• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

رمیز راجہ کے مستقبل پر قیاس آرائیاں، ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام موضوع بحث

عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی جہاں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجا کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں وہیں پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام بھی موضوع بحث بن گیا ہے کہ کیا عمران خان کے جانے کے بعد اسے اس کی پرانی شکل میں واپس لایا جاسکتا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر موجودہ فرسٹ کلاس ڈھانچے میں ان کرکٹرز کو کھیلنے کے مواقعوں کے ساتھ اچھے معاوضے بھی مل رہے ہیں تو پھر یہ مطالبہ کیوں زور پکڑ رہا ہے کہ اداروں کی بنیاد پر ہونے والی کرکٹ کو بحال کیا جائے؟دراصل اس وقت پاکستانی کرکٹ چند سو کھلاڑیوں تک محدود ہے اور ڈپارٹمنٹ بند ہونے سے سینکڑوں کھلاڑی بے روزگار ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین احسان مانی نے ایک انٹر ویو میں دعوی کیا کہ ڈپارٹمنٹل ٹیموں کو ختم کرنے کا فیصلہ میرا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے بارے میں عمران خان ہمیشہ سے ایک سخت مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں اور وہ اسے پاکستان کی کرکٹ کی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ احسان مانی نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا اور بورڈ نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کر دی بلکہ میں نے بورڈ میں آنے کے بعد تمام معاملات کا خود بغور جائزہ لیا تھا اور جو بات سامنے آئی تھی وہ یہ کہ سارا سسٹم فراڈ تھا۔ زیادہ تر ڈپارٹمنٹس فرسٹ ڈویژن میں تھے لیکن یہ اپنے کرکٹرز کو سیکنڈ ڈویژن کھیلنے کے لیے ریلیز کر دیتے تھے۔ 

فرسٹ کلاس کرکٹ کا مقصد پاکستان کے لیے کرکٹرز بنانا ہوتا ہے لیکن ایسے کرکٹرز جو کئی برسوں سے کھیل رہے ہوتے تھے اور جن کا پاکستان کی طرف سے کھیلنے کا کوئی بھی چانس نہیں تھا وہ پہلے اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کھیلتے تھے اور پھر سیکنڈ ڈویژن بھی کھیلتے تھے۔ انٹر ویو میں احسان مانی اچانک میڈیا پر نمودار ہوئے اور کرکٹ کے موضوعات پر کھل کر اظہار کیا۔تین سال کے عرصے میں جب وہ پی سی بی کے چیئر مین تھے ان سے بات کرنے کے لئے میڈیا کو مشکل پروٹوکول کا سامنا تھا۔

آج موجودہ چیئرمین رمیز راجا بھی احسان مانی کی طرح میڈیا سے دور ہیں۔احسان مانی اور رمیز راجا میں فرق یہ ہے کہ احسان مانی برطانیہ سے آئے تھے اور بھی عہدہ چھوڑنے کے بعد ولایت چلے گئے۔ رمیز راجا نےاپنی تمام کرکٹ پاکستان میں کھیلی تمام میڈیا والوں سے ذاتی تعلق تھا لیکن عہدہ ملنے کے بعد ان کا بدلتا ہوا انداز پاکستانی میڈیا کو بھی حیران کرگیا۔اسی لئے کہتے ہیں کہ جو شخص فیروز پور روڈ سے گذر کر قذافی اسٹیڈیم میں پی سی بی ہیڈ کوارٹر کی سیڑھیاں چڑ جاتا ہے اس کے تیور اچانک تبدیل ہوجاتے ہیں۔

رمیز راجا کا یہ انداز صحافیوں کے لئے حیران کن تھا۔چھ ماہ میں وقت نے پلٹا کھایا اور حکومت تبدیل ہوتے ہی رمیز راجا کو بھی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ وفاقی حکومت کی تبدیلی کے باوجود ایک جانب چیئرمین رمیز راجا کو کام جاری رکھنے کا اشارہ مل گیا ہے لیکن ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ ان کو گھر جانا پڑے گا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی رانا مشہود کا کہنا ہے کہ حکومت جاتے ہی پی سی بی کے چیئرمین رمیز راجا کو اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ آنے والے دنوں میں رمیز راجا کا کوئی مستقبل نہیں دیکھ رہا۔ 

حالات بہتر ہوتے ہی نیا چیئرمین پی سی بی آجائے گا۔واضع رہے کہ پاکستان میں عام طور پر حکومت کی تبدیلی سے پی سی بی چیئرمین کو بھی گھر جانا پڑتا ہے لیکن پی سی بی کے سرپرست اعلی شہباز شریف نے حکومت تبدیلی ہونے کے باوجود فوری طور پر رمیز راجا کو تبدیل نہیں کیا۔ پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں چند دن پہلے رمیز راجا نے اپنے افسران سے ملاقات میں دعوی کیا تھا کہ انہیں کام جاری رکھنے کا کہا گیا ہے۔رمیز راجا جو عمران خان کے قریب تصور کئے جاتے تھے اور تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں انہوں نے میڈیا کو کہا تھا کہ حکومت تبدیل ہوئی تو میں گھر جانے میں دو منٹ بھی نہیں لگاؤں گا۔ لیکن انہوں نے از خود استعفی نہیں دیا اور چھ ہفتے بعد بھی وہ کام کررہے ہیں اور اپنے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ رمیز راجا کو پی سی بی میں کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے رمیز راجا نے اپنے افسران کو بتایا ہے کہ میں کہیں بھی نہیں جارہا۔ اس وقت رمیز راجا از خوداہم ترین عہدے سے مستعفی ہونے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی وہ اس حساس معاملے پر تبصرہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ موجودہ سیاسی کشیدگی میں خاموش ہیں اورپی سی بی ہیڈ کوارٹر میں روزانہ اپنی ذمے داریاں نبھارہے ہیں۔ جذباتی باتیں اکثر سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں کہ لیکن حقائق یہی ہیں کہ چیئرمین کو تبدیل کرنے کے لئے پی سی بی آئین میں طریقہ کار موجود ہے۔

پی سی بی کے آئین کی شق6(5) کے مطابق پی سی بی چیئرمین کو قانونی طریقے سے ہٹانے کے لئے بورڈ آف گورنرز کے اراکین کی تین چوتھائی اکثریت درکار ہے۔اس وقت بورڈ آف گورنرز سات اراکین پر مشتمل ہے۔رمیز راجا اور اسد علی خان کو پی سی بی کے سرپرست اعلی وزیر اعظم نے براہ راست نامزد کیا ہے جبکہ چار آزاد ڈائر یکٹرز میں عالیہ ظفر،جاوید قریشی،عاصم واجد جواد،اور عارف سعید شامل ہیں۔ پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو فیصل حسنین بھی بی او جی کے رکن ہیں۔ رمیز راجا کی تقرری تین سال کے لئے ہوئی ہے۔رمیز راجااستعفی دے دیں تو حکومت کے لئے آسانی ہوسکتی ہے۔

نمائندہ جنگ نے ایک قانونی ماہر سے سوال کیا کہ اگر پی سی بی کے سرپرست اعلی وزیر اعظم شہباز شریف، رمیز راجا کی نامزدگی واپس لیتے ہیں اور ان کی جگہ کسی اور کی نامزدگی کرتے ہیں تو کیا چیئرمین اپنے عہدے سے ہٹ سکتے ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں پی سی بی کا آئین خاموش ہے تاہم وزیر اعظم چاہیں تو یہ آپشن استعمال کرسکتے ہیں۔پی سی بی ذرائع کہتے ہیں کہ رمیز راجا کو حکومت کی جانب سےکام جاری رکھنے کا کہا گیا ہے جبکہ رمیز کی مخالف لابی کہتی ہے کہ عمران خان کے تبدیل ہونے کے بعد انہیں خود گھر چلے جانا چاہیے تھا حکومت انہیں تبدیل کرنے پر غور کررہی ہے۔

آئی سی سی کے پر و ٹوکولز کے مطابق حکومت پی سی بی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی البتہ چیئرمین کو تبدیل کرنے کے لئے پی سی بی کے آئین کے تحت آگے بڑھنا ہوگا۔ 2018میں جب عمران خان وزیر اعظم بنے تھے اس وقت نجم سیٹھی نے از خود استعفی دے دیا تھا۔ چیئرمین کی تبدیلی کی اس کشمکش اور رسہ کشی کا فائدہ رمیز راجا کو اس لئے مل رہا ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہےاور غیر یقینی حالات میں پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں کام چل رہا ہے۔ اس موقع پر یہ کہنا مشکل ہے کہ رمیز راجا کس طرح کام جاری رکھ سکتے ہیں۔

احسان مانی کو عمران خان ،پی سی بی میں لائے تھے لیکن ان کے دور میں آئین کے ساتھ ساتھ پی سی بی کا پورا نظام تبدیل ہوگیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے 2019 میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کر کے چھ ایسوسی ایشنز کی ٹیموں پر مشتمل فرسٹ کلاس کرکٹ کا ڈھانچہ متعارف کروایا تھا جس کے تحت اس نے مجموعی طور پر 191 کرکٹرز کو فرسٹ کلاس کرکٹ کے دھارے میں شامل کرتے ہوئے انھیں پانچ مختلف کیٹیگریز میں کنٹریکٹ دے رکھے ہیں جن کے معاوضوں میں اضافہ گذشتہ ستمبر میں کیا گیا تھا۔

پاکستان میں اداروں کی بنیاد پر فرسٹ کلاس کرکٹ کا نظام ستر کی دہائی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے سربراہ عبدالحفیظ کاردار نے شروع کیا تھا جس کے تحت ملک کے تمام بڑے بینکوں اور پی آئی اے وغیرہ نے اپنی کرکٹ ٹیمیں بنا کر کھلاڑیوں کو نہ صرف روزگار فراہم کیا بلکہ انھیں کھیلنے کے بہترین مواقع بھی دیے تھے۔ یہ ادارے پاکستان کی کرکٹ میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے تاہم حالیہ چند برسوں میں ملک کی معاشی صورتحال کی وجہ سے متعدد اداروں کی ٹیمیں ختم ہونا شروع ہو گئیں۔اس صورتحال کا سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب عمران خان اقتدار میں آئے اور انھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ کو علاقائی یا صوبائی سطح کے طریقہ کار پر استوار کرتے ہوئے اداروں کی ٹیموں کو فرسٹ کلاس کرکٹ کے ڈھانچے سے باہر کرنے کا فیصلہ کر ڈالا۔

مئی 2019 میں جب عمران خان کے کہنے پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے چھ ایسوسی ایشن کی ٹیموں کی فرسٹ کلاس کرکٹ کا ڈھانچہ مرتب کیا تو اس وقت پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں آٹھ اداروں کی ٹیمیں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہی تھیں۔ ان میں حبیب بینک، نیشنل بینک، پی ٹی وی، زرعی ترقیاتی بینک، سوئی سدرن گیس، سوئی ناردن گیس، واپڈا اور کے آر ایل شامل تھیں۔ یہ آٹھ ٹیمیں آٹھ ریجنل ٹیموں کے ساتھ فرسٹ کلاس کرکٹ کا حصہ تھیں۔ اب چھ ٹیمیں فرسٹ کلاس کھیلتی ہیں۔

احسان مانی کہتے ہیں کہ چھ اسوسی ایشنز کی بنیاد پر فرسٹ کلاس کرکٹ کھلانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ بہترین کھلاڑی کھیلیں جو پاکستانی ٹیم میں آسکتے ہوں۔ ہمیں ان کھلاڑیوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جو پچھلے آٹھ دس سال سے کھیل رہے تھے جن کی کوئی امید نہیں تھی کہ پاکستان کی نمائندگی کر سکیں گے۔ انھیں صرف نوکری ملی ہوئی تھی۔ احسان مانی کا کہنا ہے کہ دنیا میں کسی بھی کرکٹ بورڈ کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ کرکٹرز کو ملازمتیں دے۔ آج کے کرکٹرز کو ڈپارٹمنٹ سے زیادہ تنخواہ مل رہی ہےاحسان مانی کا دعوی دعوی ہی ہے، ابتدائی تین سال اس سسٹم کے اثرات سامنے نہیں آسکے ہیں کہا جارہا ہے کہ آسٹریلوی سسٹم کے تحت پاکستان کرکٹ میں زبردست ٹیلنٹ سامنے آئے گا۔دیکھیں یہ دعوی کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید