• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی بندش سے کئی گھروں کے چولہے بجھ گئے

پروفیسر اعجاز احمد فاروقی

سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ

میں اس بات کے سخت خلاف ہوں کہ وزیر اعظم تبدیل ہوتے ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو بھی تبدیل کردیا جائے۔ موجودہ حکومت تبدیل ہونے کے بعد رمیز راجا کو اپنے عہدے پر قائم رہنا چاہیے۔ حکومت تبدیل ہوتے ہی سربراہ کی تبدیلی اب نہیں ہونی چاہیے۔کھیل کا نظام ایسا ہو جو سیاست سے آزاد ہو۔بدقسمتی سے پاکستان میں کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی تقرری حکومت وقت سے مشروط رہی ہے۔

ہر حکمراں کرکٹ بورڈ میں اپنے من پسند لوگوں کا تقرر کرتا ہےاور پھر جب چاہتے ہیں پی سی بی آئین کو بھی تبدیل کردیا جاتا ہے۔ آئی سی سی کا کہنا بھی یہی ہے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر رکھا جائے۔ ہمیں یہ سسٹم بنانا ہوگا کہ حکومتیں آئیں یا جائیں پی سی بی کا چیئر مین کام کرتا رہے تاکہ اس کے منصوبے وقت پر مکمل ہوں۔ عبدالحفیظ کاردار نے ایک تاریخی کام ڈپارٹمنٹ کی ٹیموں کو بناکر دیا۔اس تاریخ ساز فیصلے کے نتیجے میں کھلاڑیوں کو روز گار مل گیا اور وہ معاش کی فکر سے آزاد ہوکر کھیل پر توجہ دینے لگے۔

سابقہ حکومت نے ڈپارٹمنٹ ٹیموں کو بند کرکے بڑا ظلم کیااس سے سینکڑوں کھلاڑی بے روزگار ہوگئے۔ اب نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی بحالی کے لئے پالیسی وضع کریں۔ اس سسٹم کے بند ہونے سے پاکستان میں کھلاڑیوں کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چھ ٹیموں کا نظام لانے والوں کی نیت صاف ہو لیکن ابھی تک اس سسٹم کے ثمرات سامنے نہیں آر ہے ہیں۔ دوہرا معیار دیکھیں کہ نیشنل بینک،اسٹیٹ بینک اور یوبی ایل کے گراونڈ ہیں لیکن ان کی ٹیمیں بند کردی گئی ہیں۔

ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی وجہ سے حنیف محمد، جاوید میاں داد، وسیم اکرم، وقار یونس، سلیم ملک، اقبال قاسم، انضمام الحق اور شاہد آفریدی جیسے کھلاڑی پاکستان کو ملے۔ اداروں نے ان کھلاڑیوں کو پرکشش معاوضے پر ملازمت دی جس سے ان کے مالی حالات بھی بہتر ہوئے اور انہیں کوالٹی کرکٹ کھیلنے کو ملی۔ تین سال سے ڈپارٹمنٹل ٹیموں نے بندش سے کئی گھرو ں کے چولہے بجھ گئے ہیں۔ پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ ہاکی، اسکواش اور دیگر کھیلوں کے فروغ میں ڈپارٹمنٹل ٹیموں کا کردار مثالی رہا ہے۔ ہاکی میں اصلاح الدین ،سمیع اللہ،حنیف خان،حسن سردار جیسے بڑے کھلاڑیوں کو ملازمتوں ملیں اور انہوں نے ہاکی میں اپنے ملک کا نام بلند کیا۔

اسی طرح اسکواش میں جہانگیر خان،جان شیر خان، قمر زمان اور کئی شہرت یافتہ کھلاڑیوں کو سپر اسٹار بنانے میں ڈپارٹمنٹس کا کردار نمایاں رہا ہے۔پارٹمنٹل کرکٹ نے پاکستانی کرکٹ کو ورلڈ چیمپین دینے میں مثالی کردار ادا کیا ہےاس لئے نئی حکومت کو چاہیے کہ ایک نظام کو وضع کرکے ملک میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو بحال کردیا جائے۔ ڈپارٹمنٹل اسپورٹس کے لئے ایک پالیسی بنائی جائے۔پاکستان کے لئے50ٹیسٹ میں171اور999فرسٹ کلاس وکٹیں لینے والے لیفٹ آرم اسپنر اقبال قاسم نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور آصف علی زرداری میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کرکٹرز کو معاشی بدحالی سے نکال سکتے ہیں۔

ہاکی اور فٹ بالرز بھی نوکریاں نہ ہونے کی وجہ سے فاکوں پر مجبور ہیں۔ ایک دور تھا جب پاکستان میں دو ہزار سے زائد کرکٹرز کے پاس مختلف ڈپارٹمنٹس میں ملازمتیں تھیں اب نئے نظام سے بمشکل دو سو کھلاڑی استفادہ کررہے ہیں۔ اس سسٹم کو جتنی جلدی بحال کیا جائے گا اس سے پاکستان اسپورٹس کو فائدہ ہوگا۔ یہ تلخ حقیقت ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا پی سی بی کے چھ ٹیموں کا نظام آٹے میں نمک کے برابر ہے۔22کروڑ کی آبادی والے ملک میں چھ ٹیمیں ناکافی ہیں۔ پرانے سسٹم کو بحال کرکے ہی اسپورٹس کو مزید ترقی دی جاسکتی ہے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید