• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سری لنکا گزشتہ پندرہ بیس برسوں سے مالیاتی اور تجارتی بحران کا شکار چلا آرہا ہے۔ سوا دوکروڑ کی آبادی والے ملک پر پچاس ارب ڈالر سے بھی زائد قرضہ ہے۔ ملک کا سالانہ بجٹ خسارہ دو طرفہ طور پر بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف غیر پیداواری اخراجات میں اضافہ عمل میں آرہا ہے دوسرے پیداوار میں بتدریج کمی ہوتی جا رہی ہے۔

جاری صورت حال میں سری لنکا کی سڑکیں اورگلیوں میں ہزاروں عوام سراپا احتجاج ہیں یہ سلسلہ کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ ملک میں خوراک کے ذخائر ختم ہوچکے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔ دوکانیں خالی سامان نایاب ہے۔ یہاں تک کے بچوں کا دودھ، دوائیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ چند ماہ قبل بھارت نے ایک ارب ڈالر امداد کے طور پر دئیے مگر یہ رقم مسائل کے سامنے ناکافی ہے۔ آئی ایم ایف کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی بدنظمی، بدعنوانی، اقربا پروری ملک کے موجود ہ صدر کوٹاباہا راجہ سابق لیفٹیننٹ (ر) جنرل ہیں۔ ان کی کابینہ میں مزید سابق فوجی افسر کام کر رہے ہیں۔

آئی ایم ایف اورعالمی بینک تمام بدانتظامی اور بحران کا ذمہ دار صدر اور ان کے قریبی ساتھیوں کو ٹھہراتا ہے ان اداروں کے مطابق گزشتہ برسوں میں سات سے پانچ ارب ڈالر بیرون ملک منتقل کیاگیا۔ اینٹی کرپشن چھان بین کررہی ہے۔ایک خیال ہے کہ یہ رقم ارجنٹینا کے بینکوں میں رکھی گئی یا پھریورپ کے مختلف بینکوں میں چھپائی گئی ہے۔

تاہم اس وقت سری لنکا کی صورت حال بہت مخدوش ہے عوام کو حکمرانوں اورافسر شاہی پر شدید غم و غصہ ہے ان کے مسائل اور مصائب میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے۔حکومت عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ کووڈ۔19کی وبائی بیماری کی وجہ سے ملک کی معیشت بدحال ہوئی ہے۔ یہ سچ ہے کہ کووڈنے عالمی معیشت اور معاشرت کوشدید متاثر کیا ہے جس کے نقصانات کوتاحال پورا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، مگر اپنی تمام نااہلی، بدعنوانی، بے ایمانی کووڈ کو قراردینا درست نہیں ہے۔ یہ انسانی کوتاہیوں کانتیجہ ہے ۔ انسانی لالچ اور طمع انسان کو انسانیت کے درجے سے نیچے گرادیتے ہیں۔

بدعنوانی، اقربا پروری کا ذمے دار صدر کوٹاباہا راجہ سابق لیفٹیننٹ (ر) جنرل کو قرار دیا گیا ہے

ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اس وقت سری لنکا کے حالات سے بہت کچھ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے اس سے قبل یہ ملک اتنا غریب ،مفلوک الحال اورمقروض نہ تھا۔سری لنکا جس کا پرانا نام سیلون تھا۔ برطانوی نوآبادیات کاحصہ تھا۔ بحری اڈہ تھا ، برطانیہ یہاں سے چائے ناریل وغیرہ ایکسپورٹ کرتا تھا۔ سیلون کو برصغیر میں ریڈیو سیلون کے ہندی پروگراموں نے مشہور کیا اور پورا برصغیر اس کو جاننے لگا تھا۔ چند دن قبل سری لنکا کے صدر نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی، مگر اس سے عوام کا غم و غصہ حکومت انتظامیہ سے نفرت کم نہیں ہوگی۔ البتہ ہنگاموں میں کچھ کمی آسکتی ہے مگر خدشہ ہے کہ عوام اور مسلح افواج میں جھڑپیں نہ ہو جائیں۔

کچھ عرصہ قبل سری لنکا کی اکثریتی آبادی سنہائی اور اقلیتی آبادی تامل میں شدید متنازعہ تھا۔ مسلح جھڑپیں گوریلا جنگ تک رہی اور اس بے مقصد لڑائی میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ تامل ناڈ کا دعویٰ تھا کہ ایک وقت میں سری لنکا تامل ناڈ کا علاقہ تھا۔ برطانیہ نے سری لنکا کو علیحدہ حیثیت دے کر اپنی کالونی اور بحری اڈہ بنایا یہ علاقہ الگ ہوگیا۔ مگر سری لنکن اس کے برعکس دعویٰ کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کا علاقہ سرانڈیپ کہلاتا تھا اور تامل ناڈ سے الگ تھا۔ عرب تاجر یہاں آتے تھے دوطرفہ تجارت ہوتی تھی۔ تاہم یہ درست ہے کہ تامل ٹائیگر نامی گینگ نے اس علاقہ میں بہت خون خرابہ کیا۔2015ء کے بعد ایک معاہدہ کے تحت پائیدار امن قائم ہوا ہے۔لیکن معاشی بحران زور پکڑ گیا اور اب اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ ایسے میں اس خطے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

سری لنکا کے بعض ماہرین معاشیات کا دعویٰ ہے کہ سری لنکا کی معیشت کا یہ حال کرنے میں ایک بڑا عنصر چین کے شروع کردہ بڑے بڑے پروجیکٹس کا ہے۔ اتنے بڑے پروجیکٹس سری لنکا جیسے چھوٹے ملک کی ضرورت نہیں تھے البتہ مستقبل قریب میں چین ان سے استفادہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ان پروجیکٹس کے لئے سری لنکن حکومت کو چین نے اپنے پرائیویٹ بینکوں سے قرضے دلوادیئے جن کے منافع سود کا نرخ زیادہ تھا۔ یہ علیحدہ بڑا بوجھ حکومت کے کندھوں پر آگیا۔ پھر افسر شاہی ایسے میں خوب خوب ہاتھ دھوتی ہے یہ الگ بوجھ اس طرح غیر ضروری بوجھ نے ملک کو کنگال کردیا۔ مقروض کردیا ہلکان کردیا۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے نااہل حکمرانوں کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ پبلک کا پیسہ ملک کا پیسہ ہے اگر ملک میں نہیں لگے گا تو آمدن کیسے ہوگی اور قرض کیسے چکائے جائیں گے۔ قرض جلد مل جاتا ہے اس کے ساتھ کک بیکس بھی ملتا ہے۔ مگر عوام کو کیا ملتا ہے۔ قرضہ، بھوک، غربت، پسماندگی، مہنگائی، سری لنکا کے ڈاکٹروں نے خبردار کر دیا ہے کہ ملک میں دوائیں ناپید ہیں، آلات جراحی کم ہیں، ایمرجنسی کی صورت میں شدید مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس لئے اس طرف بھی سری لنکا سیاسی طور پر کثیرالجہتی رائے رکھنے والا ملک ہے جبکہ آبادی صرف ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ وہاں سیاسی جماعتوں کی بھی بھرمار ہے۔ طلبا تنظمیں، مزدور کسان، ماہی گیروں کی تنظیمیں الگ فعال ہیں۔ خواندگی اسی فیصد سے زائد ہے۔ ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے مگر اب ایمرجنسی کی وجہ سے قدرے مختلف صورت حال ہے۔

دوسرے لفظوں میں سری لنکا کا معاشرہ فعال، متحرک مضطرب معاشرہ ہے۔ ایسے میں ایک رائے ایک نکتہ ایک مقصد پر جمع ہونا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔کولمبو یونیورسٹی کے ماہر سماجیات راجکمار چندرا کہتے ہیں کہ ایک عرصے سے ماہرین حکومتوں اور اعلیٰ افسران کو مشورہ دے رہے تھے کہ سرکاری اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کی جائے جس کی وجہ سے بجٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مگر سیاسی جماعتوں کے رہنما جن میں لبرل، جمہوریت پسند اور سوشلسٹ شامل ہیں کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ 

راجکمار چندرا کا کہنا ہے کہ سری لنکا کی مین پورٹ کی توسیع اور اس کے انفرااسٹرکچر پر غیر ضروری طور پر بہت بڑی رقومات خرچ کی گئیں یہ رقومات چینی نجی بینکوں کے قرضے کی ہیں جس کا سود بڑھ کر پہاڑ بن گیا۔ وقت پر سود ادا نہ کرنے کے جرم میں پورٹ اوراس سے ملحقہ ایکڑوں پر مشتمل علاقہ چینی نجی بینکوں کے پاس رہن ہیں۔ ایسے میں خود سری لنکا اور اس کے عوام کو کیا ملا؟

سری لنکا میں گزشتہ انتخابات کے دور میں حکمران پارٹی نے عوام کو ٹیکس میں رعایت دینے کا وعدہ کرلیا یہ محض سیاسی نعرہ تھا ماہرین نے کہاکہ ہم کسی صورت ٹیکسوں میں رعایت نہیں دے سکتے۔ ملک کی معیشت اس کی متحمل نہیں۔

دوسری طرف کاشتکاروں کو شکوہ ہے کہ ملک میں مصنوعی کھاد ناپید ہے۔ اگر منڈی میں کہیں کھاد دستیاب ہے تو وہ بہت مہنگے دام فروخت ہو رہی ہے۔ کاشتکاروں کی بڑی تعداد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ ایسے میں پیداوار میں گراوٹ آئی اشیاء مہنگی ہوئی اور نایاب بھی، عوام کوشکوہ ہے کہ حکومت اس اہم مسئلہ پر بھی چپ سادھ کر بیٹھی ہے۔ بعض سیاسی رہنما کہتے ہیں ہمارا ملک جیسے تیسے چل رہا تھا۔ 

مگر نجی چینی بینکوں نے قرضوں کے لالچ میں اس حال کو پہنچادیا۔ اس کا دوش وہ سوشلسٹ پارٹی کے رہنمائوں کو دیتے ہیں جو اکثر چین کی حمایت میں آواز اُٹھاتے رہے ہیں اور اب چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ سری لنکا کی معاشی صورت حال دیکھ کر بیش تر ممالک چین کے ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ سے ہوشیار ہو چکے ہیں۔ اسی منصوبہ کا سری لنکا شکار ہوا ہے۔

تازہ خبروں کے مطابق سری لنکا کی پارلیمان میں حکومت کے حامی چالیس اراکین نے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے اس اقدام سے حکومت بہت کمزور ہو چکی ہے۔ مگر سری لنکا کا بحران بہت گہرا بڑا ہے وہ اس طرح کے اللّے تلّلے اقدام سے دور نہیں ہو سکتا ۔ تمام معاملہ کو جڑ سے اکھاڑنا اب حکومت نے ماہرین کا ایک پینل ترتیب دیا ہے جو تمام صورت حال کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کرے گا۔ حکومت کو معلوم ہے کہ بحران کہاں سے کیسے اور کب سے شروع ہوا۔ ایسے میں ماہرین پینل ترتیب دینا۔ رائے معلوم کرنا وقت گزاری اور مسئلے سے فرار کے راستے ہیں۔ 

اب تک ماہرین مبصرین باربار حکومت سے جو کہہ رہے تھے وہی اصل بات تھی مگر حکومت نے اس پر اس وقت دھیان دیا نہ اب دے رہی ہے پھر ماہرین کو بٹھا دیا گیا کہ کیا کریں۔ غیر پیداواری اخراجات کم کرو، کم کرو کہ وہ اقدام کرو جس سے صنعتی اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہو۔ دوسروں پر تکیہ کرنا چھوڑ دو۔ خود کفالت کی پالیسی اپنائو۔ تب سری لنکا کا اقتصادی بحران کم ہوگا۔ قومی معیشت پر قرضوں کا بوجھ کم سے کم ہوگا تو معیشت ازخود سدھرنا شروع ہوگی رہنمائوں کے نام جب ہوتے ہیں جب وہ کام بھی بڑے کرتے ہیں۔