• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بولٹن کی ڈائری.....ابرار حسین


پاکستانیوں کی بھاری اکثریت کی مرضی اور منشاء کے برعکس پہلے مرحلے پر قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش کی گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ 3 دہائیوں سے زیادہ عرصے تک مسلط رہنے والے بدعنوان عناصر پھر برسراقتدار آگئے اور شہباز شریف وزیراعظم بن گئے مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہوئی جس دن موصوف پر فرد جرم عائد ہونا تھی اور ان کے خلاف عدالت میں کیس چل رہے تھے،اسی دن وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہو گئے دوسرے مرحلے پر بھی سازش کے ذریعے بڑے صوبے میں تبدیلی کے نام پر مزید مذاق رچایا گیا اور وزیراعظم کے بیٹے کو وزیر اعلی کے منصب پر بٹھا دیا گیا اگر صرف ان دو عہدوں کو ہی دیکھا جائے تو عمران خان کے دعوئوں کی صداقت واضح ہو جاتی ہے کہ پی ٹی آئی کے سوا دیگر جماعتیں مورٹی سیاست قائم کئے ہوئے ہیں جو ہمارے خیال میں جمہوریت کی توہین ہے ، اب تیسرے مرحلے پر سازش کے ذریعے عمران خان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت بغاوت کی بے سروپا باتیں پھیلائی جا رہی ہیں، اسی طرح کی سازش کے تحت اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش بھی ہو رہی ہے، اس مسئلے پر توجہ دلانے اور حکومتی سازش پر آگاہی دلانے کی وجہ یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کا ووٹ انتخابات میں ’’گیم چینجر‘‘ ثابت ہوسکتا ہے، اسی لیے یہ ووٹ روکنے کی سازش کی جارہی ہے ، ایک رپورٹ کی رو سے پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سمندر پار پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد مشرقِ وسطیٰ میں ہے اور ان میں بھی بڑی تعداد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں رہتی ہے۔ 2017-18 کے اعداد و شمار کے مطابق مشرق وسطیٰ میں تقریباً 48لاکھ کے قریب پاکستانی رہ رہے ہیں، یورپ میں 21لاکھ ، شمالی امریکہ میں یہ تعداد ساڑھ تیرہ لاکھ سے زیادہ ہے، تین لاکھ کے قریب افریقہ، دو لاکھ سے زائد ایشیا اور مشرقِ بعید جب کہ ایک لاکھ کے قریب آسٹریلیا میں رہتے ہیں، یہ یاد رکھا جائے کہ انتخابی اصطلاحات کے تاریخی ووٹ کو پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کا بل منظور کروایا تھا تو اس دن اس وقت کی حزبِ اختلاف اور موجودہ حکومت کے اراکین نے احتجاجاً اسمبلی سے واک آؤٹ کر دیا تھا تعجب خیز طور پر بیرونی ممالک میں آباد پاکستانیوں کی ہمدردی کے زبانی کلامی دعووں کے برعکس یہ طرز عمل دیکھنے میں آیا تھا جبکہ عمران خان کی حکومت کا یہ کہنا بجا تھا کہ انہوں نے اپنا ایک اور انتخابی وعدہ پورا کیا ہے،بی بی سی اردو نے اس وقت برطانیہ میں مقیم چند پاکستان نژاد شہریوں سے ووٹ کا حق دینے کے فیصلے پر خیالات جاننے کی کوشش کی تھی یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق، اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ جس پر لندن میں 17 سال سے مقیم ایک پروفیشنل پاکستانی کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا فیصلہ ایک اچھا فیصلہ ہے، دلچسپ طور پر جب ان سے پوچھا گیا کہ انھیں یہاں بیٹھے ہوئے پاکستان میں ووٹ ڈالنے سے ذاتی طور پر کیا فائدہ ہوگا؟ تو ان کا جواب بڑا دلچسپ تھا کہ "اس کا مجھے ذاتی طور پر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن جب میں اپنے ملک جاؤں تو ملک ذرا بہتر حالت میں ہو، اس میں ترقی ہو رہی ہو کیونکہ پاکستان اب ہمارا ’ہالیڈے ہوم‘ ہے، ہمارے پہلے والے رابطے ٹوٹ چکے ہیں، ہم نے یہیں رہنا ہے، بچے بڑے ہو چکے ہیں اور ’ جب ہم چھٹیاں گزارنے وہاں جاہیں‘ تو ہم پاکستان کو اسی طرح صاف ستھرا اور سہولیات سے بھرپور دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح آپ ان ممالک کو دیکھتے ہیں جہاں آپ رہ رہے ہیں۔ آپ پاکستان میں بھی ویسا ہی چاہتے ہیں۔" جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ووٹ اسی کو نہیں دیں گے جس کو آپ کے پاکستان میں رہنے والے رشتہ دار کہیں گےتو ان کا جواب نفی میں تھا۔ اقتباس درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں پر برطانیہ یا اوورسیز کے کئی دیگر ملکوں میں آباد پاکستانیوں کے خیالات فیصل مخدومی سے ملتے جلتے ہیں، اوورسیز پاکستانی چاہتے ہیں کہ ہمارا وطن پاکستان بھی برطانیہ کی طرح جدید ملک بنے جس کے لیے ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ واضح اکثریت عمران خان کو بدستور اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہے وہ کسی بھی صورت میں دو بار بار آزمائی ہوئی پارٹیوں کو ووٹ نہیں دینا چاہتے اور یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے جیسے ہی یہ سنا کہ عمران خان کو وزارت عظمی سے نکال دیا گیا ہے وہ بغیر کسی اپیل یا لالچ لندن سے لے کر مانچسٹر کی سڑکوں پر دیوانہ وار باہر نکل آئے اور ہفتہ وار لندن کے جلوس اور احتجاجی ریلیاں نکال رہے ہیں، اب سو فیصد ان اوورسیز کے موڈ کو دیکھ کر حکومت سٹپٹائی ہوئی دکھائی دیتی ہے، اور اطلاعات کے مطابق یہ سازش کی جارہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا فیصلہ کسی طرح ختم کیا جائے کیونکہ اوورسیز پاکستانی ووٹ پی ٹی آئی کو پڑے گا ، اسی صورت حال میں جب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل چکا ہے تو اس کے عام انتخابات کے نتائج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس حوالے سے بھی اکثریت کا خیال یہی ہے کہ اس کا بظاہر فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا ، ایک جائزہ کے مطابق پاکستان میں ایک ضلع میں قومی اسمبلی کی دو سے چار نشستیں ہیں، کئی اضلاع ایسے ہیں جن میں بیرون ملک مقیم ووٹرز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے سات لاکھ سے زائد تک ہے، اس حساب سے کئی اضلاع میں بیرون ملک مقیم ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بنتی ہے جو ووٹ کاسٹ ہونے کی صورت میں یقیناً نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق بحوالہ نادرا اور الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی کے تین اضلاع میں بیرون ملک مقیم ووٹرز کی تعداد سات لاکھ 30 ہزار سے زائد ہے جبکہ لاہور کے سات لاکھ 10ہزار ووٹرز بیرون ملک مقیم ہیں، راولپنڈی ساڑھے پانچ لاکھ، گجرات ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد ووٹوں کے ساتھ تیسرے اور چوتھے نمبر پر جبکہ سیالکوٹ چار لاکھ 75 ہزار جبکہ گوجرانوالہ چار لاکھ سے زائد بیرون ملک ووٹوں کے ساتھ پانچویں اور چھٹے نمبر پر ہیں، فیصل آباد تین لاکھ 45ہزار، اسلام آباد دو لاکھ 10 ہزار، سوات 2 لاکھ 20 ہزار اور جہلم کے بھی دو لاکھ 40 ہزار ووٹرز بیرون ملک مقیم ہیں، ایک تجزیہ کار نے لکھا ہے کہ پاکستان میں وہ حلقے جہاں تحریک انصاف کےامیدوار چند سو ووٹوں سے ہارے تھے اور ان کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو بیرون ملک مقیم ووٹرز ان کی کامیابی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘ ادھر نارتھ ویسٹ میں بھی جن بھی پاکستانیوں سے ہماری اس موضوع پر بات ہوئی ہے اکثریت چاہتی ہے کہ وہ بھی ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگت جب سمندر پار پاکستانی اپنے گھر والوں کے لیے پیسے بھجوا سکتے ہیں، ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں تو پھر یہ پونڈ اور ڈالر بھیجنے والے پاکستانی ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرسکتے اور ووٹ کا حق کیوں استعمال نہیں کر سکتے۔

یورپ سے سے مزید