لیفٹنٹ کرنل ریٹائرڈ, عادل اختر
یوں تو میری پسندیدہ کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن دو کتابیں ایسی ہیں جنہوں نے مجھے اپنے سحر کی گرفت سے کبھی نکلنے نہ دیا پہلی کتاب دیوان غالب ہے۔ اسکول کے زمانے میں پہلی بار مرزا غالب کی غزل دل ناداں مجھے ہوا کیا ہے پڑھی۔ اس غزل نے دل پر جادو کردیا۔ سیدھی دل میں اتر گئی۔ دیوان غالب خرید کر پڑھا ساٹھ سال سے زیادہ گزر گئے ہیں۔ ہر بار معنی کا طلسم اور حسن کا سمندر دل کو خوشیوں کا انمول خزانہ بخش دیتا ہے بار بار پڑھتا ہوں ہر بار ایک نیا لطف اٹھاتا اور ایک نیا شعور حاصل کرتا ہوں۔
حیرت کی بات ہے۔ غالب جس معاشرے میں پیدا ہوئے۔ اس سے آگے کی سوچتے تھے۔ جہاں سارے راستے بند ہوں وہ اپنے لئے راستہ خود تلاش کرتے تھے۔ مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہورہا تھا۔ غالب کے تخیل پر بہار آرہی تھی۔ آنے والا کوئی شاعر کوئی ادیب ایسا نہیں گزرا جس نے مرزا غالب کو خراج تحسین ادا نہ کیا ہو۔ کسی نے ان کے فردوس تخیل کی بہار کو سراہا۔ ان کے لطف بیان کی ہم عصری کو ناممکن جانا کسی نے ان کے کلام کو الہامی قرار دیا۔ مشہور انگریز استاد رالف رسل نے کہا… اگر مرزا غالب انگلینڈ میں پیدا ہوئے ہوتے تو انہیں دنیا کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا۔
ان کی شخصیت ایسی دلچسپ اور متنوع تھی کہ ان پر چار فلمیں بنیں اردو کے کسی اور شاعر پر فلمیں نہیں بنیں۔ ان کے دیوان کی سیکڑوں شرحیں لکھی گئیں۔ ان کے ایک ایک شعر کے کئی کئی معنی نکالے گئے۔ کسی اور شاعر کے کلام کی شرحیں لکھنے کی نوبت نہیں آئی۔ ان کی ہر بات لطف بیان کے کئی کئی پہلو رکھتی تھی۔ ایک دوست نے آموں کا تحفہ بھیجا۔ شکرئیے کا خط لکھتے ہیں… آپ کا ہرکارہ آیا۔ ایک ٹوکرہ سر پر رکھ کر لایا… میں سمجھا تحفہ خاص ہے۔ جب ٹوکرہ کھلا تو پتہ چلا… تحفہ آم ہے۔
غالب کی برکت سے اس دور کے سیکڑوں اشخاص… تاریخ میں زندہ رہ گئے۔ دوست احباب، مخالف موافق، دیوان غالب ایک سدا بہار ٹانک لئے پئے جائو اور جئے جائو… غالب اپنے کلام کی تاثیر سے بے خبر نہ تھے۔ وہ خود کو عندلیب گلشن ناآفریدہ کہتے تھے۔ غالب نے اردو کو ایسی بالغ اصلاحات دیں کہ اور کوئی نہ دے سکا سچ ہے۔ محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر۔
دوسری کتاب جس نے مجھے اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ طلسطانے کا ناول وار اینڈ پیس ہے۔ ایسی کتابیں بھی کرہ ارض پر ایک بار ہی لکھی جاتی ہیں۔ انسانی زندگی کا کون سا رخ ایسا ہے جسے طالسطانے نے اپنے ناول میں بیان نہیں کیا۔ محبت، نفرت، تصنع، حسد، لالچ، خوف، امید۔ انسانی زندگی کا ہر پہلو… بڑے دلکش انداز بیان سے قلم بند کیا ہے ناول میں ایک طرف طبقہ اشرافیہ کی پرتصنع زندگی کا باین ہے… شرکائے محفل کی تصنع اور منافقت سے بھری زندگی، سازشیں، خوشامدیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی محبت کا بیان ہے۔ ایسا لگتا ہے۔ گلاب کی پنکھڑیوں کا ڈھیر لگا دیا ہو جیسے…
دوسری طرف میدان جنگ کے خوفناک مناظر ہیں۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ، توپوں کی گھن گرج، خون کی ندیاں بہہ رہی ہے۔ زخمیوں کی آہ و بکا ہے گھوڑوں کی ہنہناہٹ ہے۔ بھگدڑ کے مناظر ہیں۔ موت اور زندگی… ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتی نظر آتی ہیں۔ ناول پڑھنے کے بعد قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ زندگی کے سمندر کی غوامی کرکے واپس آتا ہے تعریف کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔
اسے چپ سی لگ جاتی ہے جیسے کوئی سائنس دان، کسی بلیک ہول میں جائے۔ اسے ہوش و حواس میں رہ کر بلیک ہول کو دیکھے۔ اور پھر واپس بھی آجائے۔ ایک باذوق قاری یہی محسوس کرتا ہے۔ کائنات کے کسی نامعلوم گوشے کی سیر کرکے واپس آیا ہے۔ اس کے تصور اور تخیل میں ہزار گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس کے باغ معنی ہیں بہار آچکی ہے اسے اپنی قسمت پر ناز ہونے لگتا ہے۔
حسن کے سمندر میں غوامی کرنا… اور کرانا… صرف طالسطانے کے لئے ممکن ہے غالب سمجھتے تھے کہ ہر فرد ورق ناخواندہ ہے۔ طالسطانے نے اس ورق ناخواندہ کو پڑھ کر دکھا دیا۔
طالسطانے 1828ء میں روس میں پیدا ہوا۔ اس زمانے میں دنیا بڑے بڑے ادیبوں سے بھری پڑی تھی ہمارے مرزا اسد اللہ غالب بھی طالسطانے کے ہم عصر تھے۔ مگر دونوں ایک دوسرے کی موجودگی سے بے خبر تھے جس سال 1869ء مرزا غالب بستر مرگ پر لیٹے۔ اسی سال طالسطانے کا ناول شائع ہوا۔ غالب کو ایک مغتی آتش نفس کی تلاش تھی۔ ہوسکتا ہے اگر غالب اور طالسطانے کی ملاقات ہوجاتی تو دونوں ایک دوسرے کو مغنی آتش نفس سمجھ بیٹھتے۔
غالب کا کمال یہ تھا کہ وہ دریا کو قطرے میں بند کردیتے تھے۔ طالسطانے کا کمال یہ تھا کہ وہ قطرے سے دریا برآمد کردیتے تھے مرزا غالب کا دیوان اتنا مختصر ہے کہ پاکٹ میں رکھا جاسکتا ہے طالسطانے کا ناول اتنا ضخیم ہے کہ اٹھائو تو اٹھائے نہ بنے… اگر کوئی جنگ ہوئی… تو دنیا سے بہت کچھ مٹ جائے گا۔ مگر غالب اور طالسطانے کا نام نہیں مٹے گا۔
غالب اور طالسطانے کو پڑھنے کے لئے ایک عمر درکار ہے۔