• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعلیٰ کا انتخاب، ہائیکورٹ کے متوقع فیصلے پر آئینی ماہرین کی رائے

لاہور(نمائندہ جنگ) سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن مقصود بٹر نے کہا ہے کہ اگر لاہور ہائیکورٹ سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے ری الیکشن کا حکم آتا ہے تو سپریم کورٹ کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں بھی پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت کی ایک بار پھر نظیر بن جائیگی۔

 اس طرح ایگزیکٹو اور پارلیمان دونوں کے اختیارات چیلنج ہو جائیں گے جس کے بعد یہی کہا جائیگا کہ یہ فیصلہ ماورائے آئین ہے۔

لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر سردار اکبر علی ڈوگر نے کہا مکمل عدالتی فیصلہ آئے گا تو ہی کوئی تبصرہ کرسکتا ہوں ، پارلیمان کے کام میں جب کوئی رکاوٹ آجائے تو پھر عدالتوں سے ہی رجوع بنتا ہے۔ پھر عدالت اپنے اختیارات اور آئین کے مطابق ہی فیصلہ دیتی ہے،جیسا کہ ماضی میں آصف علی زداری ، یوسف رضا گیلانی اور عدم اعتماد کی تحریک میں ہوا۔

سینئر قانون دان حامد خان نے کہا اگر ریاست کا کوئی عضو کام نہیں کرتا تو خلا کو پر کرنا اور قانون پر عمل درآمد کروانا عدالت کا فرض ہے چاہے اس میں کوئی نئی مثال بن جائے۔

سینئر قانون دان لطیف کھوسہ نے کہا ہے جب عدالتیں پارلیمان کے کاموں میں مداخلت کرتی ہیں تو اس میں کوئی اخلاقی پہلو باقی نہیں بچتا ہے۔

یہ کوئی شاندار مثال ہرگز نہیں ہوگی کہ عدالت پارلیمان بارے فیصلے صادر کرے۔ سینئر قانون دان عابد ساقی نے کہا کہ یہ عدالتوں کا کام نہیں ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کا الیکشن کروائیں۔

ایسا لگتا ہے قانون تو ہے نہیں جس کے پاس طاقت ہے وہ قانون کو توڑ کر نکل جاتا ہے جبکہ کمزور پکڑا جاتا ہے۔چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل پیر مسعود چشتی نے کہا فیصلہ آنے سے قبل کچھ کہنا مناسب نہیں۔

لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر رائو سمیع نے کہا اگر عدالت وزیر اعلی کے دوبارہ انتخاب کا حکم دیتی ہے تو یہ بالکل درست ہے.

 لاہور ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے جارہی ہے جو آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ملک میں لوٹا کریسی کو رکنا اور روکنا بہت ضروری ہے۔

اہم خبریں سے مزید