دو محبت بھری آنکھیں۔ شفقت سے لبریز دو ہاتھوں کا لمس، نرم گرم آغوش دھیما سانرم لہجہ۔ میری ماں! نہیں پوری دنیا کی مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں جن میں کائنات کی ساری خوبصورتیاں ساری نرماہٹ ساری اچھائیاں یکجا کردی گئیں ہوں عمر کے اس حصے میں بھی میرے اندر وہ ننھی سی بچی موجودہے جو ماں کے مہربان آنچل کی ٹھنڈی چھائوں میں پروان چڑھنا مسکراتے ہوئے ماں کے ساتھ تتلیوں کے پیچھے بھاگنا اور جگنوئوں کوکھوجنا چاہتی ہے۔
جو ماں کے سینڈل پہن کر اوراس کا دوپٹہ اُوڑھ کر اس جیسا بننا چاہتی ہے۔ اس سے پریوں کی کہانی سننا اور مدھر آواز میں لُوری سننا چاہتی ہے۔ شرارت پر اسے ناراض کرکے جواب میں اس کے سینے سے لگ جانا چاہتی ہے۔ چوٹ لگ جانے پر آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ صرف اس کا ہاتھ تھامنا چاہتی ہے۔ یہ کون سا مرہم ہے جوہر تکلیف میں یاد آجاتا ہے۔؟ خوبصورت لہجے کی فاطمہ حسن نے کیا خوب کہا :
پہلی بار میں کب تکیے پر سر کو رکھ کر سوئی تھی
ان کے بدن کو ڈھونڈاتھا
اور روئی تھی
دو ہاتھوں نے بھینچ لیا تھا۔
گرم آغوش کی راحت میں
کیسی گہری نیند مجھے تب آئی تھی
کب دور ہوئی تھی پہلی بار
اپنے پیروں پر چل کر
بستر سے الگ پھر گھر سے الگ
اک لمبے سفر پر نکلی تھی
دھیرے دھیرے دُور ہوئی کب
نرم بدن کی گرمی سے
اس میٹھی نیند کی راحت سے
اب سوچتی ہوں
اور روتی ہوں
ماں یہ تین حرفی لفظ تو استعارہ ہے ۔روشنی، دعا، نور، محبت، شفقت اور قربانی کا۔ جو بن کہے سمجھ جائے جو بن مانگے دینے کے لیےہر وقت تیارہو۔ جو تکلیف اٹھانے کے باوجود سراپا ہمدردی اور ایثار ہووہی تو ہے’’ ماں‘‘۔
امی، اماں، ماں، مور، مادر، مدر کسی بھی نام سے پکارو وہی مٹھاس وہی شیرینی جو دل تک اُتر جائے۔ماں تو اس کائنات کی وہ خاص مخلوق ہے جسے خداوند قدوس نے اپنی تخلیق کو دنیا میں لانے کے لیے چنا اور انتخاب کہ جنت قدموں تلے رکھ دی ہے ناخاص مخلوق اشرف المخلوقات میں اعلیٰ ترین کہ نو ماہ بچے کو اپنے رحم میں رکھ کر تکالیف اٹھانے کے باوجود اس سے اتنی محبت کہ اس کا کوئی ثانی ہیں۔
اس کا دل اس اَن دیکھے وجود کے ساتھ ساتھ دھڑکتاہے۔ تکلیف میں ہو تو دوا نہیں کھاتی کہ بچے کو نقصان نہ ہو۔ اپنی پسند کے کھانے چھوڑ دیتی ہے۔ بے آرام رہتی ہے، صرف اس مسند پر فائز ہو جانے کے لیے جسے’’ ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب ذرّے جیسی اولاد اس کی گود میں آتی ہے تو وہ اس ذرّے کو آفتاب بنانے کے لیےعمر بھر لمحہ لمحہ مرتی ہے۔ قطرہ قطرہ پگھلتی ہے، سانس سانس جیتی ہے ،پل پل مرتی ہے اور ہر وقت دعا کا حصار بن کر بچوں کی حفاظت کرتی ہے۔ ہے نا یہ انوکھی مخلوق ۔ یہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے زمین پر چلتا پھرتا ایک فرشتہ ہے جو صرف اولاد کی بھلائی کے لئے بھیجا گیا ہے۔
سوچیں کس مٹی سے بنا ہے اس کا وجود اپنے بچوں کے لئے دن رات خدمت شفقت اور قربانی بنا کسی صلے اور ستائش کے چوبیس گھنٹے بلاحیل و حجت بنا شکوہ و شکایت بے حد دل جمعی اور خوش اسلوبی کے ساتھ مسلسل ڈیوٹی، جس کی تربیت اس کے خمیر میں شامل ہے۔ اس کے خون میں گردش کرتی ہے۔ ایسی ذمہ داری جو وہ مرتے دم تک نبھاتی ہے اور ایسی ڈیوٹی جس میں نہ کوئی چھٹی نہ ریٹائرمنٹ ہے اور نہ ہی کوئی استعفیٰ ۔ سچ ہے سکھ دیتی ہوئی مائوں کو گنتی نہیں آتی۔ماں کا روپ اللہ کی طرف سے وہ خوبصورت عطیہ ہے، جس میں اللہ نے اپنی رحمت ، برکت، راحت اور عظمت شامل کرکے عرش سے فرش پر اُتارا اور قدموں تلے جنت دے کر اسے مقدس اور اعلیٰ درجے پر فائز کر دیا۔ خالق حقیقی رب العالمین ہے تو ماں ’’خالق مجازی ‘‘ہے پروین شاکر نے کہا :
کائنات کے خالق
دیکھ تو مرا چہرہ
آج میری آنکھوں میں کیسی جگمگاہٹ ہے
آج میرے ہونٹوں پر کیسی مسکراہٹ ہے
میری مسکراہٹ سے تجھ کو یاد کیا آیا
میری بھیگی پلکوں میں تجھ کو کچھ نظر آیا
ہاں ترا گماںسچ ہے
ہاں کے آج میں نے بھی زندگی جنم دی ہے!
ماں وہ ہستی ہے جواپنے بچے کو جنم دیتے ہوئے اپنے دل کا ایک ننھا سا ٹکڑااپنے بچے کے اندر منتقل کردیتی ہے۔ اسی لئے اسے رابطے کے لئے الفاظ کی ضرورت ہی نہیں۔ اسی لئے تو جب بولنا نہ آتا ہو تو یہ دُکھ درد، تکلیف بھوک اور پیاس کو بغیر بتائے سمجھ جاتی ہے۔ اسے ادراک ہو جاتاہے۔ سچ ہے انسان کے دل کا حال خدا جانتا ہے اور اولاد کے دل کا حال صرف ماں ہی جان سکتی ہے۔میری پہلی مسکراہٹ ، پہلی ہنسی، پہلا لفظ، پہلا قدم، پہلی چوٹ، پہلا آنسو جن آنکھوں نے دیکھا سنا اور محسوس کیا وہی تو ’’ماں‘‘ ہے۔ماں تو ایک سراپا دعا ہے جو ہر وقت رب کریم کے آگے دامن پھیلائے رہتی ہے اور قدم قدم پر حفاظت کرتی ہے۔ خدا نے اس کے عظیم تر ہونے کی پہچان کے لیے اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہے۔ خدمت، محبت، عزت و احترام کے عیوض کوئی بھی اسے حاصل کر سکتاہے۔اسلام میں خالقِ کائنات کے بعد ماں اور اس کی مامتا کو سب سے عظیم گردانا گیاہے۔
خالقِ کائنات سے خلوص وفا، ایثار و محبت کے اس پیکر کو انسانوں کے لیے رحم و کرم انس و محبت کا منبع بنایا ہے، کیوں کہ قدرت کی جانب سے ماں کے دل میں پیار، خلوص اور وفا و دیعت کیا گیا ہے۔ دین ِ اسلام میںاولاد کی پوری زندگی ماںکے تقدس اور اس کی عظمت کے اظہار اور خدمت واطاعت کے لیےمخصوص ہے۔صحابیٔ رسول ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اکرمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا، یارسول اللہﷺ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’تمہاری ماں!‘‘ اس نے پھر عرض کیا، پھرکون؟ آپﷺ نے فرمایا ’’تمہاری ماں!‘‘ اس نے پھر عرض کیا، پھرکون؟ آپ ﷺنے فرمایا ’’تمہاری ماں!‘‘ اس نے پھر عرض کیا پھر کون؟
چوتھی مرتبہ سوال کرنے پر آپﷺ نے فرمایا ’’تمہارا باپ!‘‘حضرت مغیرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ نے یقیناً تم پر مائوں کی نافرمانی اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا حرام قرار دیا ہے۔ قرآن پاک میں سور ہ احقاف میں ارشادِ ربانی ہے، اور ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے۔ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنا (پیدا کیا) اسے تکلیف سے اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس ماہ میں۔ یوں قرآن نے ماں کے تین عظیم احسانات شمار کرائے اور خدمت گزاری کاحکم دیا۔ رب کریم سورۃ النساء میں فرماتا ہے،اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کونہ ٹھہرائو اور ماں باپ سے بھلائی کرو۔
غور کریں تو وہ ماں ہی تو ہے جو ہماری سچی ہمدرد، غمگسار، ہمراز، دوست اور استاد ہے۔ بلکہ سب کچھ ہے۔ماں کو اللہ کریم نے انوکھی صفت دی ہے ہمت، حوصلہ ضبط اور استقلال اور یہ سب دیکھنا ہو تو اسپیشل بچوں کی مائوں کو دیکھیں یہ مائیں سپراسپیشل ہوتی ہیں، کیوں کہ یہ کسی صلے اور بدلے کے بغیر بس نوازتی ہی چلی جاتی ہیں۔ حالاں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ معصوم بچہ نہ بڑھاپے کا سہارا، نہ دُکھ میں ساتھ اور نہ خوشی میں ساتھ دے سکے گا ،پھر بھی یہ خالقِ مجازی اس ننھے فرشتے پر واری صدقے ہوئے چلی جاتی ہے۔ کبھی سوچیں ماں کے ساتھ مامتا نہ ہو تو یہ دنیا کیسی بے نور، بے رنگ، خود غرض سی ہو جائے، مگر یہ بھی سمجھیں کے مامتا کا مطلب ایک بچے کی پیدائش اور پرورش نہیں بلکہ مامتا ایک ایسا آفاقی احساس ایک جذبہ ہے،جس کے لئے حیاتیاتی ماں(Bioloigcal mother) ہوناضروری نہیں ہے۔ ہمارے اردگرد ہماری کتنی ہی مائیں موجود ہیں۔ جنہوں نے ہمیں جنم نہیں دیا، مگر وہ ہماری مائیں ہیں جو ہماری جسمانی، ذہنی اور جذباتی نشوونما میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
جو زندگی میں ہماری مددگار ہوتی ہیں۔ جن سے ہم سیکھتے ہیں پڑھتے ہیں اورآگے بڑھنے کا ہنر سیکھتے ہیں۔ جی ہماری بڑی بہنیں، ہماری ٹیچرز ہمارے شوہر وں کی مائیں۔ کیا ہم ان کووہی مقام دیتے ہیں ،جس کی یہ حقدار ہیں۔ جو ہم اپنی مائوں کو دیتے ہیں۔ ہمیں انسانوں کو رشتوں کے تناظر سے ہٹ کر دیکھنا ہوگا۔ رشتوں کے تناظر سے ہٹ کر دیکھیں تو کتنا سادہ ،کتنا محترم ،کتنا شفقت بھرا چہرہ سامنے آجاتا ہے۔بلقیس ایدھی کا چہرہ۔کبھی ان بچوں کی آنکھوں کوغور سے دیکھا ہے جن کے ماں باپ نہیں ہیں یا جن کی مائیں نہیں ہیں۔ حسرت یاسیت محرومی جن کی موجودگی میں نہ آنکھیں چمکتی ہیں نہ ہونٹ مسکراتے ہیں ،مگر بلقیس ایدھی سب کی ماں جن کی ساری زندگی ایسے بچوں کے ہونٹوں پر ہنسی لانے کی کوشش میں گزر گئی اللہ پاک اس فرشتہ صفت ماںکے درجات بلند فرمائے (آمین)۔
خلیل جبران نے کہا، ماں سب کچھ ہے تمام زخموں کا مرہم تمام کمزوریوں کے لیے طاقت افلاطون نے کہا،جس کے دل میں ماں کے لیے محبت ہے وہ زندگی میں کبھی شکست نہیں کھا سکتا۔ امام رازی نے کہا دنیا کی تما م خوشیاں ’’ماں‘‘ کہتے ہی مل جاتی ہیں۔دنیا میں کتنی ہی مائیں ایسی ہیں۔ جنہوں نے اپنے بچوں کی خاطر اپنی صلاحیتوں اور کامیابیوں کو قربان کردیا، تاکہ ان کے بچے آگے بڑھ سکیںاور کامیابیاں حاصل کرسکیں، مگر کتنا بڑا المیہ ہے کہ کتنے ہی بدنصیب بچے ایسے بھی ہیں جنہوںنے مائوں کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا ہوتا ہے، مگر اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہی انہیں اپنی مصر وفیات ، اپنی ضروریات اور اپنے کام ان مائوں سے زیادہ اہم لگنے لگتے ہیں۔
یہی مائیں انہیں اپنے گھروں میں ایک بوجھ اور اجنبی سی لگنے لگتی ہیں، جس ماں نے انہیں جو ان کیا ہوتا ہے اس کی نصیحت انہیں بری لگنے لگتی ہے۔ دخل اندازی محسوس ہوتی ہے۔ یہ سوچے بنا کے اس عورت نے زندگی کے ماہ سال صرف اولاد کے لیے وقف کر دیئے ہیں۔ اپنی جوانی اور خوبصورتی کی جگہ چہرے پر جھریاں اور جسم میں بیماریوں کوبسا لیا ہے، جس نے اپنی ضروریات کو ہماری خواہشوں پر قربا ن کردیا ہے۔ ہم اپنی ساری زندگی بھی خدمت کرکے اس ایک رات کا بدلہ نہیں چکا سکتے جو ہماری مائوں نے ہماری خاطر جاگ کرگزاری۔
مغربی معاشروں میں اولڈ ہومز میں بوڑھے والدین کو داخل کروا دیا جاتا ہے، مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اب ہمارے یہاں بھی بہت سے گھرانے والدین کو ایدھی ہومز اور ان جیسے فلاحی اداروں میںچھوڑ دیتے ہیں۔’’اللہ رب العالمین نے فرمایا‘‘ بے شک مجھ سے بہتر ماں کا مقام اور کوئی نہیں جانتا‘‘ اور اللہ پاک نے اپنی محبت کی گہرائی سمجھاتے ہوئے کہاکہ میں اپنے بندوں سے سترمائوں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہوں تو طے ہوا کہ ماں آئینہ رحمت پروردگار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مائیںہماری جنت ہیں۔ ان کی خدمت ہمارا فرض اور محبت ہم پر قرض ہے،مگر افسوس اس دوڑتی بھاگتی زندگی میں مصروفیات اتنی بڑھ گئیں ہیں کہ والدین خصوصاً مائوں کی آنکھیں اپنے بچوں کا راستہ دیکھتی رہتی ہیں،مگر بچے محبت کے باوجود اس تیز رفتار زندگی کی دوڑ میں یوں الجھے ہیں کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں۔
بچے چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے، بیٹیاںہوں یا بیٹے طالب علم ہوں یا ملازمت پیشہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ آج کل سب ہی مصروف ہیں۔ اس صورتحال میںمائوں کا عالمی دن ایک خاص اہمیت حاصل کرلیتا ہے۔یہ درست ہے کہ زندگی کا ہر دن، ہر صبح، ہر شام ،ہرلمحہ ماںکے دم سے ہے ۔دل کی ہردھڑکن، ہر سانس، ماں ہی سے منسوب ہے۔ ماں سامنے ہو تو محبت کے حصار میں رکھتی ہے۔ سامنے نہ ہو تب بھی دعائوں کے حصار میں رکھتی ہے۔ تو مائوں کے عالمی دن پرہم اپنی مائوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک اوردل کو مسرور پہنچا سکتے ہیں۔ دل کھول کر اپنی ماں سے محبت کا اظہار کریں۔
اپنی مصروفیات ترک کرکے پورا دن ماں کے ساتھ گزارنے کی کوشش کریں۔انہیں گلے لگائیں بلکہ ان کے گلے لگ جائیں۔انہیں پھول پیش کریں یا ان کے ہاتھوں کے لیے گجرے خریدیں۔ان کے لئے اپنے ہاتھ سے کارڈ بنائیں۔ان کے لئے اچھا سا ناشتہ تیار کریں یا ان کا پسندیدہ کھانا بنائیں یا انہیں گھر سے باہر کھانے پر لے جائیں۔ماں کے ساتھ اپنی سا س کے لیےبھی ایسا ہی اہتمام کریں۔ اگر دادی ، نانی حیات ہیں تو ماںکے ساتھ ساتھ انہیں بھی خوشی میں شامل کرلیں ۔ ان کے لئے کو ئی اچھا سا تحفہ لیں۔ کوئی ان کی پسند کا لباس،کوئی فوٹو فریم اس میں اپنی اوران کی تصویرلگا کر پیش کریں۔محبت اور خصوصاً ماں سے محبت کے اظہار میں کنجوسی نہ برتیں۔ انہیں بتلائیں۔
یہ کامیابیاں، عزت یہ نام تم سے ہے
اے میری ماں مرا سارا مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہیں مرے لہو میں کھلتے گلاب
مرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
جہاں جہاں ہے مری دشمنی سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے مرا احترام تم سے ہے
دنیا کی ساری مائوں کو سلام اور انہیں،مجھے بھی مائوں کادن مبارک۔‘‘