں قدرتی ا ٓفات کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری دنیا کے انسانوں کو ایک برادری میں سمو جانا چاہئے۔ دعا ہے کہ ترکی اور شام کے عوام کے دکھ درد جلد دُور ہو جائیں۔