پاکستانی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کے بعد ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی ہوم گراونڈ پر ون ڈے سیریز جیت کر آئی سی سی ورلڈ کپ سپر سیریز میں اپنی پوزیشن مستحکم کرلی۔ تیسرے ون ڈے میں ویسٹ انڈیز کو ناکامی سے دوچار کیا، 2019 کے ورلڈ کپ کے بعد یہ دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ٹاکرا تھا۔
تین سال قبل ٹرینٹ برج کے میدان میں پاکستانی ٹیم صرف 105رنز پر آؤٹ ہو کر ایک ایسی شکست سے دوچار ہوئی تھی جو اس کے خراب رن ریٹ کی وجہ سے سیمی فائنل تک رسائی میں رکاوٹ بن گئی تھی۔ ورلڈ کپ کی اس ویسٹ انڈین ٹیم کے صرف دو کھلاڑی نکولس پورن اور شائی ہوپ موجودہ ٹیم کا حصہ ہیں۔
ویسٹ انڈین ٹیم اب کرس گیل، آندرے رسل، کیئرن پولارڈ، کارلوس براتھ ویٹ اور ڈوئن براوو جیسے میچ ونر کے بغیر ہے لیکن نئے کھلاڑیوں میں نئی امنگ ضرور نظر آتی ہے، ہوم گراونڈ پر پاکستان کو ہرانا آسان کام نہیں ہے پھر بابر اعظم کی بیٹنگ کے سامنے سارے بولر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ ملتان کے پہلے ون ڈے میں بابر نے ویسٹ انڈیز کے خلاف سنچری ا سکور کی۔ بابر اعظم نے ویسٹ انڈیز کے 305 رنز کے جواب میں 107گیندوں پر 103رنز بنائے اور پاکستان کو 5 وکٹوں سے فتح دلائی۔ بابر اعظم کی یہ مسلسل تیسری سنچری تھی۔
اس سے قبل انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف مسلسل دو سنچریاں اسکور کی تھیں۔ یہ دوسری بار ہے جب بابر نے مسلسل تین سنچریاں سکور کی ہیں۔ وہ 2016 میں مسلسل تین سنچریاں ا سکور کر چکے ہیں۔ عظیم آسٹریلوی بیٹسمین ڈان بریڈمین نے اپنے سارے کیریئر میں 90 سے زیادہ کی اوسط سے رنز بنائے۔ بابر پچھلے کچھ سال سے90 سے زیادہ کی اوسط سے رنز بنا رہے ہیں۔ بابر اعظم کی شاندار بیٹنگ انھیں ون ڈے کرکٹ کی آئی سی سی رینکنگ میں پہلے نمبر پر لاسکتی ہے۔
وہ آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں بھی پہلے نمبر پر ہیں بابر اعظم کے نام دو بار لگاتار تین سنچریاں بنانے کا ریکارڈ بن گیا ہے۔ آسٹریلیا کی طرح ویسٹ انڈیز کی سیریز میں بھی قدر مشترک کپتان بابر اعظم اور امام الحق کی بیٹنگ میں شاندار کارکردگی تھی۔ اس جیت کے بعد اب اس بات کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں کہ پاکستان اگلے سال بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں براہ راست کوالی فائی کرلے گا۔ پاکستانی ٹیم نے اگرچہ آئی سی سی ورلڈ کپ سپر لیگ میں پانچ میں سے یہ چوتھی سیریز جیتی ہے لیکن پچھلی جیتی گئی تینوں سیریز میں اس نے ایک ایک میچ بھی گنوایا ہے۔
سپر لیگ میں شامل تیرہ ٹیموں میں سے آٹھ ہی نے براہ راست ورلڈ کپ میں جگہ بنانی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان نے لگاتار دسویں سیریز جیتی اور سابق عالمی چیمپئن کو پاکستان کے خلاف گذشتہ 31سال سے ون ڈے سیریز میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم بابر اعظم کی قیادت میں مسلسل فتوحات سمیٹ رہی ہے پاکستان کو اگلے ایک سال کے دوران نان اسٹاپ کرکٹ کھیلنا ہے اس لئے ٹیم انتظامیہ او ر سلیکشن کمیٹی کو کھلاڑیوں کے ورک لوڈ کا بھی خیال رکھنا ہوگا خاص طور پر ان کھلاڑیوں کو ریسٹ کی ضرورت ہے جو تینوں فارمیٹ کھیلتے ہیں۔
اہم سیریز اور اہم ٹورنامنٹ کو سامنے رکھتےہوئے کھلاڑیوں کی فٹنس کا خیال رکھنا ہوگا۔ اس سال پاکستان کو ایشیا کپ اور ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں حصہ لینا ہے جبکہ پاکستانی ٹیم کو ایک سال کے دوران انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی میزبانی کرنا ہے۔ ویسٹ انڈیز کی سیریز کے بعد پاکستان کو جولائی اگست میں دو ٹیسٹ کھیلنے سری لنکا جانا ہے۔ اگست ستمبر میں پاکستان کو نیدر لینڈ میں تین ون ڈے میچوں کی سیریز کھیلنا ہے اور سری لنکا میں ایشیا کپ ٹی ٹوئینٹی میں حصہ لینا ہے۔
ستمبر اکتوبر میں انگلش کرکٹ ٹیم سات ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میچ کھیلنے پاکستان آئےگی۔ گذشتہ سال دورہ پاکستان ملتوی کرنے کے بعد انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان بے حد اہمیت کا حامل ہوگا۔ 15اکتوبر سے15نومبر تک پاکستان کو آسٹریلیا میں ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں شرکت کرنا ہے۔ ورلڈ کپ کے بعد نومبر دسمبر میں انگلینڈ تین ٹیسٹ کھیلنے پاکستان آئے گی۔دسمبر جنوری میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم دو ٹیسٹ اور تین ون ڈے انٹر نیشنل میچ کھیلنے پاکستان آئے گی۔
جنوری میں ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم تین ٹیسٹ کھیلنے پاکستان آئے گی۔اگلے سال اپریل مئی میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم دوبارہ پاکستان آئے گی اور اس دوران پانچ ون ڈے انٹر نیشنل اور پانچ ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میچ ہوں گے۔بابر اعظم اور امام الحق نے آسٹریلیا کے خلاف سیریز جتوانے میں پاکستان کو کردار ادا کیا تھا اب ایک بار پھر دونوں کی بیٹنگ کارکردگی سب سے نمایاں ہے۔ون ڈے میں یہ دونوں ابتک 27اننگز میں آٹھ سنچری اور 11نصف سنچری شراکتیں قائم کرچکے ہیں جن میں سے چار سنچری پارٹنرشپس لگاتار میچوں میں بنی ہیں۔
یہ دونوں محمد یوسف اور یونس خان، محمد یوسف اور انضمام الحق کی آٹھ سنچری شراکتوں کے برابر آنے کے بعد ان سے آگے نکلنے والے ہیں۔ بابر اعظم بلاشبہ اس وقت دنیا کے نمبر ایک بیٹسمین ہیں جو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے۔ ہر پچ پر ،ہر موسم میں اور ہر بولنگ اٹیک کے خلاف ان کی کارکردگی خوب سے خوب تر ہوتی جارہی ہے اسی لئے ان کا موازنہ ویرات کوہلی سے کیا جارہا ہے بابر اعظم آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ سپر لیگ میں 1000 پلس رنز کے ساتھ واحد بلے باز ہیں۔ انھوں نے 91.36 کی اوسط اور 103.71 کےا سٹرائیک ریٹ سے 1005رنز بنائے ہیں۔
اس میں 13باریوں میں چھ سنچریاں بھی شامل ہیں۔ امام الحق نے جس طرح خود کو ایک منجھا ہوا بیٹسمین ثابت کردیا ہے اس کے بعد اب یہ بحث دم توڑ چکی ہے جو انضمام الحق کا بھتیجا ہونے کے ناتے ان کے بارے میں ہوتی رہی ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف سیریز اور اب موجودہ سیریز میں عمدہ کارکردگی ان کی غیرمعمولی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پہلے ون ڈے میں امام الحق نصف سنچری مکمل کرنے میں بابراعظم سے پہل کر گئے تاہم دونوں کے لیے یہ بات یکساں اطمینان کا باعث تھی کہ دونوں کی دوسرے دن ڈے میں لگاتار چھٹی نصف سنچری یا زائد رنز کی اننگز تھیں۔
محمد یوسف نے بھی ففٹی پلس کی لگاتار چھ اننگز کھیلی ہیں البتہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا امام الحق اور بابراعظم لگاتار 9 اننگز میں پچاس یا زائد اسکور کرنے کے جاوید میانداد کے عالمی ریکارڈ تک پہنچتے ہیں یا نہیں ؟۔پاکستانی ٹیم کے لیے اس وقت تک سب کچھ صحیح سمت میں جارہا تھا جب تک بابراعظم اور امام الحق کریز پر تھے۔ دونوں کی 120 رنز کی شراکت امام الحق کے 72رنز پر رن آؤٹ ہونے پر ٹوٹی۔
سیریز کے ابتدائی دو ون ڈے انٹر نیشنل میں محمد رضوان ایک نصف سنچری بنانے میں کامیاب رہے۔ اب ان پر ون ڈے انٹرنیشنل میں ایک بڑی اننگز لازم ہوچکی ہے۔ آخری 14 اننگز میں وہ دو مرتبہ ہی نصف سنچری تک پہنچ سکے ہیں اور چوتھے نمبر پر کھیلتے ہوئے ان کی بیٹنگ اوسط محض 28ہے جبکہ ٹی ٹوئنٹی میں یہ اوسط 50 اور ٹیسٹ میں 42 ہے۔محمد نواز نے چھکا مارکر پاکستان کو پہلا میچ جتوایا تھا لیکن دوسرے میچ میں ان کی بولنگ نے ویسٹ انڈیز بیٹنگ کو بے بس کردیا۔
دوسرے دن ڈے میں ویسٹ انڈیز کی اننگز 155 کے سکور پر تمام ہوئی تو اس وقت بھی 17.4 اوورز کا کھیل باقی تھا۔ محمد نواز نے اپنے ون ڈے کیریئر کی بہترین بولنگ کرتے ہوئے 19 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں۔ اس سے قبل ان کی بہترین بولنگ بھی ویسٹ انڈیز ہی کے خلاف تھی جب 2016میں انھوں نے شارجہ میں 42 رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کی تھیں۔ محمد نواز کی کارکردگی کے بعد عماد وسیم کی ٹیم میں واپسی مشکل ہوگئی ہے۔اسی طرح جب ٹیم انتظامیہ نے حسن علی کو آرام دیا تو ان کی جگہ لینے والےمحمد وسیم جونیئر بھی 34رنز کے عوض تین وکٹوں کی صورت میں اپنے ون ڈے کیریئر کی بہترین کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے۔
حسن علی 2019کے بعد سے 18ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں صرف 14 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔ سابق کپتان وسیم اکرم بھی ان کی حمایت میں آواز اٹھا رہے ہیں لیکن حسن علی کو کارکردگی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں پاکستانی ٹیم انتظامیہ نے وکٹ کیپر بیٹسمین محمد حارث کو ٹیم میں شامل کردیا۔ حالانکہ چند دن پہلے بابر اعظم نے کہا تھا کہ حارث کو موقع دینا قبل از وقت ہوگا۔ محمد حارث نے اس سال پاکستان سپر لیگ میں پشاور زلمی کی طرف سے کھیلتے ہوئے ایک نصف سنچری اسکور کی تھی جبکہ اسی سال پاکستان کپ ایکروزہ ٹورنامنٹ میں وہ آٹھ میچوں میں 239رنز بناسکے تھے جس میں ایک نصف سنچری شامل تھی۔
سرفراز احمد جتنا عرصہ باہر بیٹھے اس دوران بھی مڈل آرڈر بیٹنگ کے مسائل سامنے آئے تھے لیکن سرفراز احمد کو بیٹسمین کی حیثیت سے صرف ایک ون ڈے اور دو ٹی ٹوئنٹی کے برائے نام مواقع دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ پی سی بی چیئر مین آن ریکارڈ حارث کو مستقبل کا سپر اسٹار قرار دے چکے ہیں اور آف دی ریکارڈیہ بھی کہہ چکے ہیں کہ سرفراز احمد کا کیئر یئرختم ہوچکا ہے۔
رمیز راجا اکثر بیان دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ پی سی بی چیئرمین ہیں۔ وہ ہر گفتگو میں ماہرانہ رائے دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔انہیں بڑے کھلاڑیوں کے بارے میں گفتگو میں احتیاط برتنی چاہیے۔ یو ٹیوب چینل پر بات چیت اور پی سی بی چیئرمین کی حیثیت سے پالیسی بیان دو مختلف چیزیں ہیں۔ رمیز راجا بعض دفعہ ایسی گفتگو کر جاتے ہیں جو چیئرمین کے شایان شان نہیں ہوتی۔