• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیگر ممالک تاریخی ورثے محفوظ، بدقسمتی سے ہم تباہ کررہے ہیں، پشاور ہائیکورٹ

پشاور(نیوز رپورٹر) پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس قیصررشید خان نے کہا ہے کہ آرکیالوجی اور معدنیات ڈیپارٹمنٹ کی نااہلی کیوجہ سے ایسی لیزز جاری کی گئی ہیں جہاں پر آرکیالوجی سائٹس تھے ، جب ہم نے نوٹس لیاتو یہ ادارے گہری نیند سے جاگئے ،افسوس کیساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ان دونوں اداروں کے ڈائریکٹر جنرلز کی آپس میں کوآرڈینشن نہ ہونے کیوجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں، دیگر ممالک تاریخی ورثے کو محفوظ کررہے ہیں جبکہ یہاں پر تباہ کئے جا رہے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس گزشتہ روزصوبے کے مختلف علاقوں میں تاریخی مقامات میں مائننگ ڈیپارٹمنٹ کیجانب سے لیزز اور بعدازاں عدالتی حکم پر لیزز منسوخی سے متعلق دائر رٹ پر سماعت کے دوران دیئے، دو رکنی بنچ چیف جسٹس قیصررشید اور جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل تھا، اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سکندرحیات شاہ، معدنیات ڈیپارٹمنٹ کیجانب سے بیرسٹر اسدالملک، درخواست گزاروں کے وکلاءبابرخان یوسفزئی، سید امجد علی شاہ، ڈی سی مردان عارف حبیب اور آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد پیش ہوئے۔ کیس پر سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسکے موکل کو 200ایکڑ زمین رانی گٹ میں دی گئی تھی جو باقاعدہ لیز اور قانونی تقاضوں کے بعد حاصل کی گئی تاہم وہاں پرمختلف جگہوں پر تاریخی نوادرات مل رہے ہیں اور انکی لیز منسوخ کی گئی تاہم انہوں نے جو خرچہ کیا ہے وہ اسے نہیں دیاجارہا، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ نااہلی آرکیالوجی اور منرل ڈیپارٹمنٹ کی ہے کیونکہ اگر انکی نااہلی نہ ہوتی تویہاں لیز نہیں دی جاتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں اداروں میں کوآرڈی نیشن کا فقدان ہے لیکن اب دریائوں کی بحالی کا کام شروع ہے اور اربوں روپے ان دریائوں کی بحالی پر خرچ کئے جارہے ہیں جو انکی نااہلی کیوجہ سے تباہ وہ برباد ہوئے، سید امجد علی شاہ ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ اپنی ڈیوٹی پوری کرتی اورسیکشن 70کے تحت کمیٹی تشکیل دیتی تو یہ مسائل پیدا نہ ہوتے۔ کیونکہ منرل ڈیپارٹمنٹ کو پتہ نہیں کہ کونسی سائٹ تاریخی ہے اور یہاں مائننگ نہیں کی جاسکتی۔ دوران سماعت بابرخان یوسفزئی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اسکے موکل کو بھی ساول ڈھیر میں ایک لیزدی گئی تاہم اس کی لیز مجوزہ ایک ہزار میٹرسے باہرآتی ہے اور ایک ہزار کی بجائے اسکی لیز 1500میٹرکے علاقے میں ہے لیکن اسکے باوجود ان پر کام روک دیا گیا جس پر ڈائریکٹر آرکیالوجی نے بتایا کہ مختلف جگہوں پر ایسے آثارہوتے ہیں جس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہاں پر تاریخی نوادرات ہوسکتے ہیں اور یہ ایک آرکیالوجیکل سائٹ ہے تاہم بابرخان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس حوالے سے مزید کام کی ضرورت ہے ،اوراسکے کیس کو دوبارہ نظرثانی کیلئے بھیجاجائے۔دوران سماعت ڈائریکٹر جنرل معدنیات محمد نعیم اوران کے لیگل ایڈوائزربیرسٹر اسدالملک نے کہاکہ قانون کے تحت ایک کمیٹی بنانی ہوتی ہے جس میں آرکیالوجی اورجنگلات وغیرہ کے نمائندے شامل ہوتے ہیں مگرابھی تک انٹیک ایکٹ کے تحت وہ کمیٹی نہیں بنائی گئی جسکی وجہ سے جو لیزز مائننگ ڈیپارٹمنٹ نے دیئے اس میں بعد میں مسائل پیدا ہورہے ہیں اگر یہ بروقت اسے بتادیاجاتا کہ یہ مقامات تاریخی ہیں تو کوئی مائننگ لیز نہیں دی جاتی مگر سارا بوجھ مائننگ ڈیپارٹمنٹ پر ڈال دیا گیا حالانکہ اس میں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔ چیف جسٹس قیصررشید خان نے کہا کہ مائننگ ڈیپارٹمنٹ نے بہت زیادہ لیزز غیرقانونی طور پر دیئے ہیں اور انہوں نے بہت سی چیزوں کو نظرانداز کیا ہے اور ہم نے بھی سینکڑوں کی تعداد میں لیزز منسوخ کیں ، دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ مختلف مقامات پر جو مائننگ ہورہی تھی وہاں پر تاریخی سائٹس تھے وہاں پر متعددافراد کیخلاف ایف آئی آرز بھی درج کئے گئے، عدالت نے سماعت ملتوی کردی اوردرخواست گزاروں کے وکلاءکے کیسزسے متعلق ضروری احکامات جاری کئے جائیں گے۔
پشاور سے مزید