سیّدہ فرحت
ہم نہ سنیں گے اب یہ کہانی
ایک تھا راجہ ایک تھی رانی
نئی کہانی مجھے سناؤ
امی ہمارا جی بہلاؤ
ہم نہ سنیں گے شیر کا قصہ
آ جاتا ہے ہم کو غصہ
کیوں کھاتا ہے ہرن ہمارے
ننھے سے خرگوش بچارے
ہم تو سنیں گے قصہ ایسا
ایک ہو لڑکا میرا جیسا
شیر کو بھی جو مار بھگائے
راجہ کو خاطر میں نہ لائے
پار کرے جو سات سمندر
سیر کرے آکاش پہ جا کر
پار کرے وہ سات سمندر
سیر کرے آکاش پہ جا کر
تارے اس کے ہوں ہمجولی
چاند سے کھیلے آنکھ مچولی
بادل میں وہ جھولا جھولے
چاند ستاروں کو بھی چھو لے
امی میری اچھی امی
کہہ دو آج کہانی ایسی