عیدالفطر مسلمانوں کا عظیم مذہبی تہوار اور خوشیوں کا دن ہے،لیکن چند ناعاقبت اندیش افراد نےچاند رات کو ہوائی فائرنگ کرکے اور اس کے تقدس کاپامال کرکےخوشی کا اظہار کرنا اپنا وطیربنا لیا ہے، جو قابل مذمت ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کراچی پولیس کی جانب شہر بھر میں چاند رات کو ہوائی فائرنگ پرپابندی کے حوالےسے چلائی گئی آگاہی مہم کو بھی ہوا میں اڑا دیا گیا۔ مختلف علاقوں میں ہوائی فائرنگ سے پولیس اہل کار خاتون اور بچے سمیت 16سے زائد افراد زخمی ہو کر اسپتالوں میں پہنچا دیے گئے، جو کسی المیے سے کم نہیں۔
بلدیہ ٹاون، آفریدی کالونی کالا خان چوک G3 بس اسٹاپ کے قریب ہوائی فائرنگ سے پولیس اہل کار زخمی اور بلدیہ مدینہ کالونی میں خاتون اور ایک بچہ زخمی ہو گیا ،پولیس اہل کار کی شناخت 25سالہ رب نواز ولد شاکرین کے نام سے ہوئی ہے، جو 15میں تعینات ہے،پولیس نے فائرنگ کرنے والے 3 افراد گرفتار بھی کر لیا، جب کہ مختلف تھانوں میں متعدد مقدمات درج کر لیےگئے ہیں۔
ہوائی فائرنگ کے واقعات، پُرانا حاجی کیمپ افغان ہوٹل کے قریب ،اورنگی ٹاؤن قصبہ کالونی، نیو میانوالی کالونی بلال مسجد ،قصبہ کالونی طیبہ مسجد ،اورنگی ٹاؤن بلوچ گوٹھ ایم پی آر کالونی ،لانڈھی گلشن بونیر،لیاقت آباد الاعظم اسکوائر ا ور دیگر علاقوں میں پیش آئے۔اس حوالے سےپولیس کاکہنا ہے کہ ہوائی فائرنگ کرنے والوں کے خلاف مقدمات بھی درج کر لیے گئے ہیں۔
شہر میں رمضان المبارک اور عیدالفطر میں ڈاکوراج کاسلسلہ بدستور جاری رہا۔ ڈاکوؤں اور اسٹریٹ کرمنلز نے ذراسی مزاحمت کئی معصوم شہریوں کی جان بھی لے لی، جب کہ متعدد افراد کو زخمی بھی کر دیا۔ عیدکے پہلے اور دوسرے روز ڈکیتی کے دوران مزاحمت اورفائرنگ کے دیگر واقعات میں ایک شخص جاں بحق متعدد زخمی ہو گئے ۔رضویہ تھانے کی حدود ناظم آباد 2 نمبر ذیشان پارک کے قریب ڈکیتی مزاحمت کےدوران ملزمان کی فائرنگ سے30سالہ عبیدولد فیض اللہ جاں بحق اور 18سالہ اسد ولد زاہد قریشی زخمی ہوگیا۔
فیڈرل بی ایریا میں ڈکیتی مزاحمت کے دوران ملزمان کی فائر نگ سے ایک شخص زخمی ہو گیا۔ بلدیہ مواچھ موڑ کے قریب ڈکیتی مزاحمت کے دوران فائرنگ ایک شخص زخمی ہوا ۔لیاری لی مارکیٹ میں نامعلوم سمت سے آکرگولی لگنے سے ایک شخص زخمی ہو گیا،زخمیوں کوسول اسپتال منتقل کیا گیا۔ ملیر سٹی تھانے کی حدود ملیرکورٹ کے قریب نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہوا،جسے جناح اسپتال منتقل کیا گیا ،جہاں اس کی شناخت 30سالہ اآصف ولد سبحان کے نام سے ہوئی ہے۔
نیو کراچی اللہ والی چورنگی اتوار بازار کے قریب فائرنگ، سے20سالہ سویرا زوجہ ابرار زخمی ہوگئی ۔ گزشتہ دنوں جامعہ کراچی میں خودکش حملہ کرنے والی خاتون بمبار کے حوالے سے مزید تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں ،خود کش بمبار ایک روز قبل بھی دھماکے کی جگہ پر موجود تھی۔ تحقیقاتی اداروں نے جامعہ کراچی میں خودکش دھماکے سے ایک روز قبل کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کر لیں ہیں، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خود کش بمبار حملے سے ایک روز بھی وہاں موجود تھی، تفتیشی اداروں کا کہنا ہے کہ خاتون بمبار نے چائینز وین کی باقاعدہ ریکی کی تھی، جب کہ اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ایک روز قبل اسے دھماکا کرنا تھا۔
تاہم وین میں ڈائیریکٹر کنفیوش انسٹیٹیوٹ اس روز موجود نہیں تھے۔ اس لیے اس نے دھماکا نہیں کیا ،فوٹیج میں خاتون خودکش حملہ آور حملے سے ایک روز قبل بھی اسی مقام پر کھڑی دیکھی گئی ہے، خاتون حملہ آور نے وقت کا تعین اور وین کے پہنچنے کی ریکی کی،خاتون بمبار شاری بلوچ اور شوہر ہیبتان بلوچ نے دھماکے سے قبل شادی کی سال گرہ منائی،خودکش بمبار خاتون شاری بلوچ اور شوہر ہیبتان بلوچ سالگرہ میں دونوں گنگناتے، ہنستے اور غبارے پھاڑتے دکھائی دیے، خاتون بمبار دھماکے سے ایک روز قبل بھی جائے واردات پر موجود تھی، ٹھیک 2 بج کر 8 منٹ پر گاڑی کو کنفیوشز انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہوتے دیکھا گیا، خاتون خودکش بمبار ٹھیک اسی مقام پر کھڑی تھی، لیکن اس نے دھماکا نہیں کیا۔
خاتون خودکش بمبار نے گاڑی میں جھانک کر بھی دیکھا تھا، دھماکے والے روز شاری بلوچ دہلی کالونی والے فلیٹ سے روانہ ہوئی، خاتون بمبار رکشے میں سلور جوبلی گیٹ سے داخل ہوئی، رکشے کے آگے ایک سفید رنگ کی مشکوک گاڑی چلتی رہی، وہ گاڑی جامعہ کراچی میں داخل ہونے کے بعد رکشے کے آگے آگے چلتی رہی۔ خاتون بمبار موقع پر پہنچ کر رکشے سے اتری اور لاسٹ منٹ ہینڈلر لیڈی سے ملی، خاتون بمبار نے اسے موبائل فون بھی حوالے کیا، یہ موبائل فون شاری بلوچ کو ممکنہ طور پر اسی کام کے لیے دیا گیا تھا، خاتون ہینڈلر وہ موبائل لے کر کسی سے بات کرتے ہوئے آئی بی اے کی جانب گئی، وہاں سے ممکنہ طور پر ایک بس میں بیٹھ کر فرار ہوگئی، شاری بلوچ کو بیگ پیک میں بم بنا کر دیا گیا، بم کہیں باہر بھی اس کے حوالے کیا گیا، بم میں انڈسڑیل ایکسپلوزو کے علاوہ فاسفورس کا استعمال بھی کیا گیا۔
تفتیشی حکام کا کہنا تھا کہ ریکی کے وقت بھی حملہ آوور کے ساتھ اور لوگ موجود ہوں گے،حملے والے دن خاتون سلور جوبلی گیٹ سے رکشے میں سوار ہوکر داخل ہوئی، شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ دہشت گردوں کا پروگرام ایک دن پہلے حملہ کرنے کا تھا۔ خود کش بمبار شاری بلوچ کی کراچی میں ایک اور رہائش کا پتہ لگا لیا گیا۔ قانون نافذ کرنےو الے اداروں نے مذکورہ مکان کی تلاشی کے بعد وہاں سے کچھ سامان تحویل میں لے کر مکان کوسیل کردیا، یہ مکان خودکش بمبار کے والد کا بتایا جاتا ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خودکش بمبار اور اس کے شوہر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر رابطے میں رہنے والے افراد کا بھی سراغ لگانا شروع کردیا ہے۔
مکینوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مذکورہ گھر میں رہائش پذیر افراد محلے داروں سے بہت کم ملتے جلتے تھے ۔ اس ہی گھر میں کچھ ہفتے قبل خاتون بم بار کی بہن اسمہ کی شادی ہوئی تھی ،خود کش بمبار شاری بلوچ کے 7 بہن بھائی ہیں ، ذرائع کے مطابق خودکش بمبار کی بہن بھی پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہے ۔ قبل ازیں گلستان جوہر میں واقع ایک فلیٹ کو سیل کردیا گیا ہے، جہاں شاری بلوچ نے رہائش اختیار کی ہوئی تھی۔ خاتون بمبار کے شوہر کے حوالے سے بھی اہم معلومات سامنے آئی ہیں، وہ پیشے سے ڈاکٹر ہے اور اس روز بھی واقعہ سے قبل جناح اسپتال کے قریب ایک ہوٹل میں رہائش اختیار کی ہوئی تھی ، تفتیشی ٹیم نے تفتیش کے بعد رکشہ ڈرائیو اور کار سوار کو کلئیر قرار دے کر چھوڑ دیا ہے ، دونوں افراد کو تفتیش کے دوران کلیئر کردیاگیا ہے، انھیں حاصل ہونے والی فوٹیجز کے بعد تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر بھی دہشت گردوں کو سہولت کاری فراہم کی گئی تھی اور فوٹیجز میں نظر آنے والی دوسری خاتون کی تلاش بھی جاری ہے، جسے لاسٹ منٹ ہینڈلر کہا جارہا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران کراچی کے مختلف علاقوں سے لاپتہ ہونے والی تینوں لڑکیوں کی جانب سےاپنی مرضی اورپسند کی شادی کی تصدیق اغوا کیے جانے کی تردید کے بعد یہ معاملہ ٹھنڈا ہو گیا ہے، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لاپتہ ہونے والی تینوں لڑکیوں کی تفتیش کے حوالے سے کراچی پولیس کی کارکردگی بھی روایتی طور پرناکام ہی نظر آئی، تینوں واقعات میں پولیس نے چپ کا روزہ رکھا رہا اور کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی پولیس تینوں لڑکیوں کا کوئی سراغ لگا سکی۔
تاہم کراچی پولیس ترجمان کی جانب سے روایتی بیان دیا گیا تھا کہ گزشتہ دنوں کراچی میں 3 لڑکیوں کے گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے، لاپتہ لڑکیاں دُعا زہرہ اور نمرہ کاظمی کے والدین کی جانب سے اطلاع ملنے پر بروقت مقدمات کا اندراج کر کے پولیس نے تلاش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ سولجر بازار سے لاپتہ ہونے والی تیسری لڑکی دینار کے والدین کی جانب سے مقدمے کے اندراج کی درخواست واپس لے لی گئی ہے۔ پولیس ہمہ وقت متاثرہ والدین کے ساتھ رابطے میں رہی اور کراچی پولیس کا اسپیشلائزڈ یونٹ اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے لاپتہ لڑکیوں کی بازیابی کے لیے کوششیں کرتا رہا۔ دوسری جانب دعا زہراکے والد تا حال اس شادی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی گروہ کے چنگل میں ہے اور ڈرا دھمکا کر یہ بیان جاری کیا گیا ہے۔ دُعا نے خوف کے باعث ہی شادی کا بیان دیا ہے۔