شیرانی (نامہ نگار/آن لائن)کوہ سلیمان میں گزشتہ ایک ہفتے سے لگی آگ قابو سے باہرہوگئی، تین افراد کی ہلاکت، کئی کے زخمی ہونے کے علاوہ چلغوزے،نشتر اور زیتون کے ہزاروں قیمتی درخت راکھ کا ڈھیر بن گئے علاقے سے نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔آرمی ہیلی کاپٹر ز کا آپریشن، 26ہزار ایکڑ کا جنگل،سالانہ 6لاکھ کلو چلغوزہ پیدا کرتا ہے،زیتون کی پیداوار بھی متاثر، 24 گھنٹے میں آگ 10 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیل چکی،ہ کوہ سلیمان کا یہ دنیا میں چلغوزوں کا سب سے بڑا قدرتی جنگل ہے،آگ سے متعلق سوشل میڈیا پر خبریں اور ویڈیوز چلیں لیکن بدقسمتی سے اس کانوٹس کسی بھی حکومتی ادارے نے نہیں لیا۔ کوہ سلیمان کا یہ پہاڑی سلسلہ بلوچستان کے ضلع شیرانی کے علاوہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درازندہ تک بھی پھیلا ہوا ہے، ذرائع کے مطابق آگ خیبرپختونخوا کی حدود میں لگی جو بتدریج پھیلتی ہوئی بلوچستان کے ضلع شیرانی میں داخل ہوئی، اس وقت آگ کی شدت نے شیرانی کے دو مقامات کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے جس میں ایک دہانہ سر کا گھنا جنگل تور غر تودوسرا اوبہ خیل علاقے کا وسیع جنگل شرغلئ غنڈ سر ہے، آگ پر قابو پانے کے لئے آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹروں نے گزشتہ روز سے آپریشن جاری رکھا ہوا ہے اورہیلی کاپٹروں کے ذریعے پانی پھینکاجارہا ہے، اس کے علاوہ آج پی ڈی ایم اے کی ریسکیو ٹیم بھی علاقے میں پہنچ گئی جس نے مقامی لوگوں، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر کیمیکل بموں کے ذریعے آگ کو کچھ علاقوں میں روک لیا ، آپریشن میں پی ڈی ایم اے کی ریسکیو ٹیم کے ہمراہ تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب افراد نے حصہ لیا، گزشتہ روز آگ بجھانے کی کوشش میں مقامی آبادی کے تین افراد جھلس کر ہلاک جبکہ کئی شدید زخمی بھی ہوئے تھے، البتہ آج کسی انسانی ضیاع کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ،ضلعی انتظامیہ کے مطابق آگ کی لپیٹ میں آئے علاقوں کے قریب دیہات میں آباد لوگوں کو منتقل کرنے کی اپیل کی گئی تاکہ کوئی انسانی المیہ رونما نہ ہو سکے،اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ نے سرلکی کے مقام پر ایک کیمپ بھی قائم کردیا ہے، علاقے کے مکینوں اور رہنماؤں نے دوروز سے ڈی آئی خان قومی شاہراہ بطور احتجاج بند کئے رکھی ،جس کی وجہ سے ہزاروں مسافر اور گاڑیاں پھنسی رہیں، مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ مرکزی اور صوبائی حکومت اس المناک واقعے کا فوری نوٹس لے کر آگ پرقابو پانے کیلئے ہنگامی حالت کا نفاذ کریں،کیونکہ قیمتی جنگلات راکھ کا ڈھیر بن رہےہیں جس کا نقصان علاقے کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی پڑ رہا ہے۔درایں اثناء آن لائن کے مطابق ضلع شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا300سے افراد نقل مکانی کرچکے ہیں جبکہ مزید نقل مکانی جاری ہے ،شیرانی میں 26 ہزار ایکڑ پر محیط اس جنگل میں سالانہ 6 لاکھ کلوگرام سے زائد چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے ۔محکمہ جنگلات کے مطابق شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ سے چلغوزے اور زیتون کے درخت شدید متاثر ہوئے لہٰذا آگ بجھانے کے لئے فضائی آپریشن تیز کرنے کی ضرورت ہے۔آگ سے فضائی آلودگی میں اضافہ اور جنگلی حیات بھی متاثر ہوئی ہیں۔شیرانی کے فارسٹ افسر عتیق خان کاکڑ کے مطابق آگ بجھانے کے لئے جانے والے سات افراد آگ کی لپیٹ میںآگئے جن میں سے ایک نے بمشکل جان بچائی جس کے کپڑے جل گئے تھے ۔فارسٹ افسر نے بتایا کہ آگ بدھ کی شام خیبر پشتونخوا میں لگی اور وہاں سے پھیلتے ہوئے بلوچستان کے ضلع شیرانی کی یونین کونسل شرغلی، سرغلئی اور تخت سلیمان کے علاقوں تک پہنچ گئی جہاں باقی علاقوں کی نسبت چلغوزوں کے زیادہ گھنے جنگلات ہیں۔ 24 گھنٹے میں آگ 10 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیل چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شیرانی اور موسیٰ خیل میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں واقع چلغوزے اور زیتون کے جنگلات میں گزشتہ دس روز کے دوران تیسری مرتبہ آگ لگی، موسیٰ خیل میں آگ پر تیسرے دن قابو پالیا گیا جبکہ شیرانی کے علاقے دھانہ سر تور غر میں لگنے والی آگ کوبجھایا نہیں جاسکا تاہم اسے مزید پھیلنے سے روک دیا گیا ہے۔کمشنر ژوب ڈویژن بشیر بازئی کا کہنا ہے کہ آگ کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ اسے پیدل جاکر بجھانا ممکن نہیں ،ہم نے صوبائی اور مرکزی حکومت سے مدد مانگی ہے۔پی ڈی ایم اے، این ڈی ایم اے اور آرمی ایوی ایشن نے فضائی آپریشن شروع کیا، دو ہیلی کاپٹروں نے ژوب میں سبکزئی ڈیم سے پانی بھر کر آگ بجھانے کی کوشش کی مگر وہ موثر ثابت نہیں ہوا۔کوئٹہ میں پروانشل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے انچارج محمد یونس کے مطابق آگ بجھانے کے لئے گرائونڈ پر ہونے والی کوششیں موثر ثابت نہیں ہورہیں اس لئے فضائی آپریشن شروع کیا گیا۔ہم نے این ڈی ایم اے اور فوج سے مزید دو سے تین ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔خیال رہے کہ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں میں یہ دنیا میں چلغوزوں کا سب سے بڑا قدرتی جنگل ہے، اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے ایک اندازے کے مطابق شیرانی میں 26 ہزار ایکڑ پر محیط اس جنگل میں سالانہ 6 لاکھ کلوگرام سے زائد چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے۔شیرانی میں چلغوزوں کے جنگلات کی بحالی کےلئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کے یحییٰ موسیٰ خیل کے مطابق متاثرہ علاقے میں نہ صرف چلغوزوں، زیتون اور پھلائی کے قیمتی جنگلات واقع ہیں بلکہ یہاں بہت سے نایاب جنگلی جانور اور پرندے بھی پائے جاتے ہیں جنہیں آگ کی وجہ سے سخت نقصان پہنچا۔متاثرہ علاقے کے قبائلی رہنما ملک عبدالستار نے بتایا کہ چلغوزوں کے جنگلات حکومت نہیں بلکہ قبائل کی ملکیت ہیں جہاں سے وہ ہر سال کروڑوں اربوں روپے کا چلغوزہ حاصل کرتے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ اب ہم درختوں کے جلنے سے نہیں بلکہ اپنے گھروں کے تباہ ہونے سے ڈر رہے ہیں کیونکہ آگ بہت تیزی سے آبادی کی طرف پھیل رہی ہے۔ان کے بقول متاثرہ علاقے میں 15 سے 20 گائوں واقع ہیں جن میں سیکڑوں لوگ رہائش پذیر ہیں، بعض ایسے بھی گھر ہیں جس کے اندر چلغوزے کے درخت واقع ہے، اگر آگ آبادی تک پھیل گئی تو مزید انسانی جانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔فارسٹ افسر عتیق کاکڑ کے مطابق متاثرہ علاقے سے اب تک 300 سے زائد افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ باقی لوگ بھی اپنا قیمتی سامان اور سب کچھ چھوڑ کر صرف بال بچوں کو لے کر جان بچانے کے لیے محفوظ مقامات پر منتقل ہورہے ہیں۔