• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے اہم ساحلی شہر اور تجارتی مرکز کراچی کے علاقے صدر میں جمعرات کی رات 12بج کر 20منٹ پر ہونے والے دھماکے میں 25سالہ راہگیر محمد عمر صادق کے جاں بحق ہونے اور 13افراد کے زخمی ہونے کا واقعہ ایک جانب اس امر کی نشان دہی کر رہا ہے کہ شہر قائد ایک بار پھر دہشت گردوں کے نشانہ پر آ گیا ہے، دوسری جانب ملک بھر میں پولیس سمیت تمام سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کیلئے گھنٹی ہے اس امر کی کہ وہ دہشت گردوں کی کمین گاہوں کا پتہ لگا کر منفی کارروائیوں سے قبل انہیں ناکارہ بنانے کی صلاحیت و روایت کو مزید مستحکم بنائیں۔ دائود پوتہ روڈ مرشد بازار کے قریب گنجان ترین کاروباری علاقے میں دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی کہ قریبی ہوٹلوں اور رہائشی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ قریب کھڑی متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچا جبکہ علاقے سے گزرنے والی کوسٹ گارڈز کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔ تاہم گاڑی میں موجود افراد محفوظ رہے۔ وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دھماکے پر رنج و غم اور افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے مذکورہ دھماکے کو پاکستان کو بدنام کرنے اور امن خراب کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ دھماکے کی ذمہ داری سوشل میڈیا پر کالعدم سندھو دیش انقلابی آرمی نے قبول کی ہے۔ شہر قائد میں تین ہفتوں کے دوران یہ دوسری بڑی دہشت گرد کی واردات ہے۔ قبل ازیں 26اپریل کو کراچی یونیورسٹی کے قریب خاتون خودکش حملہ آور کی کارروائی کے نتیجے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد نذر اجل ہوئے تھے۔ جمعرات کی رات کئے گئے دھماکے کیلئے ایک موٹر بائیک استعمال کی گئی جس میں نصب دھماکہ خیز مواد میں بال بیئرنگ اور نٹ بولٹ بھی شامل تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تعداد اور پولیس گشت بڑھانے سمیت انتظامات مزید سخت کیے جائیں تاکہ کورونا کے بعد معمول پر آئی شہری زندگی کو مفلوج ہونے سے بچایا جا سکے۔

تازہ ترین