• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرق بعید میں واقع میانمار میں گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے وہاں فوج حکومت پر قابض ہے۔ حالانکہ کچھ ہی عرصہ قبل وہاں عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب حکومت جس کی سربراہ عوامی جمہوری پارٹی کی رہنما آنگ سان سوچی تھی انہیں گرفتار کرکے حکومت پر فوج قابض ہوگئی۔ انہیں دیگر رہنمائوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1962 میں ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ ہوا تھا اس کی پشت پناہی امریکہ کررہا تھا وہ سرد جنگ دور تھا اب 2021 کے مارشل لاء کو چین کی پوری حمایت حاصل ہے۔

میانمار جس کا پرانا نام برما تھا پونے سات لاکھ مربع کلو میٹر پر محیط پہاڑیوں اور گھنے جنگلات سے گھرا ملک ہے جس کی آبادی ساڑھے چھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ میانمار یا برما ہمیشہ سے پراسرار ملک رہا ہے۔ پچاس کے عشرے میں میانمار کو برطانیہ کے تسلط سے آزادی نصیب ہوئی مگر آٹھ دس برس بعد ہی فوج نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا تھا۔ میانمار کے عوام نے اپنی ہی فوج کے ہاتھوں بہت دکھ جھیلے ہیں ایک داستان خونچکا ہے۔ 

اس دور میں جب سابق سویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ عروج پر تھی اور امریکہ سی آئی اے کی مدد سے بیش تر ایشیائی لاطینی امریکی اور افریقی ممالک میں فوجی آمروں کو مسلط کررہا تھا ایسے میں پاکستان اور مشرق بعید کے کئی ممالک مارشل لاء کی زد میں آئے تھے بعدازاں 1949 میں چین کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد مشرق بعید میں امریکہ کو خدشہ تھا کہ یہ غریب ممالک کمیونزم کی گود میں جاگریں گے ایسے میں ساٹھ کی دہائی میں امریکہ نے ویتنام میں ایک طویل لاحاصل جنگ لڑی۔ 

مبصرین کا کہنا تھا کہ امریکہ اس جنگ کے ذریعے خطے میں کسی اور ملک میں سوشلسٹ انقلاب کو کامیاب ہونے سے روک رہا تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی رہا۔ تاہم ستر کی دہائی میں ویتنام سے امریکہ کو نکلنا پڑا۔ ویتنام کی ہوچی ؟ کی اشتراکی حکومت اور ویتنامی گوریلوں نے زبردست جنگ لڑی جس کی کسی کو ایسی توقع نہ تھی۔ اس دور میں میانمار یا برما میں بدترین فوجی حکومت برسراقتدار تھی جس نے عوام کی زندگیوں کو جہنم بنادیا اور نئی نسل پیدا کرو کے جنونی نعرہ کی بدولت میانمار میں کوئی بچی لڑکی کنواری نہیں رہی۔

سال دو ہزار بیس کے آس پاس عام انتخاباب کے نتیجے میں ایک طویل عرصے بعد عوام کو اپنی رائے سے حکومت سازی کا موقع ملا تھا مگر فوجی جنتا کو اقتدار کا مزہ پڑچکا تھا وہ پھر حرکت میں آئی اور ملک پر مسلط ہوگئی۔اب سات سے دس لاکھ روہنگیا مسلمان میانمار میں آباد ہیں مگر ان کی زندگیاں جہنم بنی ہوئی ہیں۔ ان کا اور نہ ان کی اولادوں کا کوئی مستقبل ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ پرانے عرب تاجروں کی اولادیں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ تین ہزار سال قبل عرب تاجر چین کی بندرگاہ کینٹان تک سفر کرتے تھے اور خاص طور پر چین عرب لوبان کے دیوانے تھے۔ 

دنیا میں سب سے پہلے لوبان یمن اور مسقط کے قدیم علاقوں میں دریافت ہوا تھا عربوں نے اس کو دنیا میں عام کیا۔ زیتون، کھجور، شہد، لوبان اور موٹی سوتی چادریں وغیرہ کی تجارت زیادہ ہوتی تھی۔ عرب سمندری تاجروں نے مشرق وسطیٰ سے بحرالکاہل میں چین تک کا سفر کرکے اس راستے کے نقشے تیار کئے تھے۔ اس دور میں یمن اور عمان کا کچھ حصہ آباد تھا باقی سب ریگستان تھا۔

آج کا طالب علم اس پر حیران ہے کہ پانچ سو برس قبل تک دنیا کو آدھی سے زائد دنیا کا علم ہی نہ تھا وہ کرسٹوفر کولمبس کے حساب کتاب کی غلطی اور نقشہ غلط ہونے کی وجہ سے وہ غلطی سے جزائر عرب الہند پہنچ گیا جبکہ اس کو ہندوستان دریافت کرنا تھا۔ اس طرح عرب تاجروں نے سفر بہت کئے مگر شمالی، جنوبی امریکہ آسڑیلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان دریافت نہ کرسکے۔

روہنگیا کے مسلمانوں کا دعویٰ درست ہے بحر ہند کے بعد بحرالکاہل میں داخل ہونے کے لیے اس دور کے برما میں ان کا پڑائو ہوتا رہا ہوگا۔ مگر روہنگیا مسلم آبادی ایک عرصے سے میانمار میں آباد ہوتے ہوئے بھی سب سےغریب سب سے بچھڑی ہوئی ہے یہاں تک کہ بدھ بھکش بھی ان کے خلاف لڑنے کے لئے ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ تاہم سب سے زیادہ افسوسناک صورت حال یہ ہےکہ آج کی دنیا میں پچاس سے زائد مسلم ممالک ڈیڑھ ارب کی آبادی رکھنے کے باوجود روہنگیا کے مسلمانوں کا کوئی پرستان حال نہیں ہے۔ بیش تر میانمار کے مبصرین کا دعویٰ ہے کہ مقامی آبادی اور روہنگیا کے مسلم آبادی کے مابین خونریز تصادم قتل و غارت گری کی بڑی وجہ میانمار کے قدرتی وسائل اور اس کا محل و وقوع ہے۔

سول حکومت نے کچھ عرصہ قبل میانمار کے قدرتی وسائل کی دریافت اور بازیابی کے لئے اوپن انٹرنیشنل ٹینڈر شائع کرنے کی کوشش کی تو فوجی شخصیات نے اپنا اثر استعمال کرکے حکومت کو ٹینڈر کرنے سے روکا۔ پھر کچھ ہی عرصے میں چار پانچ بڑی چینی کمپنیوں میں میانمار میں معدنیات کی تلاش شروع کردی۔ بتایا جاتا ہے کہ میانمار کے پاس سونا، تانبا، میگنائیٹ، لوہا وافر مقدار میں موجود ہیں اور سب سے اہم کہ قیمتی پتھروں کا وہاں خزانہ بتایا جاتا ہے۔ 

ایسے میں میانمار کے بااثر گروہ اس میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے ایک ہوگئے اور سول حکومت جمہوریت اور شخصی آزادی کے تکلفات اٹھاکر پھینک دیئے اور براہ راست فوجی آمریت قائم کرلی۔ پہلے فرانس نے پھر برطانیہ نے اب چینی کمپنیاں اس غریب ملک کا استحصال کررہی ہیں ملک کی مفاد پرست خود غرض اشرافیہ بیوروکریسی فائدے اٹھا رہی ہے اس لئے سول حکومت اور جمہوری روایات وہاں متروک قرار پائیں۔

واضح رہے کہ میانمار کی سیاسی رہنما آنگ سان سوچی پر 2018 آسڑیلیا کی عدالت میں اس بناء پرمقدمہ دائر کیا گیا سوچی میانمار کی اہم شخصیت ہیں مگر انہوں نے روہنگیا والوں کے مسئلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ اس کی مذمت تک نہ کی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے اس حوالے سے ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے اور میانمار کی فوجی حکومت پر سخت پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے علاوہ دنیا کی بڑی غیرسرکاری تنظیموں نے بھی میانمار کی حکومت اور فوجی جنتا کی شدید طور پر مذمت کی ہے ان میں زیادہ تر خواتین کی تنظیمیں ہیں۔ ان اداروں نے آنگ سان سوچی پر بھی نکتہ چینی کی ہے۔ 

تاہم وہ اس وقت جیل میں بند ہیں۔ بیشتر این جی اوز روہنگیا کے مسلمانوں کی حالت زار پر بڑے اسلامی ممالک سمیت دنیا سے اپیل کررہی ہیں کہ وہ سب مل کر روہنگیا کے مسلمانوں اور میانمار کے معصوم شہریوں کو فوجی جنتا کے ظلم و ستم سے بچائے اور فوجی حکومت پر کڑی پابندیاں عائد کرے۔ چینی کمپنیوں کے ملوث ہونے کامطلب چین ملوث ہے ایسے میں بیش تر مغربی ممالک مخض تماشہ دیکھنے پر ہی اکتفا کررہے ہیں۔ سری لنکا کے بعد میانمار کے حالات نے بہت سے سوال کھڑے کردیئے ہیں۔