• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیاقت مظہر باقری

رحمان صاحب کے تین بچے تھے، دو بیٹے فرحان، سلمان اور ایک بیٹی ثناء، عید قریب تھی۔ رحمان صاحب نے بچوں سے کہا کہ،’’ اتوار کو میری چھٹی ہوتی ہے، اس لئے عید کی خریداری کے لئے بازار جائیں گے۔ یہ سن کر بچے خوش ہوگئے اور اپنی اپنی پسند کے جوتوں اور کپڑوں کا ذکر شروع کر دیا۔ اتوار کورحمان صاحب نے بیوی سے بھی چلنے کا کہا، مگر انھوں نے طبیعت کی خرابی کا کہہ کر بازار جانے سے انکار کر دیا، یوں رحمان صاحب اپنے تینوں بچوں کے ہمراہ بازارچلے گئے، جوتوں، کپڑوں اور دیگر اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں۔ 

بہرحال بچوں کے لئے عید کی خریداری بھی ضروری تھی۔ انھیں بازار میں گھومتے ہوئے ضرورت سے زیادہ وقت لگ گیا۔ اس دوران فرحان اپنے ابو اور بہن بھائی سے تھوڑا پیچھے رہ گیا، وہ کسی اور فیملی کو اپنے گھر والے سمجھ کر ان پیچھے پیچھے چل پڑا۔ جب رحمان صاحب نے مڑ کر دیکھا تو فرحان نظر نہیں آیا، وہ بہت پریشان ہوئے۔ سلمان اور ثناء کی خریداری تو مکمل ہوچکی تھی، تاہم فرحان کے جوتے خریدنا ابھی باقی تھا۔ رحمان صاحب دونوں بچوں کا ہاتھ تھامے پریشانی کے عالم میں دیوانہ وار ادھر ادھر اسے تلاش کرہے تھے۔ 

انھیں پریشان دیکھ کر ایک پولیس اہلکار نے جو ڈیوٹی پر موجود تھا پریشانی کی وجہ دریافت کی، بچے کی گمشدگی کا جان کر اس اہلکار نے مشورہ دیا کہ روڈ کے اس پار فلاحی ادارے نے ایک کیمپ لگایا ہے، جہاں گمشدہ بچوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں، وہاں جاکر رابطہ کریں۔ ادھر فرحان جو مختلف اسٹالز پر چیزیں دیکھ رہا تھا جیسے ہی اس کی نظر ساتھ کھڑے انکل اور ان کے بچوں پر پڑی وہ گھبرا گیا کہ یہ تو میرے ابو نہیں ہیں اور رونا شروع کردیا، کہنے لگا انکل میں اپنے ابو اور بہن بھائی کے ساتھ آیا تھا۔ 

ان صاحب نے دکاندار سے بچے کی گمشدگی کے بارے میں کہا تو، اس نے اسی کیمپ کا پتہ بتایا جہاں فرحان کے والد کو پولیس والے نے بھیجا تھا۔ وہ صاحب فرحان کو لے کر جیسے ہی کیمپ کے قریب پہنچے ، وہاں فرحان کے والد بھی موجود تھے انہوں نے جذبات کے عالم میں بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ فرحان کو گلے لگاتے ہوئے اس اجنبی شخص کا شکریہ ادا کیا۔ یہ تو اللّٰہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے اور اس فلاحی ادارے کی مہربانی کہ جس کی وجہ سے نہ صرف رحمان صاحب بلکہ بہت سے لوگ ایک بڑی پریشانی اور انتہائی مشکل و ناقابلِ فراموش سانحے سے محفوظ رہے۔ 

بچو! اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب بھی گھر کے کسی بڑے کے ہمراہ بازار یا سیر و تفریح کے لئے جائیں تو ان کا ہاتھ پکڑ کے رکھیں یا کم از کم پورے ہوش وحواس کے ساتھ یہ دیکھتے ہوئے کہ کس کے ساتھ دوکان میں داخل ہورہے ہو ، کس اسٹال میں کس کے ساتھ کھڑے ہو تاکہ غلطی سے کسی اجنبی کے پیچھ پیچھے نہ چل پڑو۔۔۔!!!