• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں G-20 کا اجلاس کامیابیوں اور ناکامیوں کی ملی جلی داستان لے کر گزشتہ ہفتے اختتام کو پہنچا مگر حتمی طور پر اس کا فیصلہ کچھ عرصے بعد ہی کیا جاسکے گا کہ یہ اجلاس کتنا کام یاب رہا ۔ نو سے دس ستمبر تک نئی دہلی میں ہونے والے اجلاس میں G-20 کے رہ نماؤں نے شرکت کی ۔ گو کہ اس اجلاس کا بنیادی نکتہ پائیدار ترقی بتایا گیا تھا لیکن اس میں یوکرائن کے تنازعے سمیت کئی مسائل زیرِ بحث آئے ۔ G-20 یا گروپ آف ٹوئنٹی ایک ایسا کلب ہے جس میں دنیا کی بڑی معشتیں شامل ہیں۔ 

اس گروپ کے ارکان مجموعی طور پر دنیا کی پیداوار کا پچاسی فی صد حصّہ تیار کرتے ہیں اور پچھتر فی صد عالمی تجارت بھی یہی ممالک کرتے ہیں ۔ دنیا کی دو تہائی آبادی ان ہی ممالک میں رہتی ہے۔ اس کا مطلب ہے دنیا کے ایک سو پچانوے ممالک میں سے G-20 ممالک اگر پچاسی فی صد عالمی پیداوار تیار کرتے ہیں تو باقی 175 ممالک کا صرف 15 فی صد ہوا ۔ یہ ہے تو حیرت انگیز بات مگر ہے بالکل درست۔ چوں کہ پاکستان دنیا کی آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہونے کے باوجود باقی ماندہ 174 ممالک میں شامل ہے جو دنیا کی پیداوار کا صرف پندرہ فی صد حصہ تیار کرتے ہیں ۔ اسی طرح باقی ایک سو پچھتر ممالک دنیا کی تجارت کے صرف پچیس فی صد حصے میں شامل ہیں ۔ G-20 ممالک میں اُنیس ممالک اور یورپی اتحاد شامل ہے۔ 

ان میں ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقا، جنوبی کوریا، ترکی، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں۔ ذرا غور کیجئیے کہ ان میں صرف تین ممالک مسلم ہیں یعنی انڈونیشیا، ترکی اور سعودی عرب ۔ اگر ترکی کا موازنہ پاکستان سے کرلیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ پاکستان G-20 میں شامل کیوں نہیں ہے۔ 

دراصل ترکی کی معیشت پاکستان سے تین گنا بڑی ہے جب کہ آبادی پاکستان کے مقابلے میں ایک تہائی ہے یعنی صرف ساڑھے آٹھ کروڑ ۔ جی - ٹوئنٹی گروپ میں دنیا کی سات بڑی سرمایہ دار معشتیں بھی شامل ہیں جنہیں G-7 بھی کہا جاتا ہے ۔ G-20 کے گروپ کو 1999 میں تشکیل دیا گیا تھا کیوں کہ 1998 کے شدید عالمی معاشی بحران کے بعد ضرورت تھی کہ دنیا کی بڑی معشتیں آئندہ ایسے بحران کا تدارک قبل از وقت کر سکیں ۔ شروع کے دس سال تو صرف وزرائے خزانہ ملتے رہے لیکن 2008 میں جب پھر عالمی معاشی بحران شروع ہوا تو سربراہان نے خود اجلاس کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جاسکے۔ 

رفتہ رفتہ اس اجلاس میں معاشی مسائل کے ساتھ ماحولیاتی اور توانائی کے معاملات پر بھی گفتگو کی جانے لگی ۔ جی - ٹوئنٹی کے ارکان میں سے ہر سال ایک ملک اس گروپ کی صدارت سنبھالتا اور اجلاس کا ایجنڈا طے کرتا ہے۔ 2023 میں یہ صدارت بھارت کے حصے میں آئی ،جس سے پائیدار ترقی کے ساتھ ایک منصفانہ اور عدل پر مبنی ترقی کے عالمی ایجنڈے کو شامل کیا۔ اس کے علاوہ ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کی معافی بھی ایجنڈے کا حصہ تھی ۔ حالیہ اجلاس میں بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی نے کوشش کی کہ اپنے ملک کو ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر پیش کریں اور خود کو بھی ایک اہم عالمی رہ نما کے طور پر اجاگر کریں۔ 

اُن کا مقصد یہ بھی تھا کہ 2024 میں ہونے والے اگلے بھارتی عام انتخابات سے قبل اپنی حیثیت ملکی سیاست میں مزید مستحکم کرلیں ۔ حالیہ اجلاس میں مودی کی یہ کوشش بھی رہی کہ پچھلے سال بالی انڈونیشیا میں ہونے والے اجلاس کی طرح اس برس بھی یہ اجلاس یوکرائن کی جنگ بندی کے مسلے میں الجھ کر نہ رہ جائے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سربراہ اجلاس سے قبل مارچ 2023 میں ہونے والے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے اختتام پر اعلامیہ جاری نہیں کیا جاسکا ۔ وہ اجلاس بھی دہلی میں ہی ہوا تھا۔

حالیہ سربراہ اجلاس کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس میں حسبِ سابق روس کے صدر ولادیمیر پوتن شریک نہیں ہوئے انہوں نے اپنے وزیر خارجہ کو بھیج دیا ۔ جب کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے پہلی مرتبہ G-20 کے سربراہ اجلاس سے گریز کیا اور اپنے وزیراعظم لی کی چیانگ کو بھیج دیا ۔ یاد رہے کہ مئی 2023 میں بھارت نے سیاحت کے فروغ کے لیے G-20 کا ایک اجلاس مقبوضہ کشمیر میں منعقد کیا تھا جس کا چین اور سعودی عرب نے بائیکاٹ کردیا تھا، کیوں کہ کشمیر بدستور ایک متنازع علاقہ ہے ۔ اپنے قیام سے اب تک G-20 اختلافات کا شکار رہی ہے جس کی بڑی وجہ مختلف طاقتوں کا ایک دوسرے کی طرف معاندانہ رویہ ہے۔ 

مثلاً امریکا، بھارت، چین اور روس مسلسل ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں ۔ اگر امریکا اور بھارت شیر و شَکَر ہوتے ہیں تو چین اور روس کو یہ اچھا نہیں لگتا اور اگر چین روس کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتا ہے تو امریکا اور بھارت کو ناگوار گزرتا ہے ۔ اسی طرح بھارت اور چین کے سرحدی تنازعے اچھے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنے رہتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود حالیہ اجلاس کو بھارت کی ایک بڑی کام یابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی کام یابی تو یہ ہے کہ تمام رہ نماؤں نے ایک مشترکہ اعلامیے پر اتفاق کر لیا ،گو کہ اس کے لیے یوکرائن کے تنازعے پر کچھ سمجھوتے کرنے پڑے ، ماحولیاتی تبدیلیوں پر بھی مکمل اتفاق نہیں تھا۔ 

متفقہ اعلامیہ بڑی حد تک حیران کن ہے، کیوں کہ اجلاس سے قبل جنگِ یوکرائن پر شدید اختلافات تھے۔ ایک موقع پر تو یہ لگ رہا تھا کہ پورا اجلاس اپنی پٹری سے ہٹ جائے گا۔ مغربی ممالک تمام ارکان سے یہ مطالبہ کررہے تھے کہ ماسکو کے خلاف شدید موقف اختیار کیا جائے اور روس کے یوکرائن پر حملے کی مذمت کی جائے۔ اس پر روس نے ایسی کسی بھی قرار داد کو مسترد کرنے کی دھمکی دے رکھی تھی جس میں اس کے موقف کی عکاسی نہ کی گئی ہو ، پھر بھی بھارت نے مہارت سے اس مسئلے کو حل کیا اور ایک متوازن اعلامیہ تیار کر کے اس پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا ۔ اس اجلاس میں کئی اہم فیصلے بھی کیے گئے مثلاً پہلی بار افریقی یونین کو اس گروپ کے رکن کی حیثیت سے شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 

اس کے لیے مودی نے خاصا کام کیا تاکہ خود کو گلوبل ساؤتھ یعنی کرّہ ارض کے جنوبی حصے کے ممالک جو زیادہ تر ترقی پذیر ہیں ان کے نمائندے کے طور پر ابھار سکیں۔ اجلاس کے شروع میں ہی مودی نے افریقی یونین کے سربراہ غزالی عثمانی کو دعوت دی کہ وہ دیگر عالمی رہ نماؤں کے ساتھ اپنی نشست سنبھال لیں۔ اس سے قبل G-20 میں اُنیس ممالک اور یورپی یونین شامل تھے اور جنوبی افریقہ اپنے براعظم کا واحد نمائندہ ملک تھا ۔ یاد رہے کہ افریقی یونین کے پچپن رکن ممالک ہیں ،جن میں سے چھ پر فوجی آمریتیں قابض ہیں ،اس لیے اُن کی رکنیت افریقی یونین سے معطل ہے۔ 

افریقہ کی مجموعی پیداوار تین ٹریلین ڈالر ہے اور یہاں تقریباً ڈیڑھ ارب لوگ رہتے ہیں ۔ اس طرح دیکھا جائے تو چین اور بھارت بھی ڈیڑھ ڈیڑھ ارب کی آبادی رکھتے ہیں یعنی پورے افریقا کی آبادی چین اور بھارت کے برابر ہے ۔ یورپی یونین اور افریقی یونین کی طرف سے صرف ان اتحاددوں کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرتے ہیں ۔ افریقی یونین کے موجودہ سربراہ غزالی عثمان خود ایک سابق فوجی افسر ہیں جو پہلی مرتبہ 1999 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے اور 2006 تک افریقی ملک کوموروس کے صدر رہے تھے، پھر 2016 میں دوبارہ منتخب ہوکر صدر بنے۔ 

اب یہ فروری 2023 سے افریقی یونین کے سربراہ ہیں، اسی حیثیت میں انہوں نے G-20 کے اجلاس میں افریقہ کی نمائندگی کی۔ اجلاس میں یوکرائن پر ایک بار پھر مختلف خیالات سننے کو ملے۔ گزشتہ برس روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد سے روس کے صدر دیگر ممالک میں شرکت سے گریز کرتے رہے ہیں کیوں کہ انہیں تنقید کا خدشہ ہوتا ہے جس سے وہ بچنا چاہتے ہیں ۔ اب اس اجلاس میں اعلامیے نے گول مول الفاظ میں علاقوں پر قبضے کے لیے طاقت کے استعمال کی مذمت تو کی لیکن روس کا نام لے کر اسے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا ،چوں کہ روس اس بات سے انکاری ہے کہ اس نے بزورِ طاقت یوکرائن کے کسی حصے پر قبضہ کیا ہے ،اس لیے وہ بھی اعلامیے پر راضی ہوگیا ۔ اس پر یوکرائن کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اعلامیے پر تنقید کی اور کہا کہ G-20 کو اس پر فخر نہیں کرنا چاہیے۔ 

اجلاس کی ایک ناکامی یہ رہی کہ اس میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ایندھن کے استعمال پر اتفاق نہ ہو سکا گو کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ نے ایک دن قبل ہی اس بات پر زور دیا تھا کہ خاص زمینی ایندھن کے وسائل کا استعمال بڑے پیمانے پر کم کرنا ہوگا تاکہ آلودگی پر قابو پایا جا سکے ۔ یاد رہے کہ G-20 ممالک دنیا میں آلودگی کا اسّی فی صد حصہ خود دیتے لیکن پھر اس پر قابو پانے لیے سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اب نومبر میں متحدہ عرب امارات میں ماحولیات پر ایک اور کانفرنس ہوگی مگر اس کے لیے جو بنیادی اتفاق رائے درکار تھا وہ دہلی میں نہ ہوسکا، البتہ اجلاس میں ایسی توانائی کے استعمال پر زور دیا گیا جس سے آلودگی کم ہو سکے اور 2025 کے بعد آلودگی میں کمی کا بھی ڈول ڈالا گیا۔ 

عالمی درجہ حرارت میں ڈیڑھ درجے سینٹی گریڈ کی کمی کی ضرورت کا بھی اعتراف کیا گیا، لیکن اس طرح کے اعتراف سے کام نہیں چلنے والا،اس کے لیے گرین گیسوں میں کم از کم چالیس فی صد کمی کی ضرورت ہے مگر اس کے لیے G-20 کے اجلاس میں کوئی ٹھوس فیصلے نہیں کیے جاسکے ۔ دہلی اجلاس میں بڑا اعلان یہ کیا گیا کہ پرانے اسپائس روٹ یا وہ راستے جن سے مسالوں کی تجارت ہوا کرتی تھی اُن کو بحال کرنے کے لیے سیکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ 

یعنی شاہراہ مسالہ جات کو چین کی شاہراہ ریشم کے مقابلے میں پیش کیا جارہا ہے جس کو چین بیلٹ اور سڑک کے منصوبوں کے تحت آگے بڑھا رہا ہے۔ چوں کہ پاکستان سی پیک کے ذریعے چین کے ان منصوبوں کا حصہ ہے اس لیے بھارت اور امریکا اب اس کے مقابلے میں نئی حکمت عملی پر عمل کرتے نظر آرہے ہیں۔ یہ حکمت عملی کس حد تک کام یاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن فی الحال اس سے بھارت کو ذرا خوش ہونے کا موقع تو مل گیا ہے۔ 

شاہراہ مسالہ (اسپائس روٹ) کے بڑے سرمایہ کار امریکا اور سعودی عرب ہوں گے۔ اس شاہراہ کے ذریعے یورپ اور مشرقی وسطی کو بھارت سے ملانے کے منصوبے شامل ہوں گے ،جن میں ریلوے، بندرگاہیں، بجلی کے بڑے پروجیکٹ، ڈیٹا نیٹ ورکنگ اور ہائیڈروجن پائپ لائن کو مشرقی وسطی سے بھارت لانے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ بظاہر یہ منصوبے چین کے منصوبوں کا چربہ معلوم ہوتے ہیں اور امریکا،بھارت خود چین کے نقشِ قدم پر چل کر اس کے اثرو رسوخ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو توقع ہے کہ ان منصوبوں کے ذریعے یورپ اور بھارت کی تجارت کو بذریعہ مشرقی وسطیٰ چالیس فی صد تک مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔

ان منصوبوں میں اسرائیل کو بھی شامل کر کے اس کے بین الاقوامی روابط میں اضافوں کی بھی توقع کی جارہی ہے ۔ دہلی سربراہ اجلاس میں پہلی بار انڈیا کی بجائے بھارت کے لفظ کو استعمال کیا گیا، تقریب کے پس منظر میں لفظ بھارت جلی حروف میں لکھا گیا تھا، اس کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہ نما اکثر یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ بھارت کو واحد سرکاری نام کے طور پر اختیار کر کے انڈیا کو خارج کردیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کا لفظ بیرونی طاقتوں نے بھارت پر مسلط کیا جس کو ترک کیا جانا چاہیے۔ لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس ممکنہ تبدیلی کی شدید مخالفت کررہی ہیں۔

کانگریس کے رہ نما راہول گاندھی نے اس تجویز کو نامعقول قرار دیا ہے ۔ راہول گاندھی دہلی اجلاس کے دنوں میں یورپ کے دورے پر رہے، بیلجیئم میں انہوں نے مودی پر شدید تنقید کی تھی۔ اجلاس کی ایک اور خاص بات برطانیہ کے ہندی نژاد وزیراعظم رشی سوناک کی شرکت بھی تھی ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اپنے آبائی وطن میں ایک سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے آئے ۔ ان کی اہلیہ اکشاتا مورتی بھی اُن کے ہمراہ تھیں جو خود بھارت میں ہی پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھی تھیں۔ 

یاد رہے کہ رشی سوناک کا خاندان بھارت کے امیر ترین خاندانوں میں شامل ہے۔ دہلی اجلاس میں مودی نے دیگر ممالک کو بھی خصوصی دعوت پر اس میں شرکت کی دعوت دی جو میزبان ملک کا استحقاق ہوتا ہے۔ اس برس بھارت نے اپنے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے علاوہ مصر، ماریش، نیدرلینڈز، نائجیریا، عمان، سنگاپور، اسپین اور متحدہ عرب امارات کو مدعو کیا ۔ ان کے علاوہ بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں، اقوامِ متحدہ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، عالمی ادارہ صحت، عالمی تنظیم تجارت (WTO)، بین الاقوامی لیبر تنظیم (ILO) کو بھی مدعو کیا گیا تھا ،ساتھ ہی ایشیائی ترقیاتی بینک اور بین الاقوامی شمسی توانائی کے اتحاد یا سولر الائنس کو بھی بلایا گیا۔ 

بھارت نے سربراہ اجلاس کا نعرہ رکھا تھا " واسو دھیوا کٹم بکم " یعنی "دنیا ایک خاندان" ۔ اس سنسکرت کے اس حوالے سے بھی بھارتی قوم پرستی جھلکتی ہے ۔ لیکن ان تمام باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ G-20 اجلاس سے پہلے اور اس کے دوران میں سب ٹھیک رہا یا خود بھارت ایک مثالی ملک بن چکا ہے ۔ خود بھارت میں بہت سے دانشوروں اور سیاسی کارکنوں نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ G-20 دراصل بھارت میں موجود شدید معاشی ناہم واری پر پردہ ڈال رہا ہے ۔ بہت سے لوگوں نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا کہ بھارت کے اصل مسائل کی طرف اس اجلاس میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

بائیں بازو کے کارکن سرمایہ دارانہ ملکوں کی بالادستی کو للکارتے ہوئے G-20 اجلاس کے خلاف مظاہرے اور بنیادی معاشی مسائل کے حل کا مطالبہ کرتے رہے جن میں غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ شامل ہے ،جس پر G-20 اجلاس میں کوئی بات نہیں کی گئی ،اجلاس کے خلاف مظاہروں کو روکنے کے لیے بھارتی حکومت نے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی دہلی میں تعینات کر رکھے تھے ۔ بھارت کی مایہ ناز ادیب اور دانشور ،ارون دھتی رائے نے کہا کہ بائیڈن اور میکرون جیسے مغربی سرمایہ دار ملکوں کے رہ نما جانتے ہیں کہ بھارت میں کیا ہورہا ہے لیکن اس کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتے ،نہ ہی وہ بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ 

اجلاس سے قبل دہلی کو خوب صورت بنانے کے لیے کئی کچی آبادیاں مسمار کی گئیں اور لوگوں کو بے گھر کیا گیا لیکن مغربی ممالک اس پر خاموش رہے۔ ارون دھتی رائے نے الزام لگایا کہ یہ اجلاس بھارت کا نہیں بل کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا اجلاس معلوم ہوتا ہے ،کیوں کہ ہر جگہ زعفرانی رنگ کے کنول کے پھول بنائے گئے تھے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کا نشان بھی ہے اور ہر جگہ مودی کی جے جے کار بھی کی جاتی رہی ۔ ارون دھتی رائے اس وقت بھارت میں مسلم آبادی پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایک متحرک ،بہادر آواز لے کر اٹھی ہیں اور مودی حکومت کو خوب بے نقاب کر رہی ہیں۔ 

ارون دھتی رائے کا کہنا تھا کہ G-20 صرف تجارت میں دلچسپی رکھتا ہے یا فوجی سازو سامان کی خرید و فروخت میں۔ عام آدمی کے مسائل سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ G-20 کو بڑی حد تک بی جے پی اور خود مودی کا یک فردی اشتہار یا ون مین شو بنا دیا گیا لیکن یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ مودی اور بی جے پی کے پروپیگنڈے نے اس اجلاس کو بڑی حد تک اپنے قومی اور بین الاقوامی مقاصد کے حصول کے لیے بھر پور طریقے سے استعمال کیا ۔ بھارت نے خود کو سندر ثابت کرنے کے لیے پوری کوشش کی کہ اس ملک کے غریبوں اور اقلیتوں کی حالت زار کو بالکل نظر انداز کردیا جائے اور ایسا ہی ہوا۔

اب پاکستان میں ہمارے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس اجلاس سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے۔ چلیں بھارت کو تو چھوڑیں بنگلہ دیش کی مثال لیتے ہیں۔ اس اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے وزیراعظم حسینہ واجد بہت خوش تھیں، وہاں سے فرانس کے صدر میکرون براہِ راست ڈھاکے کے دورے پر روانہ ہوئے جہاں حسینہ واجد نے انہیں خوش آمدید کہا ۔ ذرا یاد کیجئیے آخری مرتبہ کب کس فرنچ صدر نے پاکستان کا دورہ کیا تھا ۔ غالباً آخری بار فرانس کے صدر فرانسوا متراں 1990 میں پاکستان آئے تھے جب محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھیں ۔ چلیں فرانس کو بھی چھوڑیں اور یاد کریں کہ کب کس یورپی ملک کے سربراہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

جی 20 ممالک ،عالمی منظر نامہ اور پاکستان

کسی ملک کی بین الاقوامی سطح پر عزت و احترام کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کتنے غیرملکی سربراہ آتے ہیں ۔ کتنے سربراہ اجلاس ہوتے ہیں یا کتنے بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں ۔ ہم تو جنوبی ایشیا یا ایشیائی گیمز کرانے سے بھی قاصر ہیں ۔ اس کی وجہ ایک تو ہمارے ابتر معاشی حالات ہیں اور دوسرے ہماری خارجہ اور اقتصادی پالیسی ہے جس میں یا تو دیگر ممالک سے مدد مانگتے رہتے ہیں یا کشمیر کے مسئلے پر مدد کے طلب گار ہوتے ہیں ۔

بھارت اس لیے کام یاب ہو رہا ہے کہ اس نے معاشی اور خارجہ پالیسی کے محاذوں پر اپنے مقاصد کو بیسویں صدی کے مطابق ڈھالا ہے ۔ گو کہ کشمیر میں بھارت کے مظالم قابل مذمت ہیں مگر بین الاقوامی طاقتیں ان مظالم کو اس لیے نظر انداز کر رہی ہیں کہ بھارت ایک بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ جب کہ ہم نے پاکستان میں جہادی کلچر، مذہبی انتہا پسندی اور جہالت و بے روزگاری کو تو قابو میں نہیں کیا لیکن شور مچا کر خود کو منوانے کی کوشش کی ہے ۔ 

بیشتر مسلم ممالک بھی بشمول سعودی عرب، انڈونیشیا، ترکی، بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات اور عمان وغيره کے ساتھ بھارت اچھے تعلقات بنانے میں کام یاب رہا ہے لیکن ہم جنرل ضیاء الحق کے دور سے افغانستان کی جنگ میں ایسے الجھے کہ بقول جون ایلیا " خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں" دہلی سربراہ اجلاس میں کئی مسلم ممالک کی شمولیت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ممالک اپنے مفادات کو ہر فروعی مسئلے سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔ جب کہ پاکستان کےچین کے علاوہ افغانستان، ایران اور بھارت سے اچھے تعلقات میں ہی بہتر مستقبل ہے۔