فلم بینی اور سینما کلچرل برصغیر پاک و ہند کی عوام ایک بڑی تعداد کی دل چسپی کا مرکز رہے ہیں، کیوں کہ یہ ایک ایسی تفریحی رہی ہے کہ جہاں لوگ ایک بڑے ہال کی مدھم روشنیوں میں ڈھائی سے تین گھنٹے بڑی اسکرین پر چلنے والے مناظر میں محو ہو کر اپنی زندگی کے دُکھ غموں سے بے فکر ہو کر بھرپور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قدیم زمانے اور جدید زمانے دونوں میں اس تفریحی کو بڑی اہمیت رہی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں عیدالفطر، عیدالاضحی اور دیگر تہواروں میں نئی فلموں کی نمائش کی اہمیت ہر دور میں محسوس کی گئی ہے۔ فلم ساز ان تہواروں کے سلسلے میں ہمیشہ مقابلے بازی کے لیے کوشاں رہے ہیں۔
گزشتہ چند برس کووڈ۔19کی وجہ سے دنیا میں شوبز کی سرگرمیاں آئی سولیشن کا شکار رہی ہیں۔ خصوصاً پاکستان پچھلے دو سال 2020ء اور2021ء کورونا کی عالمی وباء کی وجہ سے سینما ہال پر مکمل تالا بندی رہی، جس کی وجہ سے عوام کی میٹھی عیدیں فلموں کے بغیر پھیکی رہیں۔ 1973ء میں ’’پردے میں رہنے دو‘‘ کے نام سے فلم ریلیز ہوئی تھی، جس کے فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی تھے۔
رنگیلا، منور ظریف، صاعقہ اور زرقا نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے تھے ’’پردے میں رہنے دو‘‘ ایک مکمل مزاحیہ فلم تھی، جس نے اپنے دور میں کراچی کے لیرک سینما میں شان دار پلاٹنیم جوبلی منائی تھی۔ یہ حسن ِاتفاق ہے کہ ماضی میں بننے والی اس فلم کو بھی ایورریڈی پکچرز نے ریلیز کی تھی، اس عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی وجاہت رؤف کی فلم ’’پردے میں رہنے دو‘‘ کو بھی وہی ریلیز کررہا ہے۔
ذرا مختصر تذکرہ ماضی قریب میں ہونے والے عیدالفطر فلمی دَنگل کا بھی ہو جائے، یہ ذکر تو کافی طویل ہے، مگر یہاں صرف چند ہی اہم اور خاص عیدالفطر کے حوالے سے ہونے والے فلمی دَنگل کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں 1985ء میں عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں سے کرتے ہیں۔ اس سال جمعرات20جون کو عیدالفطر کا تہوار تھا، جب فلم ساز وہدایت کار جان محمد کی بلاک بسٹر فلم ’’ہانگ کانگ کے شعلے‘‘ نے پُورے پاکستان میں نمبرون پوزیشن حاصل کی۔ ماضی میں باکس آفس پر کھڑکی توڑ بزنس کرنے والی فلموں کی پبلسٹی اور سپرہٹ میوزک کا بڑا عمل دخل ہوتا تھا۔
خصوصاً عید پر پیش کی جانے والی فلموں کی پیشگی بکنگ کئی روز کے لیے ہاؤس فلم ہو جایا کرتی تھی۔ آج کل کی فلمیں ان چیزوں سے محروم ہیں، اول تو میوزک نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور اگر ہوتا بھی ہے، تو صرف کوئی ایک آدھ گانے تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے، ہانگ کانگ کے شعلے جے جے پروڈکشن نے پاکستان اور سری لنکا کے اشتراک سے بنائی تھی۔ اس فلم کی کاسٹ میں بابرہ شریف، وجیرہ میناکماری، جاوید شیخ، ادیب، مصطفی قریشی، سلطان فرید لائٹ، ماسٹر جاوید جان محمد، رنگیلا کے نام قابل ذکر تھے۔
کراچی کے پلازہ سینما پر16ہفتے چلنے کے ساتھ مجموعی طور پر اس فلم کا بزنس 83ہفتے رہا اور شان دار پلاٹینم جوبلی منانے میں کام یاب رہی۔ اس فلم کے ساتھ ہدایت کار شمیم آراء کی مس سنگاپور، جانور، مشرق مغرب کے علاوہ تین پنجابی فلمیں شکرا، لاکھا ڈاکو اور قسمت ریلیز ہوئیں تھیں۔ ہدایت کار اقبال کشمیری کی پنجابی فلم ’’قسمت‘‘ نے پنجاب سرکٹ میں نمایاں کام یابی حاصل کی، جب کہ اُردو فلموں میں پہلی پوزیشن ’’ہانگ کانگ کے شعلے‘‘ دوسری پوزیشن ’’مِس سنگاپور‘‘ کی رہی۔1986ء میں عیدالفطر کے موقع پر 3اردو فلمیں ہدایت کار جاوید فاضل کی حِساب، جان محمد کی ’’بنکاک کے چور‘‘ ہدایت کار اقبال کشمیری کی ’’ہم ایک ہیں‘‘ ریلیز ہوئیں۔ ان تینوں فلموں نے شان دار بزنس کیا، جب کہ پنجاب سرکٹ میں پنجابی فلمیں اکبرخان کی’’ چل سو چل‘‘ ’’چڑھدا طوفان‘‘ اور ’’ہٹلر‘‘ کی نمائش ہوئی۔
بروزجمعہ 3؍مارچ 1995ء کے موقع پر ہدایت کار سید نور کی ایکشن سے بھرپور سپرہٹ فلم ’’جیوا‘‘ کے مقابلے میں ہدایت کار حسن عسکری کی فلم خزانہ ریلیز ہوئی۔ اداکار ندیم کی اعلیٰ کردار نگار اور سپرہٹ میوزک کی بِنا پر جیوا نے یہ عید فیسٹیول اپنے نام کر لیا تھا۔
ملینیم سال 2000ء میں عیدالفطر کا تہوار دو مرتبہ آیا۔ پہلی عید بروزاتوار 9؍جنوری کومنائی گئی، جس میں ایورنیوپکچرز کی جدید ٹیکنیک پرمبنی حب الوطنی کے موضوع پر بننے والی فلم ’’گھرکب آؤ گے‘‘ کو دیکھنے کے لیے عوام کا ہجوم ہر شو پر دیکھا گیا۔ اسی سال دوسری عیدالفطر جمعرات 28 دسمبر کو منائی گئی، ایک بار پھر ایورنیو پکچرز کی ملکی سرحدوں پر کشمیر پالیسی کے حوالے سے بھارت کے مبنی پروپیگنڈے کے جواب میں ایک اعلیٰ معیار کی فلم ’’تیرے پیار میں ‘‘ پیش کی گئی، جس نے باکس آفس پر کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اداکار شان اس فلم میں اپنے فنی کیریئر کے یادگار کردار میں نظر آئے اور ان کا یہ کردار آج بھی فلم بینوں کے ذہن میں موجود ہے ، حسن عسکری کی ڈائریکشن میں بہت لاجواب فلم تھی۔
2011ء بروز منگل عیدالفطر کے موقع پر ایکشن سے بھرپور فلم ’’بھائی لوگ‘‘ اور اداکارہ ریما کی ڈائریکشن میں بننے والی رومانٹک فلم’’ لَو میں گم ’’ پیش کی گئیں۔ ’’بھائی لوگ‘‘ میگا بجٹ کی ایک بہت ہی اعلیٰ مقصد پر مبنی فلم تھی، جس کے فلم ساز چوہدری اعجاز کامران اور سید ایاز بخاری تھے، جب کہ معروف فوٹو گرافر فیصل بخاری اس فلم کے ڈائریکٹر تھے ۔ پرویز کلیم کی کہانی بہت مقصد کی تھی۔
حب الوطنی پر مبنی اس ایکشن فلم کے ساتھ سنسر بورڈ کے چند افسران نے ایک بھارتی فلم ’’باڈی گارڈ‘‘ کو بھاری چمک لےکر ریلیز کے سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب بھارتی فلمیں ہمارے سینما ہائوسز میں لگ رہی تھیں۔ وطن اور ضمیر فروش افسران نے بھارتی فلم کو اجازت دیتے ہوئے یہ خیال بھی نہ کیا کہ وہ ملکی فلمی صنعت کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔
عید پر ریلیز ہونے والی دو پاکستانی فلمیں بڑے بجٹ کی فلمیں تھیں۔ بھارتی فلم کے مقابلے میں دونوں فلموں کا بزنس تسلی بخش رہا۔ حال اور ماضی کے فلمی دَنگل کی یہ مختصر روداد بیان کی گئی ہے۔ تفصیل میں جاتے تو یہ بہت لمبی ہو جاتی لہٰذا مختصراً چند سال کا جائزہ پیش کیا ہے۔