ایک نوجوان نے سوال کیا کہ،’’ مزدور یا محنت کش روزانہ کام کرکے اپنی اجرت گھر لے کر جاتا ہے، اسے یکم مئی سے کیا مطلب اسے تو روز ہی اپنے مالک کے سامنے ہاتھ پھیلانے ہیں اور اس کا ہماری زندگی سے بھی کوئی تعلق نہیں بنتا۔‘‘
بات تو سادہ سی ہے لیکن گہرائی بہت ہے۔ یہ اس نوجوان کو بھی نہیں معلوم کہ عالمی سطح پر مزدور اور محنت کشوں کے لیے یکم مئی کا دن کیوں منایا جاتا ہے اور واقعی نوجوان اس حقیقت سے ناآشنا ہیں وہ اس دن کی آگہی سے بالکل عاری نظر آتے ہیں۔
نوجوان مزدور ہو یا محنت کش، اس کے پیچھے اک گھرانہ یا خاندان کھڑا ہوتا ہے اسے معاشرے میں کیا حقوق حاصل ہیں؟ کیا وہ ایک دن روزی کمانے کے بعد اگلے دن کام پر جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس کی وجہ معاشرے کی وہ طبقاتی جنگ ہے جس کا آغاز 18ویں صدی سے ہوا تھا۔ جب زمین پر معاشی، معاشرتی استحصالی قوتیں پیدا ہوئیں اور انسان پر طبقات کی جنگ مسلط کردی گئی، پھر یہ صورتحال یکم مئی بن گئی یعنی مزدوروں کا عالمی دن۔
طبقاتی نظام میں کشمکش کی وجہ سے یہ تاریخ ساز حادثہ یا واقعہ امریکا کے شہر شکاگو میں 1886ء میں رونما ہوا۔ اک شخص نے معاشی قتل عام کی بنا پر ہڑتال کے دوران تنگ آکر پولیس پر ڈائنا مائٹ بم سے حملہ کردیا جس کے نتیجے میں پولیس فورس نے وہاں موجود تمام مزدور ورکرز اور محنت کشوں پر فائر کھول دی، جس سے شکاگو کی سڑکیں لہولہان ہوگئیں اور کئی افراد جان کی بازی ہار گئے۔ مزدوروں نے اس بہتے ہوئے لہو سے اپنے سفید پرچم کو ڈبوکر سرخ کرلیا جو پرچم عالمی مزدور تحریک کا پرچم بن گیا۔
اس تحریک میں ہر عمر کے افراد خاص طور پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی جو اس تحریک کو کامیاب کرنے میں مگن تھی۔ اس تحریک کا ایک تاریخی تسلسل تھا جس کے اثرات پوری دنیا کے مزدوروں تک پھیلے، کیونکہ اس تحریک سے جو مزدور طبقہ شعوری طور پر مضبوط ہوکر سامنے آرہا تھا، اس کے پیچھے کارل مارکس اور فریڈریک اینگلز جیسے معاشی اور سائنسی مفکرین اور فلسفیوں نے اپنے نظریات سے اس تحریک کو روشن رکھا۔
یہ طبقاتی جدوجہد کی معرکہ آرائی کا ایک اہم مرحلہ تھا جو ایک طبقاتی کشمکش کا حصہ رہا ، اسی کی بنیاد پر شکاگو میں امریکن فیڈریشن آف لیبر بنائی گئی جس کی پذیرائی میں نوجوانوں نے بھرپور طریقے سے حصہ لیا بالخصوص مظلوم طبقے کے نوجوانوں نے اس فیڈریشن کے صدر کے ساتھ مکمل تعاون کایقین دلایا۔
انہوں نے اس وقت کے نوجوانوں کو مزدوروں کو یکجا کرنے کے کہا ’۔’تمام مذہب دنیا میں ظالم اور مظلوم طبقوں کے درمیان ایک جدوجہد کا آغاز ہوچکا ہے یہ جدوجہد زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات میں شامل مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے ہے۔ اس کنویشن کے چند نکات یہ تھےکہ،
1- دن میں 8گھنٹے کام کے اوقات ہونے چاہئیں۔
2- وہ تمام سیاہ قوانین جو سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اسے منسوخ کیا جائے۔
3-اجرت کا تعین تمام شہروں میں مساوات کی بنیاد پر ہو۔
4-1-4سال سے کم عمر بچوں سے مزدوری کا کام نہ لیا جائے۔
5- مزدوروں میں تعلیم عام کرنے کے لیے مختلف اقسام کے طریقہ واضح کیے جائیں۔
6- کام کے لیے صاف ستھرا اور روشن ماحول فراہم کیا جائے۔
اس وقت پوری دنیا کے مزدور اور محنت کشوں کے لیے ان ہی ضابطہ اخلاق کے تحت قوانین میں ترمیم کی گئی ہے تاکہ ہر ملک کا مزدور اور محنت کش طبقہ پرامن رہے۔
اسی تناظر میں پاکستانی محنت کش اور مزدور طبقہ کے نوجوانوںمیں یہ احساس ابھرنے لگا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مزدوروں کی بہتری کے لئےقوانین واضح کیے جائیں چنانچہ پاکستان میں مزدور پالیسی کا آغاز 1972ء میں ہوا اور دنیا کے تمام ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یکم مئی کو قانونی طور پر مزدور ڈے کا خطاب دیا گیا۔
پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا باقاعدہ ممبر ہے جس کا مقصد مزدور کو معاشی حقوق اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جائے اور بین الااقومی چارٹر کے مطابق پاکستانی مزدور طبقے کی خوشحالی کے اقدامات کیے جانے چاہیں۔
پاکستان میں کل آبادی کا 33% سے زائد مزدور اور محنت کش نوجوانوں پر مشتعمل ہے جس میں ہمارے ہاری اور کسان بھی شامل ہیں ۔ اگر بالغ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ 70% فیصد سے زائد یعنی 6؍کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جو کسی بھی ملک کی معاشی سمت کا اچھی طرح تعین کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی لیبر فورس میں نوجوانوں کا حصہ 60 فی صد سے زیادہ ہے جبکہ صنعتی شعبے میں مزدوروں کی تعداد 72 فی صد سے زائد ہے۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے مزدور اور محنت کش نوجوانوں کےحقوق کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی شہری اور دیہی آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دیہی علاقوں میں موجود مزدور طبقہ کے ساتھ ان کے نوجوانوں کو بھی تعلیمی، تیکنکی لحاظ سے ان کو دیگر ممالک کے مزدور طبقہ سے بہت پیچھے کر دیا ہے۔ آج کا نوجوان اپنے اپنے دیہی علاقوں میں اپنی محنت، لگن کے جذے سے کچھ اچھا کرنا چاہتا ہے لیکن اسے وہ سہولیات ہی میسر نہیں ہیں ،جس کی بنا پر وہ اپنے گاؤں یا قصبے کی ترقی کے لئے کچھ کر سکیں اور یہی صورتحال شہری علاقوں کے نوجوانوں کے اندر بھی پائی جا رہی ہے۔ دیہات اور پسماندہ علاقوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں سے مزدوری کرائی جاتی ہے وہ اپنے اپنے ہاتھوں سے تپتی دھوپ میں بھٹیوں میں اینٹیں بناتے ہیں۔ کھیتوں میں کاشتکاری میں مدد دیتے ہیں۔
سڑکوں پر پتھر توڑتے ہیں لیکن ہماری انتظامیہ کو یہ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح شہری علاقوں میں رہنے والے بچے اور نسل نو اور ہمارے نوجوان ورکشاپوں، دوکانوں، کارخانوں پر کام کرتے نظر آئیں گے اور جو کم پڑھا لکھا طبقہ جو مزدوری یا کوئی ہنر سے کمانا چاہتا ہے تو اسے بہت ہی کم اجرت پر روزانہ کی بنیاد پر عارضی طور پر رکھا جاتا ہے اور وہ مزدور اور محنت کش نوجوان جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود صنعتی علاقوں میں کام کو ترجیح دیتے ہیں انہیں تین چار ہزار دے کر زیادہ پیسوں کی رسید لی جاتی ہے اور دیگر سہولیات بھی ان کو میسر نہیں یہی وجہ ہے کہ پھر اداروں میں مزدور یونیز وغیرہ کا قیام عمل میں آتا ہے لیکن ہمارے ملک میں چند دہائیوں سے مسلسل مزدور یونین بلکہ ہر طرح کی یونین بازی پر پابندی ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ ہر طبقے میں احساس کمتری بڑھتا جا رہا ہے۔
خاص کر مزدور، محنت کش، نچلا طبقہ اس کے زیادہ شکار ہیں اور طبقاتی کشمکش کی اس جنگ میں سرمایہ دار جاگیردارانہ نظام نے عام انسانی زندگی کو مفلوج کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی قوم کا مزدور اور محنت کش طبقہ ہر روز اک نئے جذبے کے ساتھ روز گار کی تلاش میں فعال نکل جاتا ہے کہ معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں کچھ تو مدد ملے گی۔
حکومت پاکستان نے محنت کش اور مزدور طبقہ جو مختلف جگہوں پر کام کرتے ہیں ان کے لئے ماہانہ تنخواہ 18,000 مقرر کی ہے لیکن اس کی بھی شرائط ہیں کہ اسے بانڈ بھرنا ہے کنفرمشن کا وقت گزرنا ہے۔ اور گواہان کی تصدیق کا سرٹیفکیٹ چاہیے جب جا کہ چھ یا سال کے بعد اُسے 14سے15 ہزار کی اُجرت ملنی شروع ہوتی ہے۔
پاکستان میں یکم مئی کے حوالے سے جب سال میں یہ دن آتا ہے تو تو مزدوروں اور محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مختلف قس کے ورائٹی شو اور دیگر پروگرام مرتب کیے جاتے ہیںاور اس دن محنت کش نوجوان اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ریلی وغیرہ بھی نکالتے ہیں۔ اس موقع پر یکم مئی 1886کے واقعہ کی یاد میں مختلف تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے ہر مکتبہ فکر کے افراد اس میں شرکت کرتے ہیں، تعلیمی اداروں میں بھی مختلف نوعیت کے پروگرام ہوتے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اور ہماری ریاستی اداروں کو محنت کشوں کی خوش حالی اور استحکام کے لیے ہاؤسنگ اسکیمیں، میڈیکل کی سہولتیں ، اُن کے بچوں کے تعلیمی اخراجات مقرر کیے جائیں اور ماہانہ بنیاد پر قومی سطح پر ان کے وظائف مقرر کیئے جائیں، تاکہ وہ دیگر معاشی اور طبقاتی نطام میں اپنے حقوق کے لیے آگے بڑ سکیں۔ آج کے محنت کش نوجوانوں کو دیکھیں کہ وہ کام کرتے ہیں دن رات لیکن اُنہیں ان کی محنت کا معاوضہ برائے نام ملتا ہے۔