• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی طور پر 2022 کا سال اس لحاظ سے تو اچھا شروع ہوا تھا کہ کورونا کی عالمی وبا جو 2020 میں شروع ہو کر 2021 میں خاصی مدھم پڑ گئی تھی 2022 میں مزید کم ہوئی۔ گو کہ اس سال بھی عالمی پیمانے پر اس سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جاتے رہے ۔ لیکن ایک بات جو کم نہیں ہوئی وہ تھی عالمی مہنگائی جس نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ 

اس کی کئی وجوہ میں ایک بنیادی وجہ روس کا یوکرائن پر حملہ تھا جو کہ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سب بڑا فوجی تصادم ثابت ہوا جس کے نتیجے میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے اُن میں آدھے لوگ اپنے ہی ملک میں دربدر رہے اور دیگر بین الاقوامی طور پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

2022 میں بین الاقوامی طور پر کئی ممالک ایک دوسرے کی مذمت کرتے رہے مثلا امریکا اور چین ایک دوسرے کو مختلف بحرانوں کا ذمہ دار قرار دیتے رہے اور یورپ میں روس مغربی یورپ کے ممالک کو ھدف بناتا رہا۔ سب سے خطرناک بات یہ ہوئی کہ بڑے عرصے بعد یورپ کی سر زمین پر جوھری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ 

ویسے تو جنوبی ایشیا اور مشرق بعید میں ایسی دھمکیاں کوئی نئی بات نہیں لیکن یورپ میں ایٹمی جنگ کے خطرات سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ محسوس کیے جانے لگے ۔ اس کے ساتھ معاشی پابندیوں کا استعمال بھی ہوتا رہا ۔ آئیے اس سال کے عالمی منظر پر کچھ اہم واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔

2022 کے آغا ز میں سب ٹھیک چل رہا تھا تو اس وقت ایک اہم اور مثبت پیش رفت یہ ہوئی کہ دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک وجود میں آیا جس کا نام آرسیپ (RCEP) رکھا گیا یعنی ریجنل کمپری هینسیو، اکنامک پارٹنر شب یا علاقائی جامع معاشی شراکت - آزادانہ تجارت کا یہ معاہدہ ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک کے درمیان ہوا جن میں آسٹریلیا، برونائی ، کلبوڈیا ، کینیڈا، چین، انڈونیشیا، جانان، جنوبی کوریا، لاؤس، ملائشیا، میانمار، نیوزی لینڈ، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام شامل تھے۔

پندرہ رکنی ممالک پر مشتمل یہ بلاک دنیا کی تیس فی صد آبادی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے یعنی اس میں تقریباً سوا دو ارب لوگ شامل ہیں ۔ اور یہ دنیا کی مجموعی پیداوار کا بھی تقریباً تیس فیصد حصہ تیار کرتے ہیں جو تقریباً تین کھرب ڈالر پر مشتمل ہے۔ بلاشبہ یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی بلاک ہے ،گو کہ اس معاہدے پر نومبر 2021 میں دست خط کر دیے گئے تھے پر باقاعدہ طور پر اس کا نفاذ جنوری 2022 سے عمل میں آیا۔

یہ ایشیا کی عظیم ترین معیشتوں کے درمیان آزادانہ تجارت کا پہلا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے لیے کوئی دس برس گفت و شنید جاری رہیں جس میں شروع میں بھارت بھی شامل تھا مگر بعد میں الگ ہو گیا ،پھر بھی اس سے کہا گیا کہ وہ جب چاہے اس میں شامل ہو سکتا ہے۔ جولائی 2023 کے بعد اس خطے کے دیگر ممالک بھی اگر چاہیں تو اس معاہدے میں شامل ہو سکیں گے۔ مگر پاکستان کا کیا ہوگا یہ ابھی نہیں معلوم۔

روس کا یوکرائن پر حملہ

2022 کے آغاز سے ہی ایسے اثرات نمایاں ہونا شروع ہوگئے تھے کہ روس یوکرائن پر حملہ کرنے والا ہے ۔ ظاہر ہے ایسے کسی حملے کا نتیجہ جوھری تصادم کی شکل میں بھی نکل سکتا تھا اس لیے جنوری میں ہی چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکا نے ایک منفرد مشترکہ بیان جاری کیا، جس کے تحت اعلان کیا گیا کہ کوئی بھی جوھری جنگ جیتی نہیں جا سکتی اس لیے ایسی جنگ کبھی بھی شروع نہ کی جائے۔ 

یاد رہے کہ یہ ہی پانچ ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن بھی ہیں اور اُن طاقتوں میں شامل ہیں جن کے پاس ایٹمی ہتھیار سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں ،لیکن پھر بھی فروری کے آتے آتے روس نے یوکرائن کی سرحد پر ایک لاکھ سے زیادہ فوجی جمع کر لئے اور فروری کے آخری ہفتے میں یوکرائن پر چڑھ دوڑا۔ دراصل یوکرائن کے خلاف روس کی کارروائیوں کا آغاز 2014 میں ہی ہو گیا تھا۔ اب تک اس جنگ میں ہزاروں لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں اور یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پناہ گزینوں کا سب سے بڑا بحران پیدا ہوچکا ہے۔

فروری 2022 کے آخری ہفتے میں ہی روس کے صدر نے یوکرائن کے مشرقی علاقوں لوہانسگ اور ڈونیٹسک کو آزاد تسلیم کرلیا اور عالمی مذمت اور پابندیوں کے باوجود یوکرائن کے اندر اپنی پیش قدمی جاری رکھی - امریکا، یورپی یونین اور دیگر اتحادیوں نے روس کو عالمی بنکاری کے نظام سوئٹ (SWIFT) سے الگ کر دیا اور روس کے مرکزی بینک پر بھی پابندیاں عائد کر دیں۔ ان کے نتیجے میں عالمی مالیاتی بحران کی سی کیفیت پیدا ہوگئی، جن کے اثرات ترقی یافتہ اور ترقی پزیر دونوں طرح کے ممالک پر پڑنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی روس کے صدر نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو بھی تیار رکھنے کا حکم دے دیا اور کہا کہ اس کی وجہ نیٹو کے مسلسل جارحانہ بیانات ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپی اقوام نے اپنی فضائی حدود میں روسی طیاروں کی پروازوں پر پابندیاں لگانی شروع کر دیں۔ اس کے جواب میں روس کے طرف دار ملک بیلا روس نے اپنی غیر ایٹمی حیثیت ختم کردی اور روسی افواج کو مستقل طور پر تعینات رہنے کی اجازت دے دی،پھر کھیلوں کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی روس پر پابندیاں لگائیں ،حتیٰ کہ سوئٹزر لینڈ، موناکو، سنگا پور اور جنوبی کوریا جیسے ممالک نے بھی روس سے درآمدات اور اس کے اثاثوں کو منجمند کرنے کی کارروائیاں شروع کیں ۔ سال کے آخر تک روس یوکرائن کو شکست دینے میں ناکام رہا لیکن مشرقی علاقوں پر روسی قبضہ برقرار ہے۔

وسطی ایشیا

2022 میں وسطی ایشیا کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک، کزاخستان بے چینی کا شکار رہا ،جس کا آغاز جنوری سے ہی ہو گیا تھا ۔ ہوا یوں کہ جنوری میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا، جس کی وجہ مائع گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ تھا۔ دراصل حکومت نے سرکار کی طرف سے نافذ کردہ قیمتوں کی حد منسوخ کردی تھی۔ مظاہرے جلد ہی پرتشدد فسادات میں تبدیل ہوگئے اور اس میں زیادہ تر غریبوں نے کھل کر حصہ لیا۔ 

کزاخستان کے نئے صدر اسلام قاسم جمعرات توقائیف نے بعض علاقوں میں ہنگامی حالات کا نفاذ کردیا اور وزیر اعظم اصغر مومن کو برطرف کر دیا، ساتھ ہی فوج کو مظاہرین سے سختی کے ساتھ نمٹنے کا حکم دیا ۔ مظاہروں پر قابو پا کر صدر نے خود کو مستحکم کرنے کے لیے قبل از وقت صدارتی انتخاب کرائے۔ نومبر 2022 میں خود کو اسّی فی صد سے زائد ووٹ دلا کر ایک بار پھر صدر منتخب کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی طور پر ایسی اطلاعات آئیں جن سے معلوم ہوا کہ صدر اور ان کا خاندان بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں میں ملوث رہے ہیں۔

وسطی ایشیا کے ہی ایک اور ملک ترکمنستان میں بھی اس سال صدارتی انتخابات ہوئے، جب اس وقت کے صدر قربان قلی بردی محمدوف نے خود مستعفی ہوکر اپنے بیٹے کو صدر مختخب کرا لیا - ترکمنستان پہلے تو 1991 میں آزاد ملک بننے کے بعد سولہ سال صفر مراد نیازوف کے زیر حکومت رہا تھا پھر قربان قلی بردی محمدوف نے 2006 سے 2022 تک سولہ سال حکومت کی اور اپنے بیٹے سردار بردی محمدوف کو نیا صدر بنا لیا ۔ یہ حیرت انگیز بات تھی، کیوں کہ قربان قلی صرف پینسٹھ سال کے ہیں اور چاہتے تو آرام سے مزید دس پندرہ سال تو اقتدار میں رہ سکتے تھے لیکن مارچ 2022 کو مستعفی ہوگئے۔

نئے صدر سردار صرف چالیس سال کے ہیں ،ممکن ہے کہ بیس بائيس سال تک بار بار منتخب ہوتے رہیں۔ 2022 کے انتخابات میں انہوں نے بہتر فی صد ووٹ حاصل کیے اگر وہ چاہتے تو اسی نوے فیصد بھی حاصل کرسکتے تھے جیسا کہ اکثر وسطی ایشیائی ممالک میں ہوتا رہا ہے۔

وسطی ایشیا کے دیگر دو ممالک تاجکستان اور کرغزستان باہمی تصادم کا شکار رہے۔ دراصل یہ دونوں ممالک سرحدی تنازعوں میں الجھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے علاقوں پر دعوے رکھتے ہیں ،جن کے نتیجے میں آپس میں جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ تاجکستان رقبے کے لحاظ سے کرغزستان کے مقابلے میں چھوٹا مگر آبادی اور قومی پیداوار کے لحاظ سےبڑا ملک ہے ۔ تاجکستان کی آبادی نوے لاکھ جب کہ کرغزستان کی ستر لاکھ ہے،پھر بھی دونوں ممالک آپس میں دست و گریباں رہے ہیں۔

2022 تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے بھی اپنے اقتدار کے تیس برس مکمل کئے ۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ وسطی ایشیا کے زیاده تر ممالک سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد خاندانی حکومتوں کے زیر اثر آگئے یا تو ایک فرد کی شخصی حکومت قائم رہی یا پھر اس نے اقتدار اپنے عزیز و اقارب کو منتقل کر دیا ۔ اس طرح اب سوویت یونین سے بھی زیادہ شخصی آمریت کے دور وسطی ایشیا نے دیکھے ہیں۔

سابقہ سوویت یونین کی ایک اور ریاست آرمینیا میں بھی 2022 میں صدارتی انتخابات ہوئے ۔ ہوا یوں کہ صدر آرمین سرکی سیان نے چار سال صدر رہنے کے بعد جنوری 2022 میں استعفیٰ دے دیا اور کہا کہ آرمینیا کا آئین چوں کہ صدر کو کچھ زیادہ اختیارات نہیں دیتا اس لیے استعفی دینا بہتر ہے - دل چسپ بات یہ ہے کہ آرمین سرکی سیان آرمینیا کی طرف سے بیس سال برطانیہ میں سفیر رہ چکے تھے۔ بہر حال استعفیٰ کے بعد الہام علی ایف آرمینیا کے نئے صدر منتخب ہوگئے۔

سری لنکا میں فسادات

2022 کا سال سری لنکا کے لیے خاصا ہل چل والا رہا، کیوں کہ بڑے مظاہروں کے بعد وزیراعظم مہندر راجا پکسا کو استعفیٰ دینا پڑا۔ مارچ 2022 میں سری لنکا کی حکومت کے خلاف بڑے مظاہرے شروع ہوئے جن کی بڑی وجہ معیشت کی خرابی تھی اور ایک کے بعد ایک بحران پیدا ہو رہے تھے ۔ مہنگائی بہت بڑھ گئی تھی اور بجلی کی شدید قلت تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایندھن کی کمی بھی شروع ہوگئی تھی ،جس میں گھریلو استعمال کی گیس نایاب ہو گئی اور دیگر ضروریات زندگی بھی مفقود ہوگئیں۔ اس کے نتیجے میں صدر گوٹا بایا راجا پکسا سے استفے کے مطالبے کیے جانے لگے۔ 

یاد رہے کہ سری لنکا کا برسرِ اقتدار خاندان اس قدر اقربا پرور تھا ،ایک بھائی صدر اور دوسرا وزیر اعظم بنا بیٹھا تھا، گویا کہ پوری حکومت راجا پکسا خاندان کے ماتحت تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان حکومت مخالف مظاہروں کی قیادت کسی حزب مخالف کی جماعت کے ہاتھ میں نہیں تھی، بل کہ زیادہ تر عوام اور خاص طور پر نوجوان اپنے طور پر مظاہروں کے لیے نکل آئے تھے، گو کہ حکومت نے ھنگامی حالات نافذ کرکے صورت حال قابو میں کرنے کی کوشش کی لیکن کرفیو لگانے اور سوشل میڈیا کو پابند کرنے کے باوجود حکومت کو استعفیٰ دینا پڑا۔ 

جولائی 2022 میں مظاہرین نے کولمبو میں ایوان صدر پر قبضہ کر لیا اور پھر پارلیمان نے وکرما سنگھے کو نیا صدر چن لیا ۔ایشیا کی بات کرتے ہوئے ہم فلپائن چلیں تو وہاں مئی 2022 میں صدارتی انتخابات ہوئے جن میں سابق آمر صدر فرڈینینڈ مارکوس کے بیٹے بونگ بونگ مارکوس تقریباً ساٹھ فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوگئے، اس طرح جس آمر کو 1986 میں عوامی جدوجہد سے ہٹایا تھا اس کے بیٹے کو چھتیس سال بعد عوام نے صدر چن لیا۔

نیٹو کی سرگرمیاں

روس کے یوکرائن پر حملے سے پہلے اور بعد مغربی فوجی اتحاد نیٹو نے خاصی سر گرمیاں دکھائیں ۔ روس نے حملے کی ایک وجہ یہ بتائی تھی کہ نیٹو یوکرائن کو اپنے اتحاد میں شامل کرنا چاہتا ہے جس کی روس اجازات نہیں دے گا۔ امریکا ، نیٹو اور خود یوکرائن یہ کہہ رہے تھے ،اس بات کا اختیار روس کو نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے، کون سا ملک نیٹو میں شامل ہو سکتا ہے۔ یوکرائن کو توقع تھی کہ اگر روس نے جارحیت کا مظاہرہ کیا تو نیٹو ممالک جنگ میں کود پڑیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا اور روس نے یوکرائن کے تقریباً بیس فیصد حصے پر قبضہ بھی کر لیا تو نیٹو نے اس جنگ میں براہ راست مداخلت نہ کی، بل کہ یوکرائن کی مدد کے دعوے ہی کرتا رہا۔ 

حملے کے چار ماہ بعد جون 2022 میں اسپین میں نیٹو ممالک کے سربراہوں کا اجلاس ہوا۔ یاد رہے کہ ٹھیک چالیس سال قبل 1982 میں اسپین نیٹو میں شامل ہوا تھا ۔ اب 2022 میں فن لینڈ اور سویڈن نے نیٹو میں شمولیت کی درخواستیں دیں جن پر پہلے ترکی نے اعتراض کیا لیکن کچھ یقین دہانیوں کے بعد اعتراض واپس لے لیا پھر ستمبر 2022 میں یوکرائن نے بھی باضابطہ طور پر نیٹو میں شمولیت کے لیے درخواست دے دی،اس طرح روس کا مقصد تو نہ حل ہو سکا، بل کہ نیٹو کو تقویت ملی اور وہ ممالک بھی جو پہلے درخواست نہیں دے رہے تھے اب باقاعدہ اس قطار میں شامل ہوگئے۔

یادرہے کہ 1949 میں نیٹو کے قیام کے وقت اس کے رکن ممالک کی تعداد صرف 12 تھی پھر 1952 میں یونان کی شمولیت سے یہ تعداد تیرہ ہو گئی۔ اگلا رکن مغربی جرمنی تھا جو 1955 میں چودہواں رکن بنا، پھر 1982 میں اسپین کی شمولیت کے ساتھ یہ تعداد پندرہ ہو گئی ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1999 میں پہلی بارہ مشرقی یورپ کے ممالک نیٹو میں شامل ہو گئے اور چیک ری پبلک ، ہنگری اور پولینڈ کے اضافے کے ساتھ نیٹو کے رکن ممالک کی تعداد اٹھارہ ہوگئی۔

2004 میں مشرقی یورپ کے سات ممالک ایک ساتھ شامل ہوئے تو نیٹو رکنیت پچیس ہو گئی اور پھر 2020 تک چار اور ممالک شامل ہوئے تو نیٹو میں شامل ملک 29 تھے۔ اب اتنے ملکوں نے مل کر روس پر حملہ نہیں کیا تو یوکرائن کے شامل ہونے سے اچانک 2022 میں روس کو کیا خطرہ لاحق ہوتا۔ 

بہرحال نیٹو کی سرگرمیوں کے نتیجے میں اب یہ اتحاد مزید مضبوط ہو رہا ہے جس کا اثر روس اور چین پر پڑے گا ۔ 2022 اس لحاظ سے نیٹو کے لیے سود مند لیکن يوکرائن کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوا بل کہ یورپی ممالک بھی روسی گیس بند ہونے سے توانائی کے شدید بحراں کا شکار ہوئے۔ لیکن وہ اب متبادل ذرائع کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور لگتا ہے کہ یورپ پر روس کی گیس کے اثرات کم سے کم تر ہوتے چلے جائیں گے۔

چین

اب نظر ڈالتے ہیں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین پر، جہاں اس برس کا اہم ترین واقعہ یہ تھا کہ یہاں چینی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں قومی کانگریس منعقد ہوئی ۔ کانگریس کا انعقاد اکتوبر 2022 میں ہوا،جس میں پارٹی کی بیسویں مرکزی کمیٹی منتخب کی گئی اورپولٹ بیورو کا انتخاب کیا ۔ اس کانگریس میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری شی جن پنگ نے تیسری مدت کے لیے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ 

کانگریس میں شی جن پنگ نےپونے دو گھنٹے کی تقریر میں پارٹی کی پالیسی واضح کی، اس کے بعد چینی آئین میں کچھ ترامیم بھی منظور کیں، جن کے تحت پارٹی رہ نما یعنی شی کو مرکزی کمیٹی کا بنیادی ستون قرار دیا گیا اور اُن کے نظریات کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی تائیوان کو ایک بار پھر چین کا حصہ قرار دیا گیا۔

2022 میں چین نے روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد روس سے اپنے تعلقات مزید مضبوط کئے،گو کہ جنگ کے خاتمے پر زور دیا لیکن حملے کی کوئی مذمت نہیں کی گئی ۔ اس سال کے اواخر میں کورونا وائرس چین میں پھر سر اُٹھانے لگا اور سخت پابندیاں لگا کر وائرس کو قابو میں لانے کی کوشش کی گئی ۔ بھارت نے اس سال غلطی سے ایک میزائیل براہموس، پاکستان کی طرف داغ دیا جو میاں چنوں کے قریب آگرا ۔ 

مارچ میں ہونے والے اس واقعے کو بھارت نے ایک حادثاتی غلطی قرار دیا لیکن اس سے بھارت کی صلاحیتوں پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے کہ اگر غلطی سے جنگ چھڑ جاتی تو کیا ہوتا ۔ مارچ 2022 میں ہی بھارت کی پانچ ریاستوں میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے، جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اتر پردیش میں اپنی بالادستی قائم رکھی اور اتراکھنڈ، گووا اور منی پور کے انتخاب بھی جیت لیے۔ یاد رہے کہ انڈین نیشنل کانگریس 1989 کے بعد سے تیس سال میں ایک بار بھی حکومت نہیں بنا سکی ہے، جب کہ بی جے پی نے 1997 سے 2002 تک حکومت کی تھی اور اب 2017 کے بعد سے یوپی پر قابض ہے۔

2022 کے ریاستی انتخابات میں بھارتی پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے حکمران کانگریس کو شکست دی۔بھارت میں 2022 میں بی جے پی کی حکومت نے فوج میں بھرتی کے لیے ایک اگنی پتھ نام کی اسکیم شروع کی، جس کے خلاف مظاہرے ہوئے ۔ اس اسکیم کے تحت سپاہیوں کو چار سال کے لیے بھرتی کیا جاتا تھا۔ اس سے قبل سپاہی کم از کم پندرہ سال کے لیے بھرتی کئے جاتے تھے جس کے بعد وہ ریٹائرمنٹ لے سکتے تھے ۔ 2019 کے بعد بھارتی فوج میں کوئی بھرتیاں نہیں ہوئیں ،وجہ کورونا وبا کو ٹھہرایا گیا۔

بھارت میں ہر سال پچاس سے ساٹھ ہزار سپاہی ریٹائر ہوتے ہیں ۔اگنی پتھ اسکیم کے تحت سویلین افراد کو چار سال تک فوجی تربیت دے کر فارغ کرنے کا پروگرام تھا ۔ اس اسکیم کو جون 2022 میں منظور کر کے ستمبر سے لاگو کیا گیا جس کے تحت 17 سے 21 سال کے لڑکے لڑکیاں چار سال تک فوجی تربیت اور ملازمت کرسکتے تھے۔ اس اسکیم پر سب سے بڑی تنقید یہ ہی ہے کہ اس طرح بی جے پی نوجوانوں کو فوجی ذہنیت کا حامل بنا کر معاشرے میں چھوڑ دے گی جس سے تشدد میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ 

جون 2022 میں بھارتی سپریم کورٹ نے احسان جعفری کی بیوہ کی درخواست مسترد کردی جو انہوں نے نریندر مودی اور ساٹھ سے زائد دیگر افراد کے خلاف گجرات میں قتل عام سے متعلق دائر کی تھی ۔ جولائی میں بھارت کی نئی خاتون صدر دروپدی مرمو نے حلف اُٹھایا وہ بھارت کی پہلی قبائلی صدر ہیں جب کہ پرتیبھا پاٹل کے بعد دوسری خاتون صدر ہیں ۔2022 میں بھارت کی معاشی کارکردگی شان دار رہی اور اس نے دس فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کی۔

امریکا

2022 میں امریکا نے چین اور روس کے ساتھ مخاصمانہ پالیسی جاری رکھی اور یورپ کو بھی جنگ میں دکھیلا،جس سے سب سے زیادہ نقصان خود یورپ کا ہوا ۔ اندرونی طور پر امریکی معاشرہ اس وقت ہل چل کا شکار ہوا جب خواتین کو اسقاط حمل کا حق دینے سے امریکی سپریم کورٹ نے انکار کردیا ۔ اس کے علاوہ امریکا میں پورے سال وقتاً فوقتاً فائرنگ کے واقعات ہوتے رہے جس سے معاشرے کی بے چینی میں اضافہ ہوا۔ 

وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے سینٹ میں اپنی حیثیت برقرار رکھی اور پرانی تمام نشستیں حاصل کرنے کے بعد ایک نشست کا اضافہ کیا ،جب کہ ری پبلکن پارٹی نے ایوان نمایندگان جو ایک طرح سے قومی اسمبلی ہے، میں بالادستی حاصل کی۔ امریکا نے بین الاقوامی طور پر اپنی قیادت قائم کرنے کی کوشش کی مگر وہ روس اور چین کو تنہا کرنے میں ناکام رہا ۔ اس طرح عرب ممالک سے بھی اس کے تعلقات میں کوئی بہتری نہیں آئی ،بل کہ سعودی عرب اور خلیج کی دیگر ریاستیں بھی چین سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔

برطانیہ

برطانیہ نے 2022 میں دو وزرائے اعظم اور ایک ملکہ کو الوداع کیا ۔ بھارتی نژاد رشی سُناک نے اکتوبر میں وزیراعظم کا حلف اٹھایا تو وہ برطانیہ کے چھ سال میں پانچویں وزیراعظم تھے۔ انھوں نے لزٹرس کے صرف ڈیڑھ ماہ کے اقتدار کے بعد حکومت سنبھالی۔ لزٹرس کا دور برطانوی تاریخ میں کسی وزیراعظم کا مختصر ترین دور ثابت ہوا ۔اسی سال برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو مجبور ہوکر استعفیٰ دینا پڑا، کیوں کہ وہ پے درپے بحرانات کی زد میں رہے،زیادہ تر اسکینڈل ان کے اپنے پیدا کردہ تھے۔

2022 میں برطانیہ نے روس کے خلاف تمام یورپی اور امریکی حکمت عملی سے اتفاق کیا اور پابندیاں لگانے میں پیش رہا ۔ ساتھ ہی برطانیہ کو اس سال تاریخ کی بدترین گرمی کا بھی سامنا کرنا پڑا جس میں پہلی بار درجہ حرارت چالیس درجے تک پہنچ گیا، ساتھ ہی مہنگائی اور دیگر مسائل جیسے توانائی وغیرہ سے بھی برطانوی عوام نالاں رہے۔ نئے بادشاہ چارلی نے بالاخر تاج سنبھال ہی لیا اور برطانیہ ستر سال بعد ایک بادشاہ کی بادشاہت میں آیا۔

یورپ میں دائیں بازو کا عروج

2022 میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے اپنے جھنڈے گاڑے ۔ مثلاً اٹلی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ ایک تقریباً فاشسٹ جماعت کی جارجیا میلونی نے کامیابی حاصل کی ۔ ہوا یوں کہ ستمبر میں قبل از وقت انتخابات ہوئے، کیوں کہ وزیراعظم ماریو دراگی جو ڈیڑھ سال سے برسر اقتدار تھے بحران کا شکار ہوئے اور استعفیٰ دینا پڑا 2018 میں انتخابات کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمان وجود میں آئی تھی۔

اب اکتوبر 2022 کے انتخابات کے بعد نیو فاشسٹ " برادرانِ اٹلی" پارٹی نے واضح کامیابی حاصل کی، انہوں نے 120 نشستیں حاصل کیں، جب کہ نسبتاً بائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی نے صرف 70 نشستیں جیتیں ۔ اس طرح میلونی اٹلی کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ 

اُدھر سویڈن میں بھی غیر ملکی تارکین وطن کی مخالف پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ ستمبر میں ہونے والے انتخابات نے اُلف کرسٹوشون کو وزیر اعظم بنا دیا۔ اٹلی کے برعکس سویڈن حکومتیں نسبتاً استحکام کی حامل رہی ہیں اور موجودہ وزیراعظم سے پہلے پچیس سال میں صرف چار وزیراعظم اپنے عہدوں پر رہے۔ 

اب سویڈن میں بھی بیرون ملک سے آنے والے مہاجرین کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا فائدہ دائیں بازو کی جماعتوں نے اٹھایا ہے اور نئے آنے والوں پر پابندی کے وعدے کر کے اقتدار میں آ رہی ہیں ۔ اس طرح اسکینڈے نیویا کے جن ملکوں کو رواداری کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا وہاں بھی اب عدم رواداری آ رہی ہے۔

فرانس میں بھی امکان تھا کہ اپریل 2022 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں شاید دائیں بازو کی میرین لیپن جیت جائیں لیکن صدر ایمانوئیل میکرون نے اپنا عہدہ برقرار رکھا ۔ یادر ہے کہ فرانس میں 2000 کے بعد صدارتی عہدے کی مدّت پانچ سال کردی گئی تھی ،اس سے قبل یہ مدّت سات سال ہوتی تھی۔

جرمنی میں اینگلا مرکل کے سولہ سال کے اقتدار کے بعد یہ پہلا سال تھا جس میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے چانسلر نے اقتدار سنبھالا لیکن انہیں دائیں بازو کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے ۔ اب جرمنی نے یوکرائن کا بھرپور ساتھ دیا اور روس سے آنے والے گیس کی پائپ لائن نارتھ اسٹریم 2 پر کام روک دیا۔ امریکا اس کا پہلے ہی مخالف تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ یورپ روس سے توانائی حاصل کرے۔ جرمنی نے یوکرائن سے آنے والے لاکھوں مہاجرین کو بھی پناہ دی اور قطر وغیرہ سے توانائی کے حصول اور ایندھن کی خریداری کے معاہدے کیے۔

برازیل

یورپ میں دائیں بازو کا عروج ہورہا تھا تو 2022 میں جنوبی امریکا میں بایاں بازو مضبوط ہورہا تھا ۔ اکتوبر 2022 میں ہونے والے انتخابات میں سابق صدر لولا داسلوا نے کام یابی حاصل کی مگر یہ کام یابی بڑی مشکل سے ملی ،کیوں کہ ولسونارو نے انچاس فی صد ووٹ حاصل کیے اور داسلوا نے تقریباً اکاون فیصد۔ اس طرح دائیں بازو کے صدر ولسونارو کی دوسری مدت کی خواہش ناکام ہوگئی۔ 

امریکا کی طرح برازیل میں بھی صدر کی مدت صرف چار سال ہوتی ہے ۔ برازیل میں ورکرز پارٹی واضح طور پر بائیں بازو کی پارٹی ہے، جس نے اب دوبارہ اقتدار حاصل کرلیا ۔ ان کے علاوہ کولمبیا اور ھونڈو راس میں بھی بائیں بازو کی جماعتیں کام یاب ہوئی ہیں۔