• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلمیٰ صفی

’’روحان عبداللہ‘‘اسکول گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے جیسے ہی اس کا نام پکارا وہ جلدی سے اپنا بیگ اٹھا کر باہر کی طرف بھاگا۔ ”بابا آج پھر اتنی دیر لگا دی میں کب سے انتظار کررہا تھا‘دیکھیں کتنی گرمی ہے“ ۔ روحان نے اپنے بابا سے کہا۔ انہوں نے اسے مسکرا کر دیکھا اور بولے۔ ” صاحب بہادر آپ بائیک پر تو بیٹھیں پھر بتاتا ہوں کیوں دیر ہوئی“۔

روحان نے اسکول کیپ درست کی اور بابا کے پیچھے بیٹھ گیا۔ اسی وقت اس کی نظر آگے جاتی سفید مرسڈیز پر پڑی، جس میں اس کا ہم جماعت علی بیٹھا تھا۔ ”بابا ایک بات پوچھوں؟“ روحان نے کہا۔ ”جی بیٹا! ضرور پوچھیں!“ بابا نے نے پر ہجوم روڈ سے نکلتے ہوئے کہا۔

”بابا! علی کے پاپا کے پاس تو مرسڈیز ہے وہ روز اے سی والی کار میں آتا جاتا ہے اور آپ کے پاس یہ پرانی بائیک جس پر اتنی گرمی لگتی ہے۔ اوپر سے اس کی آواز‘ مجھے ذرا اچھی نہیں لگتی“ اس نے براسا منہ بنا کر بائیک کی طرف دیکھا۔

” بیٹا! بائیک بھی تو ایک سواری ہے۔ اس میں ایسی کیا خامی ہے؟ کم از کم آپ پیدل تو گھر سے اسکول نہیں آتے نا؟۔‘‘بابا نے نرم لہجے میں اسے سمجھایا۔

’’لیکن اس میں اے سی تو نہیں نا“ روحان بضد تھا۔

”بیٹا ہمیں ہر حال میں اللہ کا شکر گزار رہنا چاہیے“ بابانے جواب دیا۔

”تو بابا اللہ تعالیٰ ہمیں مرسڈیز کیوں نہیں دیتا؟ ہمارا گھر ساتھ والے انکل کے گھر جتنا بڑا کیوں نہیں؟۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز دوسروں کو کیوں دیتے ہیں؟۔ ابھی وہ مزید پوچھتا کہ اچانک موٹر سائیکل رک گئی۔ ”نیچے اترو!“ بابا نے روحان سے کہا۔ اس نے حیرانی سے آس پاس دیکھاجہاں کچھ فاصلے پر نئی سڑک بن رہی تھی۔

”یہاں کیوں اترے بابا؟ مجھے تو پہلے ہی اتنی پیاس لگ رہی ہے، اوپر سے اتنی دھوپ“ بابا مجھے لے کر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوگئے۔ ”روحان بیٹا! آپ سامنے ان لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جو سڑک بنارہے ہیں۔ ان کے ساتھ خواتین بھی ہیں اور بچے بھی۔ وہ سب اس گرمی میں بغیر اے سی کے کام کررہے ہیں۔ان کے پاس تو ایسا گھر بھی نہیں جیسا ہمارا ہے“۔ میری نظر ساتھ بنی جھگیوں پر گئی‘بابا نے اپنی بات جاری رکھی۔ 

”کیا ان بچوں کا دل نہیں کرتا کہ وہ بھی اسکول جائیں؟۔ لیکن ان کے ماں باپ مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس تو اتنا سرمایہ نہیں۔ لہذا زندہ رہنے کے لئے وہ اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ مزدوری پر لگادیتے ہیں۔ آپ اگر اپنے سے اوپر لوگوں پر نگاہ ڈالو گے تو اپنا آپ ہمیشہ چھوٹا لگے گا لیکن اپنے سے نیچے دیکھو گے تو اپنا آپ بہت بلند نظر آئے گا۔ 

اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکمل بنایا‘ گھر دیا، اچھا کھانا پینا دیا تو اس پر شکر ادا کرو‘نہ کہ ناشکری کرو۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ آج ان بچوں کی جگہ آپ ہوتے پھر؟“۔ بابا نےاُ سے سمجھایا۔ روحان نے فوراََ دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنی سوچ پر معافی مانگی۔ واقعی ہر کام میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے۔ بابا نے اس کاہاتھ پکڑا اور واپسی کے لئے چل پڑے۔