• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دماغ کو سمجھنا، سیکھنے میں کس طرح مدد کر سکتا ہے؟

اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں ریاضی کی پروفیسر جو بوئلر کی کتاب "Limitless Mind: Learn, Lead, and Live Without Barriers" میں سیکھنے کی چھ کلیدوں کی وضاحت کی گئی ہے، جو کسی کو بھی اسکول یا زندگی میں کامیابی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ بوئلر کا کہنا ہے کہ جب لوگ یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ان کا دماغ کس طرح کام کرتا ہے اور اپنے سیکھنے کے لیے مدد کیسے کی جاتی ہے، تو ایسے لوگ کچھ بھی سیکھ سکتے ہیں۔

ٹیلنٹ کا مسئلہ

’’ہر سال لاکھوں بچے سیکھنے کی لگن میں اسکول جانا شروع کرتے ہیں، لیکن جب وہ یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ وہ دوسروں کی طرح ہوشیار نہیں ہیں، تو جلدی مایوس ہو جاتے ہیں‘‘، بوئلر لکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین اور اساتذہ نادانستہ طور پر یہ پیغام دیتے ہیں کہ ٹیلنٹ پیدائشی ہے، یعنی یا تو آپ کے پاس ہے یا پھر نہیں۔ تاہم، نیوروپلاسٹیسٹی کی سائنس (سیکھنے کے ردعمل میں ہمارے دماغ کیسے بدلتے ہیں) یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی عمر میں سیکھا جاسکتا ہے۔

دماغ سیکھنے میں کیسے مدد کرتا ہے؟ 

بوئلر صرف مسئلہ کی نشاندہی نہیں کرتیں بلکہ اسے دور کرنے کے لیے چھ تجاویز بھی فراہم کرتی ہیں۔

1- اس بات کو سمجھیں کہ آپ کا دماغ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ ’’جب بھی ہم سیکھتے ہیں، ہمارا دماغ عصبی راستوں کو بناتا، مضبوط کرتا یا جوڑتا ہے‘‘، بوئلر لکھتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی پیدائش کے وقت اس کی حد مقرر نہیں کرسکتا کہ وہ کیا سیکھ سکتا ہے۔ اس کے بجائے، یہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ ایک تحفہ ہے اور اساتذہ کے سکھانے کے طریقے سے اس پر اثر پڑتا ہے۔

2- جدوجہد، غلطیوں اور ناکامیوں کو گلے لگانا سیکھیں۔ طلبا اور اساتذہ عام طور پر یہ مانتے ہیں کہ ٹیسٹ میں درست جواب ملنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طلبا سیکھ رہے ہیں۔ لیکن بوئلر بتاتی ہیں، یہ دراصل اس وقت ہوتا ہے جب طالب علم ان مشکل چیزوں پر عمل کرتے ہیں جو کہ ان کی صلاحیت سے باہر ہوتے ہیں، اس پر دماغ زیادہ محنت کرتا ہے اور نئے علم کو ذہن نشین کرنے کے بعد اسے مزید قابل رسائی بناتا ہے۔ جبکہ غلطیاں کرنے سے انہیں کسی مسئلے پر غور کرنے کے مختلف طریقوں پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملتی ہے، جس سے سیکھنے کی قوت بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ جب اساتذہ طلبا کو جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور طلبا غلطیاں کرتے ہیں، تو یہ عمل سیکھنے کیلئے بہت عمدہ ہے۔

3- اپنے دماغ کے بارے میں اپنے عقائد کو بدلیں، آپ کا دماغ اس کی پیروی کرے گا۔ جب آپ اپنے بارے میں اپنے خیالات بدلتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ آپ کے جسم اور دماغ کو بھی بدل دے گا۔ مثال کے طور پر، محققین نے پایا کہ جو بالغ افراد (18سے49سال کی عمر کے درمیان) بڑھاپے کے بارے میں منفی خیالات رکھتے تھے، انھیں ابتدائی عمر، دل کی صحت، نسل یا بہت سے دیگر عوامل سے قطع نظر اگلے 38 سالوں کے دوران امراض قلب ہونے کا زیادہ امکان تھا۔ یہی بات اس کیلئے بھی درست ہے کہ آپ اپنے سیکھنے کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں۔

4- سیکھنے کے لیے متعدد طریقوں کو آزمائیں۔ کوشش اور استقامت کے ذریعے علم کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ سیکھنے کے لیے ترقی کی ذہنیت کا ہونا ضروری ہے مگر سیکھنے کی نئی حکمت عملیوں کو آزمانا بھی اہم ہے۔ پڑھانے اور سیکھنے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر بہترین کام کرتے ہیں کیونکہ وہ دماغ کے بہت سے حصوں کو ایک ساتھ منسلک کرتے ہیں اور اس کے مختلف حصوں کے درمیان مواصلات، سیکھنے میں مدد دیتی ہے۔ دماغ کے کام کرنے کے بارے میں نئی دریافتیں تعلیم کے لیے ایک مختلف نقطہ نظر کی ضرورت کو ظاہر کر رہی ہیں جو ماضی میں سیکھنے کے زیادہ تر طریقوں کے برعکس زیادہ جسمانی، کثیر جہتی اور تخلیقی طریقوں پر مشتمل ہے۔

5- تیز رفتاری کے بجائے لچکدار سوچ کا مقصد بنائیں۔ اکثر اساتذہ اور طلبا یہ سوچتے ہیں کہ کسی چیز پر تیزفتاری دکھانے کا مطلب ہے کہ آپ اس میں اچھے ہیں۔ لیکن، جیسا کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے، اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ دباؤ میں کچھ کرنے کی کوشش کرنا، جیسے کہ ایک وقتی ٹیسٹ تناؤ کا سبب بن سکتا ہے، جو اہم معلومات کو یاد کرنے کیلئے درکار ورکنگ میموری کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی لیے بوئلر کا استدلال ہے کہ طلبا کو گھر پر حل کرنے کیلئے ریاضی کے طویل سوالات دینا یا محدود وقت میں کارکردگی کی پیمائش کی کوشش کرنا مفید نہیں ہے۔ اس کے بجائے، وقت کے ساتھ لچکدار طریقوں سے مواد کے ساتھ مشغول ہونا سیکھنے کی کلید ہے۔

6- تعاون کرنے کی کوشش کریں۔ وہ اسکول جو ترقی کی ذہنیت کو پروان چڑھاتے ہیں، اگر اس خیال کے مطابق وہ اقدامات نہیں کرتے تو ضروری نہیں کہ وہ طالب علموں کو بہتر سیکھنے میں بھی مدد دیتے ہوں۔ اسکولوں کیلئے اس خیال کو تقویت دینا بہت ضروری ہے کہ اکٹھے سیکھنا، اکیلے سیکھنے سے بہتر ہے۔ ’’ایک اہم تبدیلی اس وقت رونما ہوتی ہے جب طلبا مل کر کام کرتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ ہر کسی کو کچھ یا تمام کام مشکل لگتے ہیں‘‘، بوئلر لکھتی ہیں۔