• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرو فیسر مناظر عاشق ہر گانوی

بچو ! گئے وقتوں کی بات ہے کسی ملک میں ایک باد شاہ حکومت کرتا تھا اُسے طرح طرح کے پرندے اور جانور پالنے کا شوق تھا۔ وہ سال میں ایک بار جانور اور پرندے پکڑنے خود بھی جنگل جاتا تھا۔ اس کے پاس ہزاروں طرح کے جانور اور پرندے تھے۔ ایک باروہ جنگل گیا۔ اُس کی نگاہ ایک ہرن پر پڑی۔ اس نے پھندا ڈالنے کی رسی ہاتھ میں لی، اور گھوڑا دوڑا دیا۔ ہرن بھاگتا بھاگتا جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔ بادشاہ کے ہاتھ نہیں لگا۔ 

وہ ناامید ہو کر لوٹنے لگا لیکن راستہ بھول گیا۔ ہرن کے پیچھے پیچھے وہ اپنے ساتھیوں سے نہ جانے کتنی دور آ گیا تھا۔۔ اس نے سوچا یہاں جنگل میں رکنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ سوچ کروہ ایک سمت چل پڑا۔ بادشاہ کو چلتے چلتے بہت دیر ہو گئی ، مگر کوئی راستہ اب تک نہیں ملا۔ 

 سورج ڈوبنے سے پہلے بادشاہ کو ایک پگڈنڈی مل گئی۔ وہ گھوڑا موڑ کر پگڈنڈی پر تیزی سے چلنے لگا۔ کچھ فاصلے پر اسے روشنی نظرآئی۔ بادشاہ اسی طرح بڑھتا گیا ، قریب پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ ایک جھونپڑی کے آگے ایک کسان اور اس کی بیوی بیٹھے ہوئےہیں۔ کسان بادشاہ کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا ، ہکلاتا ہوا بولا " جہاں۔۔۔ پناہ۔۔۔آ۔۔۔ آپ۔۔۔ یہاں"۔

میں پرندے پکڑنے جنگل میں آیا تھا۔ ایک ہرن کے پیچھے بھاگتے ہوئے راستہ بھول گیا ہوں۔ اب رات یہیں گذارنا چاہتا ہوں ، سویرے چلا جاؤں گا۔" بادشاہ بولا۔

کسان بے چین ہو کر بولا۔ "جہاں پناہ ! مگر آپ یہاں کیسے ٹھریں گے؟ میرے پاس تو ایک اچھا بستر بھی نہیں ہے"۔

"تو کیا ہوا بادشاہ نے کہا۔ "اگر میں کسان ہوتا تو کیا شاہی محل ہی کے ملائم بستروں پر سوتا"؟

کسان نے بادشاہ کا گھوڑا ایک درخت سے باندھا ، اور اس کے کھانے کو کچھ گھاس بھی ڈال دی۔

بادشاہ نے آگ تاپتے ہوئے کسان سے پوچھا۔"تمہارا نام کیا ہے" ؟

" کلوا ہے ۔"

"اچھا کچھ کھانے کا سامان ہو تو لے آؤ بھوک لگ رہی ہے۔" بادشاہ نے کہا۔

"حضور! میرے پاس آپ کے کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے چند سوکھی روٹیاں ہیں ، وہ آپ کھا نہیں سکتے"۔

"میں کھا لوں گا تم لے آؤ۔"

کسان حیرت زدہ سا ، صبح کی بنی ہوئی روٹیاں لے آیا۔

بادشاہ نے روٹی کھا کر پانی پیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اُسے جلد ہی نیند آ گئی۔

صبح جانے کی تیاری کرتے ہوئے بادشاہ بولا۔ "کلوا ! تم کبھی محل کی طرف آؤ تو مجھ سے ضرور ملنا۔ اب راستہ بتا دو ، میں چلوں"۔

کلوا جب بادشاہ کو راہ دکھا کر لوٹا تو اس نے بیوی کے ہاتھ میں سونے کی زنجیر دیکھی۔ بیوی بولی۔" جس جگہ بادشاہ سلامت سوئے تھے ، وہاں یہ پڑی تھی"۔

کسان نے بیوی کے ہاتھ سے زنجیر لی اور بولا۔" جلدی سے دو چار روٹیاں بنا دو میں ابھی شاہی محل جانا چاہتا ہوں"۔

"کیوں؟ "آئی ہوئی دولت کو کیوں ٹھکراتے ہو"؟ اس کی بیوی بولی۔ "ہم نے کوئی چوری تھوڑے ہی کی ہے۔ اسے بیچ کر آرام کی زندگی گزاریں گے۔"

کلوا نے زنجیر کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا اس میں ایک چمکدار ہیرا بھی لگا ہوا تھا۔ بیوی کی بات سن کر وہ غصے سے بولا۔ " اپنی زبان کو لگام دو۔ یہ زنجیر تیری محنت کی کمائی کی ہے یا میری محنت کی کمائی ہے؟ میں اسے ضرور واپس کرنے جاؤں گا۔ اب مزید کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ چُپ چاپ روٹیاں بنا دو"۔

اسی دن شام تک کلوا شاہی محل پہنچ گیا۔ پہرے دار نے اسے صدر دروازے پر ہی روک دیا۔ اس نے پہرے دار کی بہت خوشامد کی۔ آخر میں اس نے کہا۔ "اچھا مجھے اندر مت جانے دو۔ بادشاہ سلامت سے اتنا کہہ دو ’’ کلوا آیا ہے"۔

پہرے دار نے خبر اندر بھجوا دی۔ فوراً ہی کلوا کو اندر بلوایا گیا۔

کلوا نے سلام کرنے کے بعد زنجیر بادشاہ کے سامنے رکھ دی۔ بادشاہ خوش ہو کر کلوا سے بولا۔ "میں تمہاری ایمانداری سے بہت خوش ہوں۔ یہ زنجیر میں نے جان بوجھ کر چھوڑی تھی"۔

جی حضور جان بوجھ کر "؟

"ہاں! میں تمہاری ایمانداری کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ تم کامیاب ہو گئے ہو۔ اس لئے انعام کے مستحق ہو۔ دیکھو ، ایسا ہے کہ شاہی محل میں ایک خزانچی کی ضرورت ہے۔ میں تمہیں اس عہدے پر رکھنا چاہتا ہوں ، کیا تمہیں منظور ہے"؟

"حضور کا غلام ہوں ، جو حکم دیں ، ویسے جہاں پناہ اس عہدے کے لائق میں نہیں ہوں، پھر بھی آپ جو کہیں گے میں تعمیل کروں گا"۔

دوسرے ہی دن کلوا نے خزانچی کا عہدہ سنبھال لیا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ایمانداری کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔