اسلام آباد(رپورٹ :رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے موقع پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے کی آئین کے آرٹیکل 5(1) کے تحت جاری کی گئی رولنگ کیخلاف از خود نوٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، 86 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے قلمبند کیا ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ بیرونی مداخلت پر دلیل سے مطمئن نہیں،ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ، تحریک عدم اعتماد مسترد کرنا غیرآئینی ہے،آرٹیکل 95 (2) کے تحت ا سپیکر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا پابند،ڈپٹی ا سپیکر نے وزیر اعظم کے مفاد کیلئے حلف سے رو گردانی کی،متفقہ فیصلے میںجسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندو خیل نے علیحدہ سے بھی اپنے نوٹس قلمبند کئے ہیں ،چیف جسٹس کی جانب سے رولنگ کیخلاف از خود نوٹس پر فیصلے کا آغاز سور الشعرا سے کیا گیا ہے،جس میں لکھا ہے کہ چیف جسٹس ہائوس میں منعقدہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے 12 ججوں نے ملکی سیاسی صورتحال پر ازخودنوٹس لینے کی سفارش کی تھی ،فیصلے کے مطابق عدالت نے آئین و قانون کو مقدم رکھنے اور اس کے تحفظ کیلئے سپیکراسمبلی کی رولنگ کیخلاف یہ ازخودنوٹس لیا اور ڈپٹی سپیکر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے سپریم کورٹ متحرک ہوئی تھی ،عدالت نے متفقہ فیصلے میں قراردیاہے کہ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی ہے لہذا وزیر اعظم کی سفارش پر قومی اسمبلی کی تحلیل کرنے کے حکم کوغیرقانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جاتاہے، فاضل عدالت نے قراردیاہے کہ تحریک انصاف کے وکیل نے بیرونی مداخلت سے متعلق مراسلے کا حوالہ تو دیا ہے لیکن مبینہ بیرونی مراسلے کا مکمل متن عدالت کو نہیں دکھایا گیا ہے ، مراسلے کا کچھ حصہ بطور دلائل سپریم کورٹ کے سامنے رکھا گیاتھا ،فیصلے میں قراردیاگیا ہے کہ تحریک انصاف کے وکیل کے مطابق مراسلے کے تحت حکومت گرانے کی دھمکی دی گئی تھی، مبینہ بیرونی مراسلہ خفیہ سفارتی دستاویز ہے، فاضل عدالت نے قراردیاہے کہ سفارتی تعلقات کے باعث عدالت مراسلے سے متعلق کوئی حکم نہیں دے سکتی ،عدالت نے قراردیاہے کہ سپریم کورٹ کاسپیکررولنگ پرازخودنوٹس سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر لیا گیاتھا، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ، وزیراعظم کی سفارش پر صدرمملکت کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اقدام سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہے، عدالت نے قراردیاہے کہ قومی سلامتی کیلئے دی گئی 3 اپریل کی سپیکر رولنگ شواہدپرمبنی ہونی چاہیے تھی، ثبوت کے بغیر لیے گئے پارلیمانی اقدامات کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے ، عدالت نے قراردیاہے کہ بیرونی مداخلت سے متعلق مبینہ مراسلہ 7 مارچ کو وزارت خارجہ کو موصول ہوا تھا جس پر سابق حکومت نے کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں کروائیں نہ ہی یہ بتایاکس نے بیرونی سازش کی ہے؟ حکومت نے 31 مارچ تک مراسلے کی تحقیقات کرائیں نہ ہی اپوزیشن کے سامنے حقائق رکھے تھے ،عدالت نے قراردیاہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن وزیر قانون نے پہلی بار بیرونی سازش سے متعلق ڈپٹی سپیکر کو رولنگ جاری کرنے کی استدعا کی تھی، تفصیلی رولنگ سے ثابت ہوا کہ بیرونی سازش کے نامکمل، ناکافی اور غیرنتیجہ خیزحقائق اسپیکرکوپیش کیے گئے تھے، ڈپٹی سپیکر نے اسی وجہ سے بیرونی سازش پر تحقیقات کرانے کی رولنگ دی تھی ،عدالت نے قراردیاہے کہ 2 اپریل کو اس وقت کے وزیرقانون نے بیرونی مداخلت سے متعلق کمیشن بنانے کا کہا تھا، انکوائری کمیشن کا قیام غماز ہے کہ سابقہ حکومت کو بیرونی مداخلت کا شک تھا، ڈپٹی سپیکر نے قومی سلامتی کو جواز بنا کر تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی تھی،تاہم یہ عدالت بیرونی مداخلت سے متعلق دلیل سے مطمئن نہیں ،عدالت نے قراردیاہے کہ عدالت کے سامنے بیرونی سازش سے متعلق ثبوتوں میں صرف ڈپٹی اسپیکرکا بیان ہی موجود ہے، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں نہیں بتایا گیا کہ مراسلے کے مطابق وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے اپوزیشن میں کس ممبر نے بیرون ملک رابطہ کیا تھا، ڈپٹی سپیکر کی تفصیلی رولنگ میں نہیں بتایاگیا کہ مبینہ مراسلے کے مطابق حکومت گرانے میں کون کون شامل تھا ؟عدالت نے قراردیاہے کہ آرٹیکل 69(1) واضح ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالت سے تحفظ حاصل ہے لیکن اگرپارلیمانی کارروائی میں آئین کی خلاف ورزی ہو تو اس پر کوئی تحفظ حاصل نہیں ، عدالت مقننہ کے معاملات میں آئینی حدود پار نہ ہونے تک مداخلت نہیں کرے گی، آئین کے آرٹیکل 95 (2) کے تحت اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا پابند ہے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو آئینی تحفظ حاصل نہیں، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دینے کا فیصلہ ذاتی طورپر وزیرقانون کے کہنے پر کیا تھا ،جسٹس جمال خان مندو خیل نے اپنے علیحدہ نوٹ میں قراردیاہے کہ اس مقدمہ میں ڈپٹی سپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کئے جانے کی بناء پر وزیر اعظم کو اسمبلی کی تحلیل کی سفارش کا موقع ملا تھا ،صدر نے بھی اس سفارش کو قبول کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کردی اور نئے انتخابات کا اعلان کردیا گیا ،جب اس عدالت نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو ہی و ہی غیر آئینی قرار دے دیا تو تحریک عدم اعتماد خو د بخود ہی بحال ہوگئی ہے،رولنگ کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ساری عمارت ہی گر گئی اور قومی اسمبلی بحال ہو گئی ہے ،سابق حکومت کے اٹارنی جنرل نے نظریہ ضرورت کے تحت نئے انتخابات کروانے کی اجازت دینے کی استدعا کی ہے ،جو کسی صورت بھی قابل غور نہیں ،چونکہ ڈپٹی سپیکر کا اقدام تعصب اور بدنیتی پر مبنی ہے اگر اس کی بنیاد پر نئے انتخابات کی اجازت دی جائے تو یہ بااختیار لوگوں کو نظریہ ضرورت کے من مانے استعمال کا لائسنس دینے کے مترادف ہوگا ،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ اس سے قبل متعدد بار قوم نے اس ملک میں نظریہ ضرورت کے ناجائز ستعمال کا مشاہدہ کیا ہے ،جسے عدالتوںنے بھی منظور کیا تھا لیکن اس سے کبھی بھی مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان ہی پہنچا ہے ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ اس وقت ملک میں کوئی غیر معمولی حالات نہیں تھے نہ ہی ریاست کیے وجود کو کسی قسم کا کوئی خطرہ تھا،کسی شخص کی ذاتی خواہش پر نئے انتخابات کا انعقاد کروانے کا کوئی جواز نہیں تھا اورنہ ہی کوئی ایسی صورتحال تھی کہ حکومت کی جانب سے عد الت نے نظریہ ضرورت کے استعمال کی استدعا کی جاتی ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ عدالت اس معاملہ میں وزیر اعظم یا صدر کی بجائے پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش پر انحصار کررہی ہے ،تاہم اگر نئی حکومت کے راستے میںحکومت چلانے کے عمل میں کوئی مشکلات حائل ہوں تو نیا وزیر اعظم صدر مملکت کو اسمبلیء کی تحلیل کی سفارش کرسکتا ہے ،فاض جج نے قراردیاہے کہ آئین کی جانب سے موزوں داد رسی کی دستیابی کی صورت میں اس عدالت کو نظریہ ضرورت کو استعمال کرنےکی کوئی وجہ نظر نہیں آئی ہے،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ صرف آئین اور قانون پر عملددرآمد کرکے ہی ہم نظریہ ضرورت سے جان چھڑوا سکتے ہیں،ایک مستحکم ملک بنانے کیلئے ملک میں جمہوریت کی مضبوطی نہایت ضروری ہے جبکہ آئین اور قانون ہی اس ملک کے عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرسکتے ہیں، فاضل جج نے قراردیاہے کہ نظریہ ضرورت کے استعمال کیلئے موثر چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہونا چاہیئے ،اور عدالتوں کو اس کے استعمال سے مکمل گریز کرنا چاہیئے ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے نوٹس کے اجراء کے بعد اسمبلی کی تحلیل کی سفارش کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ،اس لئے صدر کی جانب سے اس حوالے سے جاری نوٹیفکیشن اور نئے انتخابات کے اعلان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ ہم حیران ہیں کہ سائفر کے متن کا تفصیلی جائزہ لئے بغیر ہی ڈپٹی سپیکر کو کیسے علم ہوا کہ یہ ایک غیر ملکی سازش ہے اور کس نے کی ہے ؟یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ یہ سائفر وزارت خارجہ کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے بہت پہلے موصول ہوا تھا ،اگر کوئی حقیقت ہوتی تو حکومت کو اس کی تحقیقات کیلئے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہییے تھا ،لیکن اس حوالے سے کوئی اقدام بھی نہیں اٹھایا گیا ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ اگر سائفر میں ایسا کوئی مواد موجود بھی ہوتا تو بھی اس کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد کو مسترد نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ یہ ایک آئینی تقاضا تھا، سائفر کی بنیاد پر آئینی تقاضا پورا نہ کرنے کا یہ عمل ڈپٹی سپیکر کی جانب سے بدنیتی ،تعصب اور دائرہ اختیار سے باہر تھا،پوری قوم گواہ ہے کہ آئینی تقاضے اور عدالتی حکم کے باوجودسپیکرنے جان بوجھ کر ایک جمہوری کام کو لٹکایا تھا ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ ڈپٹی سپیکر نے آئین کے جس آرٹیکل 5(1)کے تحت تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیا تھا یہ بڑی عجیب بات ہے کہ انہوںنے وضاحت نہیں کی کہ یہ آرٹیکل انہیں تحریک کو روکنے کا اختیار کیسے دیتا ہے ،فاضل جج نے قراردیاہے کہ آرٹیکل 95سپیکر کو تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کرنے کے علاوہ کوئی اختیار بھی نہیں دیتا ،لیکن ڈپٹی سپیکر نے وزیر اعظم کے مفاد کے تحفظ کیلئے اپنے حلف سے بھی رو گردانی کی اور اختیارات کا بھی ناجائز استعمال کیا ہے،اس سے لگتا ہے کہ وہ پہلے ہی ذہن بنا چکے تھے ،کیونکہ رولنگ سپیکر اسد قیصر کے نام پر تھی جو ایوان میں موجود ہی نہیں تھے ،لگتا ہے کہ یہ سارا کام پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرکے کیا گیا تھا ،جس کا مقصد پارلیمنٹ کو وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے حق سے محروم کرنا تھا ،اسی بناء پر ڈپٹی سپیکر نے ایوان کو جواب دینے کا موقع بھی نہ دیا ،فاضل جج نے قراردیا ہے کہ دپٹی سپیکر کا یہ اقدام بدنیتی ،غیر شفافیت ،تعصب پر مبنی اور آئین کے بالکل خلاف تھا ،فاضل جج نے قلمبند کیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی اس عدالت نے از خود نوٹس کے اختیار کو استعمال کیا ہے کیونکہ یہ عدالت آئین اور قانون کی محافظ ہے جسے قانون و آئین کے خلاف ورزی کی صورت میںکا اختیار ہے جو آئین کے آرٹیکل 69 کے زمرہ میں نہیں آتی ۔