چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے ہدایت کی ہے کہ پی ٹی آئی کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کو فارن فنڈنگ کیس نہ لکھا جائے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کی چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں سماعت ہوئی۔
دورانِ سماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے وکیل انور منصور نے ’فارن فنڈنگ‘ کیس لکھنے پر اعتراض اٹھایا۔
ان کا مؤقف تھا کہ کاز لسٹ میں آج بھی فارن فنڈنگ لکھا ہوا ہے، جبکہ پہلے دن سے مؤقف ہے کہ یہ کیس فارن فنڈنگ کا نہیں، ممنوعہ فنڈنگ کا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل کے اعتراض پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے الیکشن کمیشن کے عملے کو ہدایت کی کہ آئندہ کیس کو فارن فنڈنگ کیس نہ لکھا جائے۔
چیف الیکشن کمشنر نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ آپ کے مؤکل بھی میڈیا پر فارن فنڈنگ کا لفظ استعمال کرتے رہے ہیں، آپ کا مؤقف درست ہے اس لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس پر الیکشن ایکٹ نہیں بلکہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء لاگو ہو گا، پی پی او کے تحت فارن فنڈنگ میں غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں آتی ہیں، الیکشن ایکٹ 2017ء میں پاکستانی شہریوں کے علاوہ کسی سے بھی فنڈز لینے پر ممانعت ہے، 2017ء تک کے تمام کیسز پر 2002ء کے قانون کا ہی اطلاق ہو گا، بھارت میں بیرونِ ملک رہائش پزیر شہری بھی سیاسی پارٹی کو چندہ نہیں دے سکتے، بھارت میں دہری شہریت کی اجازت نہیں جبکہ پاکستان میں قانون موجود ہے۔
اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ فارن فنڈڈ پارٹی کے حوالے سے بھی قانون واضح ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور خان نے کہا کہ فارن فنڈڈ جماعت کے خلاف الیکشن کمیشن نہیں وفاقی حکومت کارروائی کر سکتی ہے، اسکروٹنی کمیٹی کو تمام تفصیلات اور مؤقف سے آگاہ کیا تھا، اسکروٹنی کمیٹی صرف قانون میں درج طریقہ کار کے مطابق پڑتال کر سکتی ہے، اسکروٹنی کمیٹی نے قرار دیا کہ جو ہمارے معیار پر پورا اترتا ہے اس کو ہی قبول کریں گے، ہمارا قانون بہت واضح ہے، جہاں جہاں رپورٹ میں مسائل تھے ان کی میں نے نشاندہی کر دی، رپورٹ بھارتی قانون کی بنیاد پر بنائی گئی ہے، ہمارا اور بھارت کا قانون بہت مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوشش کر رہا ہوں کہ آج لمبے لمبے دلائل نہ دوں، اُن سے کہا گیا آپ کا انفارمیشن کا ذریعہ کیا ہے اور ہم سے کہا گیا کہ آپ ثابت کریں، ٹی او آرز درخواست گزار کی انفارمیشن کی بنیاد پر بنائے گئے، فارا سے ڈاؤن لوڈ کی گئی ان کی لسٹ کمیٹی نے قبول نہیں کی، خود ڈاؤن لوڈ کی، اسکروٹنی کمیٹی نے قرار دیا کہ اکبر ایس بابر کی دستاویزات قابلِ تصدیق نہیں، دستاویزات مسترد ہونے کے بعد اکبر ایس بابر کا کیس سے تعلق ختم ہو جاتا ہے، اکبر ایس بابر صرف اپنی دستاویزات کی حد تک کمیشن کو مطمئن کر سکتے ہیں، ڈونرز کی تفصیلات تحریکِ انصاف اپنے طور پر شفافیت کے لیے جمع کرتی تھی، قانون میں ڈونرز کی تفصیلات کو 2020ء میں لازمی قرار دیا گیا، پارٹی اکاؤنٹس میں ممنوعہ فنڈنگ آئی بھی ہے تو واپس کر دی گئی، اسکروٹنی کمیٹی نے فنڈنگ کے ذرائع مانگے تھے جو دیے اور ثابت بھی کر دیے۔
پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور خان نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ یہ صرف اپنی حد تک دلائل دے سکتے ہیں، جو اکاؤنٹس اصلی ذرائع سے نہیں وہ درست نہیں ہیں، کمیٹی نے محنت سے کام کیا لیکن درست حقائق کا جائزہ نہیں لے سکی، میری استدعا ہے کہ اس درخواست کو ختم کیا جائے، میں کچھ دنوں تک دستاب نہیں ہوں گا، اگر درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے نئی چیز آئی اور میری ضرورت ہوئی تو پیش ہو جاؤں گا۔
اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور خان نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
اکبر ایس بابر کے وکیل نے الیکشن کمیشن سے استدعا کی کہ عدالت میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کرتے ہیں، مجھے بھی اتنے ہی دن ملنے چاہئیں جتنے ان کو ملے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ آپ کو بھی دلائل دینے کا مکمل موقع دیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کیس کی سماعت پیر 20 جون تک ملتوی کر دی۔