کراچی ( رفیق مانگٹ) سعودی عرب اور اسرائیل میں بڑھتی قربتوں کے درمیان سینئر اسرائیلی حکام نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔
ریاض میں ہونے والی بات چیت میں علاقائی سلامتی کے مسائل، ایران سے لاحق خطرات پر توجہ مرکوز کی گئی۔
بائیڈن انتظامیہ خاموشی سے سعودی عرب، اسرائیل اور مصر کے درمیان مذاکرات پر ثالثی کر رہی ہے جو کامیاب ہو ئی تو سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ پر پہلا قدم ہو سکتا ہے۔
اسرائیلی کاروباری شخصیات نے بھی سعودیہ کا دورہ کیا ہے ، بائیڈن انتظامیہ سعودیہ، اسرائیل اور مصر میں ثالثی ، علاقائی اتحاد تشکیل دینے کی کوشش میں مصروف، امریکا خفیہ طور پر بحیرہ احمر کے دو تزویراتی جزیروں کی ریاض کو منتقلی پر بات چیت کر رہا ہے، بائیڈن اور سعودی ولی عہد میں ملاقات کی کوشش ،سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر محمد بن سلمان کیلئے صدر بائیڈن کی جانب سے معافی دیئے جانے کا امکانہے۔
اسرائیلی میڈیا جن میں ”ٹائمز آف اسرائیل، ہرٹز، یروشلم پوسٹ“ اور دیگر غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سینئر اسرائیلی حکام نے مبینہ طور پر حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا، ان قیاس آرائیوں کے درمیان کہ یروشلم اور ریاض تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے قدم اٹھا رہے ہیں۔اسرائیل ہیوم نے انکشاف کیا کہ حالیہ برسوں میں متعدد سینئر اسرائیلی حکام نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے، جن میں وزیر دفاع بینی گانٹز اور موساد کے سابق دو سربراہان شامل ہیں۔
گانٹز 2012سے 2016تک IDF کے چیف آف اسٹاف کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ سعودی عرب کا دورہ کرنے والے دیگر عہدیداروں میں موساد کے سابق سربراہ یوسی کوہن اور تامیر پارڈو شامل ہیں۔
اس کے علاوہ درجنوں اسرائیلی کاروباری اور ٹیک شخصیات نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا۔
گلوبز کے مطابق، کاروباری افراد سودوں اور سرمایہ کاری پر بات چیت کے لیے خصوصی انٹری ویزا کے ساتھ اسرائیلی پاسپورٹ پر سعودی عر ب جاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ درجنوں اسرائیلی ٹیک انٹرپرینیورز اور کاروباری افراد نے حال ہی میں اسرائیلی کمپنیوں میں سعودی سرمایہ کاری اور اسرائیلی سرمایہ کاری کے فنڈز پر بات چیت کے لیے سعودی عرب کا رخ کیا۔
اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں تعلقات میں گرم جوشی دیکھنے کو آئی کیونکہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مبینہ طور پر خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کو ایک اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں۔اسرائیل کے چینل 12نے ذرائع کا حوالہ دیے بغیر کہاکہ اسرائیلی حکام کی ریاض پیلس میں سیکورٹی اور دیگر ہم آہنگی کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کے لیے گرمجوشی سے میزبانی کی گئی۔
فریقین نے علاقائی سلامتی کے مفادات پر تبادلہ خیال کیا جو حالیہ برسوں میں ایران کی طرف سے درپیش مشترکہ خطرات پر مزید مربوط ہو گئے ہیں۔
روزنامہ Yedioth Ahronoth نے بھی دونوں ممالک کے شخصیات کے درمیان ملاقاتوں کی تصدیق کی۔
دو ممالک کے درمیان جن کے کوئی باضابطہ تعلقات نہیں ہیں کے درمیان یہ بات چیت اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکا نے خطے میں اپنے اتحادیوں کے درمیان تعاون پر زور دیا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے دورے میں اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ممالک جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق، بائیڈن انتظامیہ کا خیال ہے کہ کسی انتظام کو حتمی شکل دینے سے فریقین کے درمیان اعتماد پیدا ہو سکتا ہے اور اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان گرمجوشی کے تعلقات کا آغاز ہو سکتا ہے، جن کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
یہ معاہدہ ابراہیمی کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکی خارجہ پالیسی کی سب سے اہم کامیابی ہوگی، جسے ٹرمپ انتظامیہ نے بنایا اور اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے درمیان معاہدوں کو معمول پر لانے کا باعث بنا۔
کامیاب مذاکرات بائیڈن انتظامیہ اور سعودی عرب کے درمیان تناؤ کو بھی کم کر سکتے ہیں۔
امریکی اور اسرائیلی ذرائع کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے کوآرڈینیٹر بریٹ میک گرک بائیڈن انتظامیہ کے ثالثی کی موجودہ کوششوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ سعودی عرب نے جزائر کو غیر فوجی رکھنے اور تمام بحری جہازوں کو نیوی گیشن کی مکمل آزادی برقرار رکھنے پر اتفاق کیا لیکن وہ جزائر میں کثیر القومی مبصرین کی موجودگی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
اسرائیلی حکام نے کثیر القومی فورس کی موجودگی کو ختم کرنے پر غور کرنے پر اتفاق کیا لیکن متبادل حفاظتی انتظامات کے لیے کہا۔
امریکا خفیہ طور پر سعودی عرب، اسرائیل اور مصر کے درمیان بحیرہ احمر کے دو تزویراتی جزیروں کی ریاض کو منتقلی پر بات چیت کر رہا ہے۔
معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے بات چیت جاری ہے، جس میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سکیورٹی انتظامات پر اتفاق کیا جا سکتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان پہلی بار گرمجوشی سے تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں۔
امریکا اور اسرائیل مبینہ طور پر ریاض پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مکمل طور پر تعلقات معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ان مجوزہ اقدامات میں سعودی عرب کو اسرائیل کو تمام پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینا، نہ صرف خلیجی ممالک کے سفر کے لیے اور اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان مکہ اور مدینہ جانے والے مسلمان زائرین کے لیے براہ راست پروازیں شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، امریکا اسرائیل کے ساتھ معمول پر لانے کے لیے سعودی عرب سے مزید عوامی اشارہ چاہتا ہے۔
اخبار نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کے حکام اسرائیل، مصر، سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر علاقائی سلامتی اتحاد کی تشکیل کو فروغ دے رہے ہیں۔
میک گرک بائیڈن اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات کے لیے کام کر رہے ہیں اور اگلے مہینے کے آخر میں بائیڈن کے خطے کے دورے سے قبل مصر، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدے کی ثالثی کرنا چاہتے ہیں۔جبکہ انتظامیہ نے صرف بائیڈن کے اسرائیل کے دورے کی تصدیق کی ہے، سی این این نے گزشتہ ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ امریکی حکام بائیڈن اور سعودی ولی عہد کے درمیان ملاقات کا اہتمام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ریاض نے اپنے اتحادی ممالک متحدہ عرب امارات اور بحرین کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے حمایت کی تھی، لیکن اس نے ایسا ہی قدم اٹھانے سے گریز کیا اور ان کا یہ موقف ہے کہ وہ اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے بغیر ایسا نہیں کرے گا۔شہزادہ محمد بن سلمان نے مارچ میں کہا تھا کہ اسرائیل ریاض کاممکنہ اتحادی ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب کے حکمران نے کہا کہ ہم اسرائیل کو ایک دشمن کے طور پر نہیں دیکھتے، ہم انہیں ایک ممکنہ اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں بہت سے مفادات ہیں جو ہم مل کر حاصل کر سکتے ہیں۔
اسرائیل اور سعودی عرب برسوں سے سفارتی، سلامتی اور تجارتی امور پر خفیہ مذاکرات کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے اعلیٰ حکام، بنیادی طور پر دفاعی امور سے متعلق، وقتاً فوقتاً سعودی عرب کا دورہ کرتے ہیں۔
تاہم سعودی عرب ان تعلقات کو باضابطہ شکل دینے کا خواہاں نہیں ہے جس کی بنیادی وجہ اسرائیل فلسطین تنازع ہے۔امریکا نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کابائیکاٹ کررکھا ہے، کچھ ایسے موضوعات کو معطل کر دیا جو دونوں ممالک کے درمیان زیر بحث تھے۔ صدر بائیڈن ممکنہ طور پر بن سلمان کومعاف کر رہے ہیں۔
یہ یوکرین میں جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے توانائی کے عالمی بحران اور ایران کی جانب سے فروخت ہونے والے تیل کی مقدار کو بڑھانے کی کوششوں کے پس منظر میں سامنے آیا ہے۔امریکی اقدام اسرائیل کے ساتھ سعودی تعلقات کو مزید واضح کر سکتا ہے، خواہ اب بھی رسمی نہ ہو۔
سعودی عرب نے 2020میں واشنگٹن کی ثالثی میں ابراہم معاہدے پر دستخط کرنے سے گریز کیا جیسا کہ امریکہ اور اسرائیل کو امید تھی، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ ریاض نے بحرین کو، جہاں اس کا فیصلہ کن اثر و رسوخ برقرار ہے، اسرائیل کے ساتھ معمول کے معاہدے میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ہے۔
اس معاہدے پر متحدہ عرب امارات، مراکش اور سوڈان نے بھی دستخط کیے۔اس کے علاوہ، معاہدوں پر دستخط ہونے کے بعد، سعودی عرب نے اسرائیلی ایئر لائنز کو متحدہ عرب امارات اور بحرین جانے اور جانے والی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینا شروع کردی۔
لیکن اسرائیل کو بھارت، تھائی لینڈ اور چین کے لیے پروازوں کے لیے ابھی تک ایسی رسائی نہیں ملی ہے، جس کے نتیجے میں وہ ضرورت سے کہیں زیادہ طویل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلیوں اور سعودیوں کے درمیان یورپی اور دیگر ممالک میں شہری اور دفاعی شعبوں میں متعدد معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں، جن میں زرعی ٹیکنالوجی کے شعبے میں ملین ڈالر کا معاہدہ اور اسرائیلی پانی کے لیے دوسرا معاہدہ شامل ہے۔ سعودیوں نے اسرائیلی طبی اور صحت تکنیکی حل کے ساتھ ساتھ اسرائیلی مصنوعات میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی کاروباری افراد مہینوں سے سعودی اداروں کی دعوت پر خصوصی انٹری ویزوں پر سعودی عرب جا رہے ہیں۔
انہوں نے دارالحکومت ریاض اور بحیرہ احمر کے شہر نیوم کا بھی دورہ کیا ہے جہاں سعودی عرب کے پاس اسمارٹ سٹی ٹیکنالوجیز کو شامل کرنے کے بڑے منصوبے ہیں جن میں اسرائیلی حل شامل ہو سکتے ہیں۔
نیوم سعودی ویژن 2030کا حصہ ہے، جو معاشی، سماجی اور ثقافتی ترقی کے لیے ایک قومی خاکہ ہے۔2020ے اواخر میں، سابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور موساد کے سابق سربراہ یوسی کوہن، دیگر اسرائیلی حکام اور اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ، کہا جاتا ہے کہ وہ ولی عہد شہزادہ سے ملاقات کے لیے اس شہر کا دورہ کر چکے ہیں۔
نیتن یاہو اور کوہن نے تاجر ایہود اینجل کے پرائیویٹ طیارے پر سعودی عرب کا سفر کیا تھا وہی جیٹ جسے اس وقت کے وزیر اعظم نے 2019میں عمان کے خفیہ دورے کے لیے استعمال کیا تھا۔
سینئر امریکی حکام نے ایک معاہدے پر خفیہ بات چیت کے لیے سعودی عرب کا سفر کیا جو ریاض کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات کو فروغ دے سکتا ہے۔