• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

داغ دہلوی، ہماری زبان، ہمارے بیان، ہمارے اظہار اور ہماری طاقت کا ایک اشاریہ ہیں۔ فصاحت و بلوغت، لہجے اور رسائی کی بات چلے تو سب سے پہلے ذہن داغ ہی کی طرف جاتا ہے۔ برصغیر میں داغ کے سیکڑوں نہیں بلا مبالغہ ہزاروں شاگرد تھے اسی لئے فصیح الملک داغ دہلوی کو ’’جہاں استاد‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ داغ کے بعد ان کی جانشینی کے لیے جن اصحاب کی طرف نظریں لگی ہوئی تھیں ان میں بیخود دہلوی، سائل دہلوی اور احسن مارہروی سرفہرست تھے ،بالآخر نقادان فن نے فصاحت و بلاغت کی ترسیل ، زبان و بیان اور محاورے کی خدمت کا تاج استاد بیخود دہلوی کے سر پر رکھ دیا۔ 

ہر چند کہ نواب سائل دہلوی داغ کے چہیتے شاگرد اور داماد ہونے کی وجہ سے خود کو اس جانشینی کا سب سے زیادہ مستحق گردانتے تھے لیکن زبان کے پروانوں اور بیان کے متوالوں نے ہمیشہ بیخود دہلوی کو داغ کا سچا جانشین سمجھا غالباً بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تمام تر نیاز مندی کے باوجود زبان و بیان الفاظ و اظہار کے بعض مسائل پر بیخود اپنے استاد داغ سے بھی ’’بھڑ‘‘ جاتے تھے اور داغ بھی انکا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ استاد بیخود دہلوی نہ صرف فصاحت و بلاغت، زبان و بیان اظہار و ادا کا ایک یادگار مرقع تھے بلکہ دلی کی تہذیب کا ایک خوبصورت نمونہ بھی تھے۔ وضع دار، خوددار، مرنجاں مرنج اور ملنسار۔ 

ان کا تعلق دلی کے ایک متمول اور معزز گھرانے سے تھا۔ شعر و سخن فکر و فنی ادب اور تہذیب کی فضا میں ان کی پرورش ہوئی تھی جن استاتذہ سے انہوں نے تحصیل علم کی ان میں مولانا حالی جیسے عہد ساز عالم شامل تھے ۔ بچپن میں بیخود کے اشعار سن کر انہوں نے بھی بیخود کو باقاعدہ عشق سخن کا مشورہ دیا تھا۔ حالی کی سفارش پر بیخود صاحب جب اپنے ماموں عبدالرحیم خان بیدل کے ساتھ داغ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شاگردی میں آنے کی درخواست کی تو داغ نے کچھ اشعار سننے کی فرماش کی اور جب بیخود صاحب نے اپنی تازہ غزل کا یہ شعر پڑھا کہ:

جب آنکھ پڑی اپنی اک بات نظر آئی

ان دیکھنے والوں نے تجھ کو ابھی کیا دیکھا

تو داغ بھڑک اٹھے اور بیخود کے سر پردست شفقت رکھ دیا۔ داغ سے بیخود کو عقیدت بھی تھی اور محبت بھی انہوں نے دلی کے علاوہ حیدرآباد میں بھی داغ کے ساتھ ایک طویل عرضہ گزارا۔ دونوں کے مزاج کی مناسبت اور طبیعت کی یک رنگی اس درجے کو پہنچی ہوئی تھی کہ دونوں کے کلام میں امتیاز مشکل ہوجاتا تھا۔ بیخود بڑی ہشت پہلو شخصیت کے حامل تھے۔ فنی سپہ گری میں استاد سپراکی مشاق اور فنی کشتی میں طاق تھے۔ ان کا محبوب مشغلہ کبوتر بازی تھا۔ 

ان کی چھتری پر رنگ برنگ قسم قسم کے کبوتر پرا باندھے موجود ہوتے تھے اور اپنے کبوتروں کے سامنے کسی کو ’’دانہ‘‘ نہیں ڈالتے تھے۔ داغ کی طرح بیخود کے ابھی بے شمار شاگرد تھے وہ بہت ٹھوک بجاکر شاگرد بناتے تھے۔ استاد بیخود کبوتروں سے شغل فرمارہے تھے کہ ایک صاحب زادے تشریف لائے شاگردی میں آنے پر بے حد اصرار کیا۔ صاحبزادے کے دوست احباب انہیں چڑھا چکے تھے کہ تم بہت اچھے شعر کہتے ہو۔ صاحبزادے کے بے حد اصرار پر بیخود نے کہا اچھا اپنا کوئی شعر سنائو۔ صاحب زادے نے پڑھا۔

میں چن رہا ہوں چمن میں جلے ہوئے تنکے

خیال پھر ہے مجھے آشیانہ بنانے کا

اور داد طلب نظروں سے بیخود کی طرف دیکھا۔ بیخود نے چند لمحے غور کیا اور پھر غیرپارلیمانی زبان استعمال کرتے ہوئے فرمایا کہ:

بھاگ یہاں سے جب تنکے جل ہی چکے

تو آشیانہ کیا بنائے گا‘‘

یہ رنگ بیخود صاحب کی طبیعت کا مخصوص رنگ تھا۔ دلی کے علاقے جامع مسجد کے مخصوص چائے خانوں میں بیخود صاحب اپنے شاگردوں اور مداحوں کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہوتے تھے اور مزے مزے کی داستانیں اور بھانت بھانت کی بولیاں اس انداز سے سناتے تھے کہ :

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

کی تصویر کھیچ جاتی تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ بغیر بیخود دہلوی کی شرکت کے برصغیر کا کوئی مشاعرہ کامیاب مشاہرہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسی لئے غالباً 1953ء میں اندرا گاندھی خود آکر بصد اصرار بیخود صاحب کو لال قلعہ کے مشہور زمانہ مشاعرہ جشن آزادی کے لیے لے گئی تھیں اور انہوں نے نہ بیخود کی ناسازی طبع کا عذر سنا تھا نہ کمزوری کا ان کا اصرار تھا کہ آپ کے بغیر مشاعرہ ہو ہی نہیں سکتا۔ بیخود صاحب تخت پر بیٹھ کر پڑھتے تھے لیکن ایسا کہ ان کے تحت پر ہزار ترنم نگار، پڑھتے وقت وہ مجسم شعر بن جاتے تھے اور شعر کی ادائیگی اس طرح کرتے تھے کہ ایک ایک لفظ کی ’’تصویر‘‘ کھینچ جاتی تھی۔ 

وہ دلی کی روایتوں کے امین تھے مشاعروں میں ’’ثقافت‘‘ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ نجی محفلوں میں ان کی شرکت ہمیشہ باعث شگفتگی ہوئی تھی۔ ایک بار حضرت صفی لکھنوی نے کسی محفل میں بیخود صاحب سے دریافت کیا ’’ان دنوں ملک میں مستند اور باکمال شاعر کون ہیں؟ انھوں نے جواب دیا بس دو ہیں آپ اور میں اور آپ بھی کیا؟‘‘ اردو بیخود صاحب کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ داغ، بیخود صاحب کو اپنی زبان کہا کرتے تھے انہوں نے بیخود کو وحید العصر کا خطاب دیا تھا۔ اسی لئے انہوں نے کہا تھا کہ :

زبان استاد کی بیخود ترے حصے میں آئی ہے

پھر اما بھی نہیں کوئی خدا رکھے ترے دم کو

2؍کتوبر 1955ء کو بیخود صاحب خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی وفات سے دلی سونی ہوگئی اور رنگ داغ کی ایک شمع گل ہوگئی غزل کی ایک روایت ختم ہوگئی لیکن شائقین ادب کے دلوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی