رشید احمد صدیقی
رشید احمد صدیقی یوپی کے ضلع جونپور کے ایک گاؤں مڑیا میں 1894ء میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک جونپور میں رہے، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ آ گئے۔ مالی حالت سے مجبور ہو کر کچہری میں ملازمت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ چنانچہ ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی اورفارسی میں ایم اے کیا۔ آپ نے طالب علمی کے زمانے سے مزاحیہ مضامین لکھنا شروع کیے۔ علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رہے۔ 1922ء میں وہیں کالج میں پروفیسر ہو گئے اور جب یونیورسٹی بنی اور اردو ادبیات کا شعبہ قائم ہوا تو رشید احمد صدیقی کو صدر شعبہ بنا دیا گیا۔
وہ شعروادب کا بڑا ستھرا ذوق رکھتے ہیں ادب کے بڑے اچھے استاد ہیں ان کی زندگی شرافت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا بہترین نمونہ ہے۔عام طور پر ایک عظیم انشاپرداز، منفرد مزاح نگار اور بے مثل خاکہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ 1977ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ’’نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کے لکھے ہوئے ایک انشائیے سے اقتباس:
……٭٭……٭٭……
دولت کی خاطر سب سے پہلے میں نے بھیک مانگنا شروع کیا۔ اس کے لئے کسی اہتمام کی ضرورت نہ تھی۔ صرف حلیہ کفایت کرتا تھا جو مجھے میسر تھا اور جس پر مجھے ہمیشہ اعتماد رہا۔ اعتماد سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ حُلیہ پر اعتماد ہونے ۔ بھیک مانگنے پر… یہاں سے بڑھا تو قرض لینے پر اعتماد ہوا۔ پھر چوری پر، پھر سینہ زوری پر۔ پھر شعر و ادب پر، اس سے بڑھا تو پھر اپنی اصلیت پر آگیا۔ یعنی بھیک مانگنے پر اسے کہتے ہیں، گھن چکر، میرے حصہ میں ہی چکر آیا۔ بعضوں کے حصے میں اور بہت سے چکر آئے ہیں آپ کیوں اس چکر میں پڑیں۔
میں نے بھیک مانگنا شروع کیا تو بھیک منگوں نے شاعری شروع کردی۔ اب میرے لئے بڑی مشکل تھی۔ وہ یوں کہ لوگ یہ تمیز نہیں کرسکتے تھے کہ بھیک منگا کون ہے اور شاعر کون۔ تمیز گھٹتی ہے تو دولت بڑھتی ہے لیکن جہاں دولت سے پہلے نہ ہو وہاں اس کے سوا چارہ نہیں کہ بھیک منگے اور شعر پڑھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میونسپلٹی نے قانون پاس کردیا کہ بھیک مانگنا جرم ہے۔ سارے بھیک منگے شہر بدر کر دیئے جائیں۔ ان کے ساتھ شاعر بھی نکالے گئے۔ انہوں نے خلد سے آدم کے نکالے جانے اور کسی کی گلی سے خود اپنے نکالے جانے کا شعر بھی پڑھا لیکن ایک پیش نہ گئی۔
کہا یہ گیا کہ آدم اس لئے نکالے گئے کہ وہ ضرورت سے زیادہ آدمی تھے اور تم اس لئے نکالے جارہے ہو کہ سرے سے آدمی نہیں ہو۔ اتنا بھی کسی نے نہ دیکھا کہ کتنے بھیک منگے شاعر تھے یا شعر بھیک منگے۔اب ان کی اوقات یہ رہ گئی تھی کہ دن بھر بھیک مانگتے۔ رات کو مشاعرہ کرتے۔ زندگی کا یہ انداز بہت مقبول ہوا۔ ایک نئی میونسپلٹی وجود میں آگئی۔ ظاہر ہےکہ کوئی زندگی میونسپلٹی سے خالی نہیں بھیک منگے ممبر بنے۔
شاعر ووٹر رہ گئے۔ مجھ میں دونوں کے خواص پائے گئے اس لئے میں چیئرمین تسلیم کرلیا گیا۔دولت کمانے، شعر کہنے اور مار کھانے کا کوئی اصول نہیں۔ طریقے بہت سے ہیں یہی سبب ہے کہ بھیک منگوں اور شاعروں کا آج تک کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا۔ انہوں نے سب کچھ بگاڑا ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے تین طریقے عام ہیں۔ بھیک مانگنا، قرض لینا، چوری کرنا۔ ان میں ہر ایک ایسا ہے جو سلیقے سے نہ برتا جائے تو آدمی جیل یا جہنم کو چلا جاتا ہے اور سلیقے سے برتا جائے تو نور علی نور۔
دولت کمانے کے ان تینوں طریقوں کو میں نے بڑے سلیقے سے برتا ہے۔میرا کہنا یہ ہے کہ بھیک مانگنے میں بھی کچھ سلیقے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مثلاً یہی دیکھئے کہ بھیک اس طرح مانگے کہ لوگ چندہ مانگنا سمجھیں یا چوری اس طرح کرے کہ لوگ سمجھیں مذاق یا قوم کی خدمت کررہا ہے یا قرض اس طرح مانگے کہ لوگ سمجھیں ملک خطرے میں ہے یا سب کچھ بیک وقت کررہا ہو اور ہم آپ سمجھیں ترقی پسند ہے یہ سب سلیقہ ہی کا کرشمہ ہے یا کسی اور کا۔
بھیک مانگے والوں نے اس فن کے جواز میں یہ بتایا ہے کہ بھیک مانگنا دراصل بھیک مانگنا نہیں ہے بلکہ بھیک دینے والے کو اس کا موقع دینا ہے کہ وہ خدا کو قرض دے جسے خدا آخرت میں ادا کرے گا۔ میں اب تک یہ دریافت نہیں کرسکا ہوں کہ دنیا و آخرت میں کون رقبہ ’’سافٹ کرنسی‘‘ میں ہے اور کون ’’ہارڈ کرنسی‘‘ میں اور شرح مبادلہ کیا ہے۔
اقبال نے ایک جگہ کہا ہے کہ اپنی خودی کو اتنا بلند کرو کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔ ممکن ہے کہ خودی کے بلند ہوجانے پر خدا بندے کی رضا پوچھنے کے بعد خودی کے مقررہ معیار پر نظرثانی کر ڈالے۔ مجھے شبہ ہے کہ میری خودی کبھی اتنی بلند ہوسکے گی کہ خدا میری رضا پوچھنا گوارا کرے گا۔ میں نے بھی بھیک مانگنے میں خدا سے کبھی نہ پوچھا کہ اس کی رضا کیا ہے۔ مجھے تو اکثر اس کا اندیشہ رہا کہ جو لوگ مجھے بھیک دیتے ہیں۔ خدا ان کی رضا طلب کرنے کی بجائے ان سے جواب طلب کرے گا۔
چور بازاری کی آمدنی پر خدا کو مقروض کرنا بالخصوص ایسی حالت میں کہ شرح مبادلہ زر طے نہ ہو۔ میرے نزدیک کوئی شریفانہ فعل نہیں ہے۔ لیکن میں ایمانداری سے بھیک مانگتا ہوں یا نہیں اتنی بات ضرور ایمانداری سے کہوں گا کہ میں نے اتنی بھیک نہیں مانگی کہ بھیک دینے والے کو آخرت میں کچھ زیادہ آمدنی کی توقع ہو۔ مجھے امید ہے خدا میری اس خدمت کا لحاظ ضرور رکھے گا۔
میں نے عرض کیا تھا کہ دولت کمانے کے تین طریقے بہت مقبول ہیں۔ ان تینوں میں میں نے بھیک مانگنا اختیار کیا تھا۔ آپ یہ معلوم کرکے خوش ہوں گے کہ قرض لینا اور چوری کرنا دراصل بھیک مانگنے ہی کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں۔ یہ یا تو توقع یا مصلحت ہوتی ہے کہ ہم کسی کو بھک منگا نہیں مقروض یا چور کہتے ہیں اور یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم ایک بھک منگے کو چور کہتے ہیں اور دوسرے بھک منگے کو غریب پرور سلامت۔
قرض لینے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کو پیسے کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہوجاتا ہے۔ قرض دینے والا جب آسیب کی طرح آپ کا پیچھا کرنے لگتا ہے اس وقت آپ محسوس کرتے ہیں کہ پیسے کا پاس ہونا یا نہ ہونا کیا اہمیت رکھتا ہے۔
بھیک منگائی، قرض، چوری کے تجربات ابھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ میرا سابقہ ایسے زمانے اور ایسے لوگوں سے ہوا جو دولت پیدا کرنے کی بجائے دولت لوٹنے کی عبادت میں مبتلا تھے۔ مجھے لوٹنے والوں کے ہتھکنڈے معلوم تھے۔ لیکن عقل کے اعتبار سے میں کچھ ایسا مرنجان مرنج واقع ہوا تھا کہ جس آسانی سے دوسروں کی کامیابی دیکھتا اور نیچا تھا۔
اس سے بدرجہا زیادہ غوروفکر کے بعد بھی اور غالباً اسی وجہ سے اپنی نالائقی کا اندازہ نہ کرسکتا تھا۔ میں نے لفنگوں کو لیڈر بنتے دیکھا۔ لیکن خود لفنگا بننے کی کوشش شروع کی تو لفنگوں نے مار گرایا وہ بھی اس شان سے کہ نہ لفنگا بن سکا نہ لفنگوں کا کچھ بگاڑ سکا۔ چور بازاری شروع کی تو بازار والوں نے مجھے خفیہ پولیس اور خفیہ پولیس نے دہشت پسند قرار دے کر چالان کردیا اور ایک خاتون مجسٹریٹ نے ناقص العقل قرار دے کر چھوڑ دیا۔
دولت کی خاطر میں ’’گرومورفوڈ‘‘ (خوراک زیادہ پیدا کرو) کی تحریک پر بھی عمل کیا ہے اس میں سب سے پہلی وقت یہ محسوس ہوئی کہ جب تک زیادہ کھایا نہ جائے اس وقت تک زیادہ خوراک کیسے پیدا کی جائے۔ یہاں کھانے کو جو کچھ مل رہا تھا۔ وہ پہلے ہی سے ’’خون دل بے منت کیموس‘‘ تھا۔ بہرحال ایک قطعہ اراضی حاصل کیا اور مریل بیل اور ایک شکستہ ہل بہم پہنچائے۔
فن کاشتکاری ایک کتاب چرائی ’’گرومورفوڈ‘‘ کے مسئلہ پر شکم سیر لیڈروں کی جتنی تقریریں ہوئی تھیں وہ سب اپنے اوپر دم کیں۔ قوم کے لئے نعرہ لگاتا، اپنے آپ پر لعنت بھیجتا، اوباشوں کے تیور اور دلدروں کے حلیہ میں کھیت پر پہنچا۔ چابک کو اونچا کیا اور بیل کو ایک دو رسید بھی کردیئے۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ایک جگہ پائوں مڑا، زمین پر آرہا لیکن ہل کو نہ چھوڑا، اور گھسیٹتا چلاگیا جو زمین ہل سے کھدی تھی وہ ہموار ہوگئی اور ایک ایسا طریقہ دریافت ہوگیا جس سے بیک وقت زمین جتتی جائے، بیج پڑتے جائیں اور زمین ہموار ہوتی جائے تفصیل میں طوالت ہے۔
مختصر یہ کہ ایک گڑھے میں برسات کا پانی جمع تھا۔ اس میں سنگھاڑے کی بیل ڈال دی۔ ایک طرف دھان کے بیچ بکھیر دیئے کچھ تریاں بودیں دن رات کی کروٹوں کے ساتھ آفات ارضی وسمادی بھی کروٹیں لیتی رہیں۔ یہاں تک خیریت رہی لیکن پودوں کے نمودار ہوتے ہی آفات نے کروٹیں لینا بند کرکے چھلانگیں مارنا شروع کردیں۔ مجھے حفظ تھا کہ میں نے کہاں کیا بویا تھا اور کس قسم کی کاشتکاری شروع کی تھی لیکن یہ بالکل معلوم نہ تھا کہ میری کاشتکاری کتنی بابرکت تھی۔
سنگھاڑوں کے ساتھ میں نے گڑھے میں بھینسیں اُگتے دیکھیں جن پر کہیں کہیں بندر اُگے ہوئے تھے ان کے علاوہ ہر طرف مویشیاں، مرد، عورت، بچے، مرغیاں، بندر، چوہے، خرگوش، پٹواری، مہمان، شاعر، مسخرے بھی اُگنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خوراک پیدا کرنے کی بجائے مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ کہیں میں ہی خوراک نہ بن جائوں۔ ایک صاحب نے مجھے فوٹو لاکر دکھایا جو اس واقعہ سے متعلق تھا۔ جب میں نے ہل چلاکر گرومورفوڈ کا افتتاح کیا تھا اس کے نیچے لکھا ہوا تھا ’’ہل من مزید‘‘
میرے ایک آتش نوا شاعر دوست اسی دولت کی خاطر فلم میں پہنچے تو زمانہ ان کے اس اعلان سے گونج رہا تھا؎
ہاں بغاوت آگ، بجلی، موت، آندھی میرا نام
میرے گرد و پیش اجل میری جلو میں قتل عام
میرا مولد مفلسی کا دل ہے عسرت کا دماغ
میری پیدائش کےحجرے میں نہیں جلتا چراغ