• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:خواجہ محمد سلیمان.....برمنگھم
ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا کے ہر رشتے سے افضل رشتہ نبیؐ کی ذات کے ساتھ ہے ،کوئی بھی مسلمان اس بات کو گوارہ نہیں کرے گا کہ کوئی بدبخت ان کی شان میں گستاخی کرے، انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف جس مہم کا آغاز آر ایس ایس نے شروع کیا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہندو انتہا پسندوں کا محبوب مشغلہ یہ بن گیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جائے، ہندو مذہبی رہنما مسلمانوں کے خلاف جھوٹے قصے کہانیاں سنا کر عام عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں، اس میں حکومتی کارندے اور انڈیا کا میڈیا بھی شامل ہے، تاریخ کو توڑمروڑ کر بیان کر نا روز مرہ کا کام ہے، اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں کو مسلمان بادشاہوں نے جبری مسلمان بنایا اور یہ بیانیہ مغربی ممالک میں بھی پھیلایا گیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، حالانکہ سچ اس کے برعکس ہے، اسلام میں جبر نہیں ہے، آج دنیا میں خصوصی طور پر انڈیا اور مغربی ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ دین اسلام قبول کر رہے ہیں، مسلمانوں کے پاس کون سی تلوار ہے، تلوار توکفر کی طاقتوں کے پاس ہے جو دن رات اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ دین اسلام حق ہے اور حق اور سچ ہمیشہ آگے بڑھتا ہے، پہلی وحی سے لیکر آج تک اسلام کا پیغام پھیل رہا ہے اس کو دبانے اور روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، یہ ہر دور میں ہوا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سلسلہ میں ہماری کیا ذمہ داری ہے، بی جے پی کی جس ہندو خاتون اور مردنے گستاخی کی ہے وہ ابھی تک اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انڈیا کے اندر اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام دشمن انتہا پسند ان کی حمایت کررہے ہیں۔ انڈیاکے اند ر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق مظاہروں اور احتجاج کے ذریعے اس مسئلہ کو اٹھا رہے ہیں، ان پر تشدد کیا جارہاہے، ظاہر ہے کہ ریاست کی ساری قوت ہندو انتہاپسندوں کے کنٹرول میں ہے، پڑوسی مسلم ممالک جیسے پاکستان اور بنگلہ دیش ہیں، وہاں سے بھی آواز اٹھائی گئی ہے لیکن زیادہ موثر آوازجس کا نوٹس انڈین حکومت کو بھی لینا پڑا ہے وہ عرب ممالک کا ری ایکشن تھا، جس کی وجہ سے اس بدبخت عورت اور اس کے ساتھی مرد کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے لیکن انڈیا کے مسلمانوں کا مطالبہ یہ ہے کہ ان پر مقدمات چلائے جائیں اور ان کو کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی کو یہ جرات نہ ہوکہ وہ ایسی حرکت دوبارہ کرے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں حکومت کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں برطانیہ میں ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اس سلسلہ میں اپنی آواز بلند کریں، یہاں کچھ مظاہرے ہوئے ہیں لیکن ایک منظم تحریک چلانے کے لئے مسلمانوں کے اندر اتحاد کی ضرورت ہے، مسلکی فکر سے بالا تر ہوکر اس فیلڈ میں کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں انسانی حقوق کے علمبرداروں سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا انڈیا میں مسلمانوں کے کوئی حقوق نہیں، 26کروڑو مسلمان وہاں رہتے ہیں وہ انڈین آئین اور قانون کے تحت وہاں کے شہری ہیں، ان کو اپنے دین پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے، ہندو غنڈوں کو کیا حق ہے کہ وہ اس طرح مسلمانوں پر حملہ آور ہوں اور ریاست ان کی جان ومال کی حفاظت نہ کرے اور الٹا ان پر جھوٹے مقدمات بنا کر ان کو جیل خانوں میں بند کرے، یہ تو جنگل کا قانون ہے انڈ یا تو دنیا میں اپنے آپ کو جمہوری ملک کہلاتا ہے اس کی جمہورت صرف اکثریت کے لئے ہے، باقی اقلیتوں کے حقوق برائے نام ہیں یہاں برطانیہ میں جو انڈین کمیونٹی رہتی ہے ان میں مسلم اور ہندو دونوں شامل ہیں۔ ہندوؤں کی بعض تنظیمیں آر ایس ایس اور انہتا پسند بی جے پی کی حمایت کرتی ہیں، انہیں چیرٹی کے نام پر مالی مدد کرتے ہیں، ہمیں چیرٹی کمیشن سے بھی اس سلسلے سے رابطہ کرنا چاہئے اور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایسی انتہا پسند تنظیمیں دہشت گردی کے قانون کی گرفت میں آئیں،برطانیہ کے مقامی ٹی وی نے اس سلسلہ میں ایک تفصیلی رپورٹ بھی نشر کی تھی، اس سلسلہ میں ہمارے مسلم ممبران پارلیمنٹ بھی مدد کرسکتے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ مسلم کمیونٹی بیداری کا مظاہرہ کرےاور مسلمانوں کی جان ومال کی حفاظت کے لئے آگے بڑھے ،عظمت رسول ﷺکے لئے ہم جو بھی کوشش کریں گے یہ عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو گا۔
یورپ سے سے مزید