حمیرا افتخار
’’ہادیہ تم یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘ رمشا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ہادیہ سے پوچھا جو اپنے اردگرد بہت سا سامان پھیلائے بیٹھی تھی۔
’’میں اپنی پیاری امی کے لئے مدرز ڈے کارڈ بنا رہی ہوں‘‘۔ ہادیہ نے فخر سے کہا۔
’’امی کے لئے مدرز ڈے کارڈ ‘‘ رمشا نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہاں میں چاہتی ہوں مدر ڈے پر امی کو جو کارڈ اور گفٹ دوں وہ سب سے زیادہ خوبصورت ہو‘‘۔
’’لیکن تم ایسا انوکھا کارڈ اپنی امی کے لئے کیوں بنانا چاہتی ہو؟‘‘رمشا نے پوچھا۔
’’کیوں کہ میں اپنی امی سے بہت محبت کرتی ہوں اور میں انہیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ وہ دنیا کی سب سے اچھی اور پیاری امی ہیں۔ اسی لیے تو مدرز ڈے مناتے ہیں تاکہ انہیں بتا سکیں کہ ہم ان سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ تمہیں پتا ہے رمشا ہماری امی ہمارے لیے کتنی محنت کرتی ہیں۔ وہ صبح سویرے ہی اٹھ جاتی ہیں جب ہم سو ہی رہے ہوتے ہیں پھر ہمیں جگاتی ہیں۔ ہمارے لیے ناشتہ بناتی ہیں۔ اسکول کے لئے تیار کرتی ہیں۔ ہمارا لنچ بکس تیار کرکےہ اسکول کے لئے روانہ کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ ابو کے بھی سارے کام کرتی جاتی ہیں۔ تاکہ وہ بھی آفس سے لیٹ نہ ہوں۔
پھر جب ہم اسکول سےواپس آتے ہیں تو ہمارا کھانا بھی تیار کر کے رکھتی ہیں۔ ہمیں کبھی بھی انتظار نہیں کرنا پڑتا بلکہ وہ ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ دوپہر میں ہمیں مدرسے بھیجتی ہیں جب واپس آتے ہیں تب بھی وہ کچھ نہ کچھ ہمارے لئے بنا کر رکھتی ہیں تاکہ ہم کچھ کھا پی کر ٹیوشن جائیں اور پڑھتے ہوئے ہمیں بھوک نہ لگے۔ رات کا کھانا بھی ہمیں وقت پر مل جاتا ہے۔ اور ہم جلدی سو بھی جاتے ہیں کیونکہ ہمیں تو صبح اسکول جانا ہوتا ہے۔ لیکن امی رات کو بھی دیر تک جاگ کر ہمارے کام کرتی ہیں۔ ہمارا یونیفارم استری کرتی ہیں۔ اسکول بیگ تیار کرتی ہیں۔
ہمارا ہوم ورک چیک کرتی ہیں کہ کہیں کچھ کام رہ نہ گیا ہو۔اور امی یہ ساری محنت صرف ہمارے لیے ہی نہیں کرتیں بلکہ گھر کے دوسرے افراد کا خیال بھی اسی طرح رکھتی ہیں۔ ہمارے گھر میں ہماری دادی اور دادا بھی رہتے ہیں۔ امی ان کی خوب خدمت کرتی ہیں۔ اس لیے تو ہم سب امی سے بہت محبت کرتے ہیں۔‘‘ ہادیہ اپنی ہی دھن میں بولتی چلی جا رہی تھی۔ رمشا اس کی باتیں سنتی رہی اور ساتھ کارڈ بنانے میں اس کی مدد بھی کرتی رہی ۔ پھر کچھ دیر بعد اپنے گھر چلی گئی۔
اگلے روز جب ہادیہ اسکول سے واپس آئی تو حسب معمول اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ نہائی دھوئی ، یونیفارم تبدیل کیا اور کھانا کھانے بیٹھ گئی۔ کھانے سے فارغ ہوئی تو اس کی امی نے اس پوچھا۔
’’ہادیہ آپ نے کل رمشا سے کیا کہا تھا جب وہ آپ کے پاس آئی تھی‘‘۔
ہادیہ نے ساری بات امی کو بتا دی اور ساتھ ہی رمشا کو برا بھلا کہنے لگی کہ اس نے میرا سرپرائز خراب کر دیا آپ کو کارڈ کے بارے میں بتا کر‘‘۔
امی نے ہادیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ:
رمشا نے مجھے کچھ نہیں بتایا بلکہ اس کی دادی آج ہمارے گھر آئی تھیں اور وہ آپ کی دادی سے کہہ رہی تھی کہ کل رمشا ہمارے گھر سے جانے کے بعد بہت رو رہی تھی۔ جب اس کی دادی نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ ہادیہ اپنی امی کے لئے مدرز ڈے کارڈ بنا رہی ہے اور وہ اپنی امی کی بہت تعریف کر رہی تھی۔ اس کی امی اس کا کتنا خیال رکھتی ہیں۔ اور میری تو امی ہی نہیں ہیں۔ میں کس کے لئے کارڈ بنائوں۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی اپنی امی کے لئے کارڈ بنائو انہیں گفٹ دوں۔ کاش میری بھی امی ہوتیں۔‘‘
’’وہ بہت دکھی تھی بیٹا‘‘ امی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’تو اس میں میرا کیا قصور ہے امی ، اگر اللہ میاں نے اس کی امی کو اپنے پاس بلا لیا ہے‘‘۔ ہادیہ نے معصومیت سے کہا۔
امی نے اسے پیار کیا اور سمجھاتے ہوئے کہنے لگیں۔
دیکھو بیٹا! ’’ہم مسلمان ہیں۔ ہماری اپنی ایک پہچان اور ہماری اپنی روایات ہیں۔ ہمارے رب نے ہمیں زندگی گزارنے کے اصول اور طریقے بتا دیئے ہیں۔ ہماری شریعت میں مدرز ڈے، فاردز ڈے وغیرہ منانے کے لئے کوئی دن مخصوص نہیں ہے ہمارا تو ہر دن اور ہر لمحہ اپنے والدین کے لئے ہے۔ ہمیں تو ماں باپ کی فرمابرداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سیکھایا گیا ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان سے نرمی سے پیش آئیں۔ انہیں اف تک نہ کہیں۔ اسی لیے تو جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ اور باپ کی خوشی اور رضا مندی میں ہی رب کی خوشی اور رضاا مندی رکھی گئی ہے۔‘‘
پیاری بیٹی! ’’مدرز ڈے، فادر ڈے یہ سب غیر مسلموں کے چونچلے ہیں۔ وہ اپنے والدین کو بوڑھا ہونے کے بعد اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آتے ہیں اور سارا سال اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں ان بیچاروں کو تو فرصت ہی نہیں ملتی اپنے والدین کے پاس جانے کی تو اس لیے انہوں نے ایک دن مدرز ڈے اور ایک دن فاردز ڈے کے نام سے منانا شروع کر دیا ۔بس وہ ایک ہی دن اپنے ماں باپ کے پاس جاتے ہیں۔ انہیں تحفے دیتے ہیں تھوڑا وقت ساتھ گزارتے ہیں اور پھر پورے سال کی چھٹی، جبکہ ہمارے یہاں صورت حال مختلف ہے۔ ہم سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔
ایک گھر میں ایک خاندان بن کر اب اپنے ہی گھر کو دیکھو ہم سب ایک ساتھ ہیں تو تمہارے دادا دادی کو کوئی مسئلہ ہو، پریشانی ہو یا وہ بیمار ہو جائیں تو ہم سب مل کر ان کی خدمت کرتے ہیں ان کا خیال رکھتے ہیں تو وہ ہمیں ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہیں۔ ان کی دعاؤں سے ہمیں خوشیاں ملتی ہیں، ہم سب بہت سی تکلیفیں دور ہو جاتی ہیں۔ اب گر وہ اولڈ ایج ہوم میں ہوتے تو ہم ان کی دعاؤں سے محروم ہو جاتے ناں!‘‘
ہادیہ غور سے امی کی باتیں سن رہی تھی۔
امی نے مزید کہا ! اور بیٹی مدرز ڈے، فاردز ڈے وغیرہ نہ منانے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ میری بیٹی! ہمارے مذہب نے تو ہمیں یہاں تک تعلیم دی ہے کہ اگر ہم پھل فروٹ یا کوئی اور اچھی چیز کھائیں تو چھلکے باہر نہ پھینکیں تاکہ ہمارے غریب پڑوسیوں کے بچے جو ایسی چیزیں کھا نہیں سکتے وہ ان چھلکوں کو دیکھ کر احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔ انہیں دکھ نہ ہو۔ شریعت تو ہمیں اتنا محتاط رہنے کا حکم دیتی ہے۔ رمشا بھی کل اسی لیے رو رہی تھی کہ اس کی امی نہیں ہیں اور آپ اپنے امی کے لئے مدرز ڈے کارڈ بنا رہی تھیں تو اسے یہ دیکھ دکھ ہوا۔ اسے اپنی محرومی کا احساس ہوا۔ اسی لیے ہمارے مذہب میں ان دنوں کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی جس سے محروم لوگوں کا دل دکھے اور انہیں تکلیف ہو۔‘‘
’’تو امی ہمیں کیا کرنا چاہیے پھر ؟‘‘ ہادیہ نے معصومیت سے پوچھا۔
’’ہمیں ایسے کام نہیں کرنے چاہیے جس سے دوسروں کو تکلیف ہو‘‘۔ امی نے پیار سے بتایا اور اگر ہم مدرز ڈے منانا ہی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ماں کی اطاعت اور فرما برداری کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا ماننا چاہیے۔ وہ جس کام کو کرنے کا کہیں وہ خوشی خوشی کرنا چاہیے۔ جس کام سے منع کریں وہ نہیں کرنا چاہیے یہ ہی اطاعت اور فرمابردای ہوتی ہے۔
خوب دل لگا کر محنت سے پڑھنا چاہیے اور اپنی امی کا نام روشن کرنا چاہیے۔ موبائل پر گیمز کھیلنے کے بجائے فارغ وقت میں امی کے کاموں میں ان کی مدد کرنا چاہیے۔ یہ ہی ہر ماں کے لئے سب سے قیمتی تحفہ ہو گا اور ایسا مدرز ڈے ہیں ہم کو ہر روز منانا چاہیے۔ یہی ماں کے لیے اولاد کی طرف سے قیمتی تحفہ ہوگا ‘‘۔ امی پیار سے ہادیہ کو سمجھا رہی تھیں۔
’’تھیک ہے امی میں یہ سب باتیں اپنی دوستوں کو بھی بتاؤں گی اور خود بھی اس پر عمل کروں گی۔‘‘
ہادیہ نے تہیہ کرتے ہوئے کہا اور امی کے گلے لگ گئی۔