• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
برطانوی اردو میڈیا میں آج کل پاکستان کے حالات سےمتعلق تشویش کا اظہار ہو رہا ہے۔ ایٹمی پاکستان مسلم دنیا کا ایک عظیم اثاثہ ہے اور اپنی اس دفاعی اہلیت کی بنا پر یہ ملک بہت سے ملکوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ دشمن ہر دم اس ملک کو غیر مستحکم کرنے پر تلے رہتے ہیں اور ان کے یہ خطرناک ارادے کبھی بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کروا کر اور کبھی سوشل میڈیا پرپاکستان مخالف مہم چلوا کر پاکستانی عوام کے سامنے لا تے ہیں۔ پاکستان پچھلی دو دہائیوں پر پھیلے مشکل حالات سے کامیابی کے ساتھ نمٹ رہا ہے۔ جہاں افواج پاکستان کے ادارے اندرونی اور بیرونی سرحدوں پر مامور اپنے ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔ وہاں قومی یکجہتی اور عوام کا اپنے ملک سے بے پناہ پیار ملک کو قائم و دائم رکھنے والے ایسے پہلو ہیں جن کا نہ ہی کوئی نعم البدل ہے اور نہ ہی ایسے جذبے ادھار لئے جا سکتے ہیں۔ وطن پر قربان ہونے والے ’’پتر ہٹاں تے نئیں بکدے‘‘ قربانیوں کی یہ تاریخ ہر روز دہرائی جا رہی ہے۔ پاکستان پارلیمانی جمہوری تسلسل کے تحت آگےبڑھ رہا ہے۔ یقیناً جمہوریت اچھے انداز میں نہیں چل رہی، لیکن جمہوری معاشروں میں پارلیمانی جھگڑے اور مخالفین کو مختلف حربوں سے کھیل سے باہر کرنا جمہوریت کا حسن ہے۔ لوگوں کو ایک دوسرے کا سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات تلخیاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان کیلئے یہ اچھی بات ہے کہ پچھلی دو حکومتوں نے اپنی ٹرم پوری کی اور پی ٹی آئی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعہ ساڑھے تین سال بعد اقتدار سے باہر کر دیا گیا۔ موجودہ حکومت کواقتدار سنبھالے ابھی 100 دن پورے نہیں ہوئے اور جن حالات میں یہ ٹرانسفر آف پاور ہوئی ہے وہ اپنے پیچھے کئی تلخیاں چھوڑ گئی ہے جو وقت کے ساتھ کم ہو رہی ہیں۔ جس طرح مختلف عوامی جائزوںمیں واضع ہو رہا ہے کہ لوگوں کی دو تہائی اکثریت نئے انتخابات کی خواہشمند ہے اور یہی تاثر پی ٹی آئی جلسوں میں لوگوں کی بھاری شرکت سے بھی ابھرتا ہے۔ اس معاملہ پر کرپشن سے بالاترجماعت اسلامی بھی یہی موقف اپنا رہی ہے۔ کراچی سے بھاری مینڈیٹ والی جماعت ایم کیو ایم پاکستان بھی اپنا وزن اسی پلڑے میں ڈالنے کاسوچ رہی ہے۔ مہنگائی کی شرح 30% کے قریب پہنچ چکی ہے اور ملک کو درپیش مالی مشکلات سے نمٹنا حکومت وقت کیلئے دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ موجودہ پی ڈی ایم حکومت دو مطالبے لیکر اقتدار میں آئی کہ عمران حکومت کوفارغ کر دیا جائے اور انہیں انکی پسند کی آئینی اصلاحات کرنے کا موقع ملنا چاہئے کیونکہ انکے نزدیک نیب قوانین میں ترامیم اور اوورسیز ووٹ کو ختم کرنا اس حکومت کے معتبر ترین مطالبے تھے جو انہوں نے حاصل کر لئے ہیں پی ٹی آئی سے مکالمہ نہیں ہو رہا اسلئے اگلے انتخابات کے نتائج کے بارے میں حتمی رائے بنانی مشکل ہے۔ حکومت جس طرح ہر طرف ٹیکس لگا رہی ہے یہ معیشت کیلئے اچھا نہیں ہے پاکستانی معیشت بھاری ٹیکس اور خراب پروڈکشن کے بوجھ تلےدب کر ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی سے مستعفیٰ نہیں ہونا چاہئے تھا ایک مضبوط پارلیمانی حزب اختلاف کے بغیر پارلیمنٹ کی سکروٹنی نہیں ہو رہی اور حکومت جس طرح کا چاہتی ہے قانون بنوا لیتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اگلے انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے پی ٹی آئی کو واپس ایوان میں لائےتاکہ اگلے انتخابی مرحلہ پر بات ہو سکے پی ٹی آئی جو ایک سینٹر لیفٹ جماعت ہونے کی داعی ہے کو پارلیمانی حزب اختلاف بن کر ذمہ دارسیاست کا ثبوت دینا ہوگا کیونکہ جہاں اس جماعت کا سیاست میں باوقار انداز میں زندہ رہنا ملک کے مفاد میں ہے وہاں پی ٹی آئی کو بڑے نعروں کے ساتھ گلی محلہ کی سیاست کو بھی گلے لگانا ہوگا۔ برطانیہ کے کئی شہروں میں پاکستان کو مضبوط کرنے کے حوالہ سے اجتماع منعقد ہوتے ہیں۔ جو ایک دو دہاری تلواربھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ یورپ میں بسنے والی کشمیری اور پاکستانی کمیونٹیز نے ہمیشہ پاکستان کی آواز پر ’’ہم حاضر ہیں‘‘ میں جواب دیا ہے۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں ایک قومی فنڈ قائم کرنے کی تجویز قارئین کے سامنے رکھی تھی۔ یقیناً لوگ پاکستان کیلئے اچھے جذبات رکھتےہیں۔ پاکستان میں چلتی سیاسی چپقلش سیاست کا حصہ ہے جو کچھ پنجاب میں سیاسی طور پر ہو رہا ہے وہ بھی سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔ لوگ بحث و مباحثوں میں الجھے پائےجاتے ہیں مگر اسی گرم سرد سیاست نے سب کو ڈائیلاگ کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ بالاخرلوگ تھک ہارکر پرامن ماحول میں فیصلے کرنے پر راضی ہو جا ئیں گے اور یہ سیاست کا تحفہ ہے۔ پچھلے تینوں قومی اسمبلی کےانتخابات متنازع رہے۔ جہاں دو وزراء اعظم کو وقت سے پہلے گھرجانا پڑ گیا۔ پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین دھرنااحتجاج بھی اسی دوران ہوا۔ جو حکومت تو نہ گرا سکا مگر اس احتجاج نے پاکستانی سیاست کو ایک نئی روش پر ڈال دیا۔ آج تک پاکستان کے کسی انتخاب کو منصفانہ تسلیم نہیں کیا گیا تو ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا انتخابی نظام ایک منصفانہ الیکشن رزلٹ دینے میں مکمل ناکام نظر آتا ہے۔ ووٹنگ کی مشینوں کے ذریعہ گنتی اس اہم مسئلہ کا ممکنہ حل بن سکتا تھا اور پچھلی حکومت نے اس حوالہ سے قانون سازی بھی کر دی تھی جو موجودہ حکومت کی چوائس نہیں ہے اس لئے انہوں نےاقتدار میں آتے ہی یہ قانون سازی ختم کردی ہے۔ اور ملک کو ایک بار پھر اسی پرانےطریقہ انتخاب کے سپرد کر دیا ہے اگر مشینوں کی کارکردگی پر سوالات تھے تو ان مشکلات کو حل کیا جاسکتا تھا۔ پی ٹی آئی کا ایک بڑا حصہ بھی یہی چاہتا ہے کہ اسکے ممبران قومی اسمبلی واپس اسمبلی میں چلے جائیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہےتو تارکین وطن کے ووٹ کے حوالہ سے اورووٹنگ طریقہ کار پر بات چیت کے ذریعہ نئے راستے تلاش کئے جا سکتےہیں۔ پی ٹی آئی منصفانہ انتخابات کیلئے جو جدوجہد کر رہی ہے اسمبلی واپسی سے اس کی یہ خواہش بڑی حد تک پوری ہو جائیگی۔ اور اگر انتخابات کے طریقہ کار میں بہتری کیلئے متفقہ قانون سازی ہو جاتی ہے تو پی ٹی آئی وہ جماعت ہوگی جس کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ 1913ء کے انتخابات اور آنیوالے انتخابات میں سیاسی سناریو ایک جیسا بن رہا ہے جہاں عمران خان احتجاج کے موڈ میں ہوں گے اور دوسری دونوں بڑی سیاسی جماعتیں نئے اتحادی تلاش کر رہی ہونگی۔ متفقہ انتخابی قوانین ملک کو ایک شفاف الیکشن دے کر آنیوالے وقتوں کیلئے آسانیاں پیدا کر دینگے۔ قوم کی طرف سے موجودہ حکومت کیلئے یہ ایک اہم کال ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی آئے روز عوامی اجتماعات کے ذریعہ لوگوں کو انتخابی انداز میں بیدار رکھے ہوئے ہیں اور پی پی خاموشی سے سیاسی سناریو کا مطالعہ کر رہی ہے پنجاب میں (ن) کسی بڑے الائنس کیلئے تیار نہیں اور نہ یہ جماعت اپنے اقتدار کے مرکز کو کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کے لئے تیار ہے۔ حکومت اہم سرکاری عہدوں پر اپنی پسند کے افراد تعین کر رہی ہے الیکشن جیتنے کیلئے سازگار ماحول تیار کرنے ہر حکومت کی خواہش بھی ہوتی ہے اور ضرورت بھی۔ اسمبلی کے اندر حزب اختلاف کی عدم موجودگی کے حکومت کے اس دورانیہ کو افراد سے بھرا ہوا مگر مباحثہ سے خالی چیمبر بنارکھا ہے۔ چیمبر کی اصلی روح بحال کرنے کی خاطر جلد قومی انتخابات کا انعقاد ہو جانا ہی ملک کے مفاد میں ہے۔
یورپ سے سے مزید