آپس کے تنازع کی وجہ سے گزشتہ سات سال میں پاکستانی فٹبال تباہی کی دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ملک میں فٹ بال کھیلنے اور اس سے محبت رکھنے والے کھیل کی تباہی پر مسلسل کسی نہ کسی فورم پر آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔پاکستان فٹبال فڈریشن (پی ایف ایف) کے حالات جون 2015 ء سے بگڑے اور جون 2022 ء تک بھی نہ سنبھل پائے۔ کلب اکیڈمیاں کام نہیں کر سکیں، کھلاڑیوں کی تیاریاں اور کلبوں کی ترقی رک گئی۔ ان سب کی آمدنی بھی رک گئی ہے۔ پاکستانی فٹ بال کئی دہائیوں پیچھے چلا گیا ہے۔
یوں تو ہر صوبہ فٹ بال کے تنازعسے متاثر ہوا ہے لیکن رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان جس نے اس ملک کو بڑے بڑے کھلاڑی دیئے سب سے ز یادہ متاثر نظر آتا ہے۔ بلوچستان میں فٹ بال انتہائی ذوق و شوق سے کھیلا اور دیکھا جاتا ہے۔ صوبہ بلوچستان نے پاکستان کو بڑے بڑے فٹ بالر زجن میں دس سال تک قومی ٹیم کی قیادت کرنے والے عیسی خان، کلیم اللہ، شیر علی، محمود خان، سعد اللہ، محمود ہزارہ، زاہد حمید، نصر اللہ، احسان اللہ، بلاول الرحمان، رجب علی، عباس علی اور دیگر کھلاڑی دیئے ہیں۔
بلوچستان فٹ بال ایسو سی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری حاجی سعید تکو پاکستان فٹ بال اور خاص طور پر بلوچستان میں فٹ بال کی تباہی پر افسردہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سات سال سے ہمارے ملکی فٹ بال کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ پاکستانی تاریخ کاایک بدنما داغ ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارا فٹ بال کئی دہائیوں سے منجمد ہے۔ ملکی فٹ بال کے تنازع کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ فٹ بال کے اسٹیک ہولڈر اور بلوچستان فٹ بال ایسوسی ایشن (بی ایف اے) کے سابق سیکرٹری کی حیثیت سے میں پاکستان فٹ بال کے تنازع کو حل کرنے میں اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستانی فٹ بال کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے بہت سے لوگوں نے اپنی خدمات پیش کی ہیں لیکن انہیں صحیح معنوں میں موقع نہیں دیا گیا۔ پاکستانی فٹ بال کو سدھارنے کیلئے فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا نے بھی مداخلت کی اور یہاں فٹ بال کے حالات ٹھیک کرنے کیلئے فیفا نارملائزیشن کمیٹی بھی بنائی۔ فیفا تعریف کا مستحق ہے کیونکہ اس نے ہمارے فٹ بال کے معاملات کو حل کرنے کیلئے کافی وقت دیا۔ فیفا اب بھی پاکستان فٹ بال کے مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کر نے کا خواہاں ہے، گزشتہ دو سال سے نارملائزیشن کمیٹی پاکستان میں کام کررہی ہے لیکن حالات صحیح ہونے کا نام نہیں لے رہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ پاکستانی فٹ بال کا مسئلہ اتنی آسانی سے حل ہو جائے گا۔ نارملائزیشن کمیٹی کو پاکستان کے فٹ بال اسٹیک ہولڈرز کو ایک جگہ جمع کرکے ان کے ساتھ مشاورت کرنے کی ضرورت ہے۔ فٹ بال ہاؤس تو این سی کے حوالے کردیا گیا ہے لیکن پی ایف ایف کے اکاؤنٹس حاصل نہ ہونے کی وجہ سے معاملات بدستور تاخیر کا شکار ہیں اور این سی اپنا کام انجام نہیں دے پارہی۔
نومبر 2021 کے پہلے ہفتے میں، پنجاب حکومت نے لیز کے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے پی ایف ایف ہاؤس کو سیل کیا تھااور حکومتی اتھارٹیز نےفیفا فٹ بال ہائوس لاہور کی عمارت کا کنٹرول اشفاق گروپ سے لے کر واپس فیفا نارملائزیشن کمیٹی کو دےدیا تھا، اس اقدام سے پاکستان کی معطلی ختم ہونے کی امیدیں روشن ہوئی ہیں۔ برسوں سے قومی ٹیم کی سلیکشن کا طریقہ کار غلط رہا ہے، کھلاڑیوں کی سلیکشن کا فیصلہ صرف پریمئر لیگ اور دیگر ایونٹ سے نہیں ہونا چاہئے۔ سلیکشن کیلئےٹرائلز کا دائرہ اختیار بڑھا کر ضلعوں تک پہنچانا چاہئے۔
باصلاحیت کھلاڑیوں کو آگے لانے کیلئے کم از کم آٹھ دس دن تک مسلسل ٹرائلز کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ اگر کوئی باصلاحیت کھلاڑی ٹرائلز سے محروم رہتا ہے تو اس کیلئے بعد میں ٹرائلز کا سلسلہ ہونا چاہئے۔ آج سے سات سال پہلے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے عہدوں کیلئے دو امیدوار ہوا کرتے تھے۔ فیصل صالح حیات کے خلاف تحریک چلا کر پاکستانی فٹ یال کو پے درپے تقسیم کیا گیا اور اب چار سے زائد گروپ فیڈریشن پر قبضہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ فٹ بال کی تقسیم سے اس ملک کے باصلاحیت کھلاڑیوں کو نقصان ہورہا ہے۔
نارملائزیشن کمیٹی نے بھی اسکروٹنی کا عمل ابھی تک شروع نہیں کیا یہ مسلسل لیٹ ہورہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان فٹ بال کے الیکشن بھی تاخیر کا شکار ہیں۔ الیکشن میں جتنی تاخیر ہوگی اور منتخب لوگوں تک پاکستان فٹ بال کے معاملات نہیں پہنچیں گے تو ہم مزید پیچھے ہی جائیں گے۔آپس کی لڑائی کا فائدہ ڈپارٹمنٹل ٹیموں کو ختم کرنے کے خواہاں لوگوں کو ہورہا ہے۔
جب ملک میں فٹ بال ہی نہیں ہوگی تو وہ لوگ تو چاہیں گے ان کے اداروں سے ٹیمیں ختم کردی جائیں۔ کئی ٹیمیں بند ہوچکی ہیں جس سے کھلاڑیوں بے روزگار ہوئے ہیں اور ان کے گھر کے چولہے بجھ گئے ہیں۔ جب تک ہمارا فٹ بال پروفیشنل نہیں بن جاتا ہمیں ڈپارٹمنٹس کی ضرورت ہے۔