مختار احمد
نونی یوں تو بڑا اچھا بچہ تھا، مگر اس میں ایک بات بہت بری تھی کہ وہ بہت کام چور تھا۔ اس سے اگرکوئی کام کو کرنے کا کہا جاتا تو وہ صاف منع کردیتا تھا-
جب اسے پیاس لگتی تو وہ بیٹھے بیٹھے آواز لگاتا "امی! پیاس لگی ہے،پانی لا دیجیے"-
اسکول کا کام وہ بہت مشکلوں سے کرتا تھا- امی کے بار بار کہنے پر کام ختم کر بھی لیتا تو کتابوں کو بستے میں نہیں رکھتا تھا-وہ بھی امی ہی اس کے بستے میں رکھتیں۔
چھٹی کے روز اس کے ابّو ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے کہ اخبار والا اخبار پھینک کر چلا گیا انہوں نے نونی سے کہا " شا باش ،ذرا دوڑ کر اخبار تو اٹھا کر لے آؤ"-
نونی نےجھٹ بہانہ بنا دیا- "ابّو- باہر موٹا بلّا بیٹھا ہے- مجھے ڈر لگ رہا ہے"- ابّو بے چارے خود جا کر اخبار اٹھا کر لے آئے۔
اسے اسکول جانا اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ صبح دیر تک مزے سے سوتا رہے۔ لیکن ابّو کی ڈانٹ کے ڈر سے اسے اٹھنا پڑتا تھا۔
وہ چوتھی جماعت میں آگیا تھا اس کے باوجود کام چوری کی عادت نہیں گئی تھی- اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو اسے جوتوں کے تسمے باندھنے آئے اور نہ پینٹ شرٹ کے بٹن لگانے- صبح اسکول جاتے ہوئے وہ یونیفارم اور جوتے پہن کے بیٹھ تو جاتا تھا مگر بٹن لگانے اور تسمے باندھنے کے لیے اسے امی کا انتظار کرنا پڑتا تھا کیوں کہ وہ ناشتہ تیار کرنے میں مصروف ہوتی تھیں- اس کے کوئی کام نہ کرنے کی عادت پختہ ہوتی جا رہی تھی۔
اس کی امی بہت پریشان رہنے لگی تھیں- وہ سوچتی تھیں کہ اس بری عادت سے چھٹکارا نہ پایا تو نونی بڑا ہو کر کیا کرے گا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک روز اس کے ابّو سے بھی بات کی۔ وہ تھوڑی دیر تو خاموشی سے کچھ سوچتے رہے پھر بولے- "بات تو فکر کی ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس کی اس عادت کو ختم کروائیں"۔
ایک دفعہ اتوار کے روز نونی کی امی دوپہر کا کھانا پکانے میں مصروف تھیں۔ نونی اپنے ابّو کے ساتھ بیٹھا ٹی وی پر کارٹون دیکھ رہا تھا- کارٹون کے دوران جب اشتہارات کا وقفہ آیا تو نونی نے اپنے ابّو سے کہا "ابّو- مجھے کارٹون دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ہر وقت کارٹون ہی دیکھتا رہوں"۔
اس کے ابّو نے مسکرا کر کہا- "کارٹون تو ہوتے ہی مزے دار ہیں۔ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ ہر وقت انہیں دیکھتے رہیں۔ مگر یہ بات ممکن نہیں ہے۔ سب لوگ اگر ہر وقت ٹی وی کے آگے ہی بیٹھے رہیں گے تو پھر دوسرے کام کون کرے گا"۔
"ابّو- یہ بات تو آپ نے ٹھیک کہی- اگر ہمارا دودھ والا، اخبار والا، خاکروب اور ہمارے گھر میں کام کرنے والی ماما یہ سب لوگ مزے سے بیٹھ کر کارٹون ہی دیکھتے رہیں تو پھر دودھ اور اخبار کون لائے گا- ہمارے گھر کا کچرا کون اٹھائے گا، ہمارے گھر کی صفائی اور کپڑوں کی دھلائی کون کرے گا"- نونی نے کہا۔
اس کی بات سن کر اس کے ابّو بڑے پیار سے بولے- "ہمارے نونی نے تو بہت اچھی بات کی ہے بہت سمجھدار بچہ ہوگیا ہے"-ابّو کے منہ سے اپنی تعریف سن کر نونی خوش ہوگیا-" ابّو نے کہا، "اگر تم غور کرو تو دنیا کے سارے انسان کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے ہیں، جن سے ایک دوسرے کو مدد اور فائدہ پہنچتا ہے۔
ابّو کی بات سن کر نونی سوچ میں پڑ گیا تھا- اس نے کہا "اور ابّو امی بھی صبح سے رات تک گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہمیں تمام چیزیں ریڈی ملتی ہیں۔ ان کی تو اگر طبیعت بھی خراب ہو تب بھی وہ کاموں میں مصروف رہتی ہیں تاکہ ہمیں کوئی تکلیف نہ ہو"۔
"یہ تو ہے ماشااللہ تمہاری امی بہت ہمت والی ہیں- انھیں گھر کے بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں۔ اچھا اب تم مجھے یہ بتاؤ کہ ہم نے جو یہ تمام باتیں کی ہیں ان سے ہمیں کیا سبق ملا ہے؟"
نونی نے تھوڑا شرماتے ہوئے کہا- "جب اتنے سارے لوگ ہمارے کاموں میں مصروف ہیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی کام کیا کریں تاکہ جیسے ان کے کاموں سے ہمیں فائدہ پہنچتا ہے ہمارے کاموں سے انھیں بھی پہنچے"-
"شاباش"- اس کے ابّو نے خوش ہو کر کہا- "بچے تو چھوٹے ہوتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے کام تو کر نہیں سکتے۔ لیکن یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ گھر کے کاموں میں اپنی امی اور بھائی بہنوں کی تھوڑی بہت مدد کریں۔ خود یونیفارم اور جوتے وغیرہ پہن لیں۔ اپنے بستوں میں خود ہی کاپیاں کتابیں اور دوسری چیزیں سنبھال کر رکھ لیں۔ اپنے جوتوں پر پالش کرلیں۔ پیاس لگے تو خود ہی اٹھ کر پانی پی لیں۔ اسکول سے آکر یونیفارم کو ہینگر میں ٹانگ کر احتیاط سے الماری میں رکھ دیں۔ کھانا کھانے کے بعد برتنوں کو کچن میں لے جا کر رکھ دیں- اس کے علاوہ ایسے ہی دوسرے چھوٹے موٹے کام جو وہ بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں، انھیں کریں- بچپن سے ہی چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی عادت ہوگی تو وہ بڑے ہو کر بڑے بڑے کام بھی کر سکیں گے۔
ابو کی باتوں کا نونی کے دل پر بہت اثر ہوا تھا۔ اتنے میں اس کی امی کی آواز آئی۔ "کھانا تیار ہوگیا ہے۔ آپ لوگ ہاتھ دھو کر ٹیبل پر پہنچ جائیں"۔
ان کی بات سن کر نونی جھٹ کچن میں پہنچا۔ اپنے ہاتھ دھوئے- اس کی امی خالی پلیٹیں اور چمچے ٹیبل پر رکھنے جا رہی تھیں- نونی نے کہا- "امی- آپ کھانا نکالئے- یہ چیزیں میں ٹیبل پر رکھوں گا"-اس کی بات سن کر اس کی امی حیران رہ گئیں۔ نونی نے ان کے ہاتھوں سے پلیٹیں اور چمچے لیے اور انھیں ٹیبل پر رکھ آیا۔ امی نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا- " مجھے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا، یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں"۔
"ابّو نے مجھے بتایا ہے ، کام کرنا بہت اچھی بات ہے۔ ہمارے کاموں کی وجہ سے دوسروں کو آرام ملتا ہے۔ آج کی بعد میں بھی اپنا کام خود کیا کروں گا- " نونی بیٹا- میں خوش ہوں کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور تم کام کی اہمیت سے واقف ہوگئے ہو۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے کام کرنے سے نہ صرف ہمیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے- اپنے کسی عمل سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا نیکی کا کام ہے"۔