• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچو! چڑیوں کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں اور کئی رنگ۔ رابن بھی چڑیا کی نسل کا ایک پرندہ ہے۔ وہ ایک چھوٹی سی چڑیا ہے۔ آپ نے رابن نیل تو دیکھا ہوگا۔ ہمارے ہاں گھروں سفید کپڑوں کو چمکانے کے لیے جو نیل کی ڈبیا ہوتی ہے، اس پر رابن چڑیا کی تصویر بنی ہوتی ہے۔

تو کہانی کچھ یوں ہے کہ گھنے جنگل میں ایک رابن چڑیا رہتی تھی۔ بہت چھوٹی سی ، معصوم سی جیسا کہ چڑیا ہوتی ہیں۔ اُسے گانے کا بہت شوق تھا، کوئل بلبل اور مینا کی طرح ،مگر چوں کہ وہ شرمیلی اور جھجکو سی تھی ، اس لیے کسی کے سامنے گانے کی ہمت نہیں تھی۔ رابن چڑیا، چڑیوں کے غول میں رہتی تھی۔ قریب میں ایک بلبل بھی رہتا تھا ، اس کو اللہ نے بہت سریلی آواز سے نوازا تھا اور وہ اکثر مدھر آواز میں کچھ نہ کچھ گاتا رہتا تھا ، اس کی آواز اور گیتوں کی دھوم تھی۔

بلبل کے علاوہ کچھ سیاہ چڑیائیں بھی تھیں ، انہیں بھی اللہ نے بہت سریلی آوازدی تھی ۔ وہ بھی ہمہ وقت چہچہاتی رہتیں اور سریلے نغمے بکھیرتی رہتی تھیں، جنگل ان کی مدھر اور سریلی آواز وں سے مزید حسین ہوجاتا۔

رابن کو بھی گیت گانے کا شوق تھا،اس نے جب پہلی بار ایک سریلا گیت گایا تو ارد گرد موجود سارے پرندے ہنسنے لگے۔ ایک پرندے نے ہنس کر کہا ،’’ دیکھو تو ذرا یہ کسی بوڑھی بطخ کی طرح گا رہی ہے۔‘‘ یہ بات سن کر سب ہنس ہنس کر بے حال ہوگئے۔ رابن جھینپ گئی اور فوراََ خاموش ہوگئی۔ اس کے بعد اس نے کسی کے سامنے پرندوں کا کوئی گیت گنگنانے کی کوشش نہیں کی لیکن وہ اندر سے خوش نہیں تھی کیوں کہ اسے پرندوں کے گیتوں سے پیار تھا۔ وہ بھی دوسرے گانے والے پرندو کی طرح گانا چاہتی تھی۔ ایک صبح جب رابن کی آنکھ کھلی تو ارد گرد کا سبزہ اور موسم کی ادائیں دیکھ کر اس کا بڑا دل چاہا کہ وہ کوئی گیت گائے ،کچھ گنگنائے۔ وہ گھونسلے سےنکل کر جھیل کی طرف اُڑگئی۔ 

وہاں پہنچی تو وہاں بہت خاموشی اور سکون تھا دور دور تک کوئی پرندہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے اپنے اطمینان کے لیے یہاں وہاں دیکھا کہ کوئی موجود تو نہیں ہے، جب اچھی طر ح اطمینان ہوگیا کہ کوئی نہیں ہے تو اس نے چونچ کھولی اور پرندوں کا ایک گیت گانا شروع کیا۔ اسی وقت جھیل کی طرف سے پخ پخ۔۔۔۔۔۔قو آق قوآق کی آوازیں آئیں۔ رابن جھٹ خاموش ہوگئ اور گھبرا کر آس پاس دیکھنے لگی۔ جھیل کی سطح پر کچھ بطخیں تیرتی ہوئی اس کے سامنے سے گزر رہی تھیں۔ ان کی چونچیں کھلی ہوئی تھیں اور ان کے سر ہل رہے تھے۔ رابن سمجھ گئی کہ سب اس کا مذاق اُڑا رہی ہیں، اس کی آواز پر ہنس رہی ہیں۔ وہ وہاں سے اڑ گئی۔

دو ہفتے بعد رابن نے ایک بار پھر گانے کی کوشش کی۔ اس روز جھیل کے آخری سرے پر چلی گئی۔ رات خاصی گہری ہو چلی تھی، اطراف میں مکمل خاموشی، سناٹا اور اندھیرا تھا۔ وہ ایک درخت پر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر تک پہلے خاموش رہ کر ارد گرد کی آوازیں سننے کی کوشش کی ، جب اچھی طرح اطمینان ہوگیا کہ آس پاس کوئی پرندہ نہیں ہے جو اس کا مذاق اُڑا سکے تو اس نے گیت گانا شروع کیا۔’’ جب اطراف میں کوئی نہ ہو ، مکمل سکون ہو ، کوئی چرند پرند نہ ہو تو اپنے آپ کوئی گیت گانا کتنا اچھا لگتا ہے۔‘‘رابن نے سوچا اور جھوم اُٹھی۔

عین اسی وقت ایک طرف سے ہلکی سی ’’ہس‘‘ کی آواز سنائی دی، جیسے کسی نے سانس لیا ہو اور ساتھ ہی کسی جانور نے اپنا پنجہ بھی چلایا۔ وہ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں پھدک کر دوسری شاخ پر چلی گئی ، گانا وانا بھول گئی اور گھبرا کراس طرف دیکھا جہاں ایک لمحہ قبل بیٹھی تھی۔اب وہا ں ایک بلی بیٹھی تھی اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے میاؤں‘‘ کر رہی تھی۔ رابن کے حلق سے اطمینان بھری سانس نکل گئی وہ بلی کا نوالہ بنتے بنتے رہ گئی تھی۔

بلی نے غراتے ہوئے کہا، ’’سنو چڑیا! تم میرے پنجے سے بچ گئی ہو ورنہ اب تک میرے پیٹ میں جاچکی ہوتیں۔ آئندہ احتیاط کرنا ، اپنا بے سرا گیت شروع کرنے سے پہلےدیکھ لیا کرو ، مجھ سے تو بچ گئی ہو ، کسی اور سے شاید نہیں بچ سکو گی‘‘۔

رابن نے اس کی بات کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا ، اپنے پر کھولے اور وہاں سےاُڑ گئی۔ وہ بہت دکھی تھی اور سوچ رہی تھی۔’’حد ہوگئ بلی جس کی آواز ہی کرخت ہے ، وہ بھی میری آواز کا مذاق اُڑارہی ہے ۔‘‘

رابن کو لگ رہا تھا کہ اگر وہ گائے گی نہیں تو اس کا سینہ پھٹ جا ئے گا۔ اس نے جنگل سے دور پہاڑوں پر جانے کا فیصلہ کیا، جہاں وہ ہوگی اور اس کی آوازاور کوئی اس کا مذاق اُڑانے والا نہیں ہوگا۔ اگلے روز وہ اپنی منزل کی طرف پرواز کر گئی۔ اس نے جاتے وقت دوسرے پرندوں کو نہیں بتایا کہ وہ کہاں جارہی ہے وہ جانتی تھی کہ سب اس کا مذاق اڑائیں گے۔ رابن نے اپنی مسکان سے اُڑان بھری تو اس وقت تک اپڑتی رہی جب تک کہ وہ تھک نہیں گئی، اس نے بیٹھنے کے لیے جگہ تلاش کی تو اسے ایک درخت دکھائی دیا جو اس ویران حصے میں تن تنہا کھڑا تھا۔