گزشتہ دنوں قاضی احمد میں ایک شخص کو شکارپور سے نسوانی آواز میں کال کی گئی اور اسے کال کرنے والی نے پسند کی شادی کرنے کا جھانسہ دیا اور اسے شکارپور بلا لیا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شخص کسی نسوانی آواز والی لڑکی کے پاس نہیں، بلکہ ڈاکو کے گروپ کے پاس پہنچ گیا تھا، جنہوں نے اس کو شِکار پور کے ایک کچے کے علاقے میں لے جا کر قیدی بنایا اور پھر اس کی ویڈیو وائرل ہوئی۔
اس میں یہ منظر دکھایا گیا کہ اس کے اوپر ڈاکوؤں نے کلاشنکوف تانی ہوئی تھی اور ڈنڈوں سے مار رہے تھے اور مغوی یہ کہہ رہا تھا کہ میں غریب ہوں، پچاس لاکھ روپے کہاں سے لا کے دوں اور یہ روح فرسا مناظر جب وائرل ہوئے، تو اس کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی اور پھر کیا ہوا، اس کی اندرونی کہانی کسی کو پتا نہیں ہے، لیکن وہ شخص ڈاکوؤں کے قبضے سے رہا ہو کر اپنے گھر بخیروعافیت پہنچ گیا۔
اس سلسلے میں اندرونی کہانی یہ بتائی جاتی ہے کہ معاملہ اوپر کی سطح کے سرداروں میں ڈیل کے ذریعے طے پایا اور چوں کہ مغوی ایک معمولی حیثیت کا شخص تھا، جس کے لیے گھر میں دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے تھے اور پیسے دینا تو کجا واپسی کے ٹکٹ کے لیے بھی اس کے پاس پیسے نہیں تھے اور تاوان کے بغیر رہائی ممکن نہیں تھی اور اس سلسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں مبینہ طور پر بعض بااثر افراد کا ہاتھ تھا اور اس طرح پولیس کا بھی بھلا ہوا اور بااثر افراد کا بھی کہ ان کے نام صیغہ راز میں رہے۔
سندھ میں اس طرح کے واقعات تواتر سے جاری ہیں اور اس سلسلے میں ایک سروے کے مطابق ہر مہینے درجنوں افراد اسی طرح کی نسوانی أواز والی فون کالوں میں ڈاکوؤں کے جھانسے میں آکر ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ ڈاکو کا یہ گروہ جو کہ اپنا نیٹ ورک پورے سندھ میں پھیلا چکا ہے، یہاں سے لوگوں کو اغوا کر کے مختلف علاقوں میں لے جاتے ہیں اور اس کے بعد ان سے لاکھوں روپے تاوان لے کر ا نہیں چھوڑا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے بتایا کہ یہ نیٹ ورک سب سے زیادہ شِکار پور میں کام کر رہا ہے، لیکن اس کے تانے بانے پُورے سندھ میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے صرف پولیس کا محکمہ ہی کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے نہ صرف رینجرز بلکہ پاک فوج سمیت تمام خفیہ ایجنسیوں کے نیٹ ورک کو بھی استعمال کیا جائے، تاکہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جا سکے، یُوں تو ضلع شہید بینظیر آباد امن و امان کے سلسلے میں ایک مثالی ضلع کہا جا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں پر بھی قاضی احمد کے علاقے میں قبائلی جھگڑے سر اٹھا رہے ہیں، حیدری کے دو گروہوں کے درمیان زمین کے تنازعے پر ہونے والے جھگڑوں میں اب تک کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
اس سلسلے میں گزشتہ روز کھوسہ برادری کے دو گروپوں میں ہونے والے تصادم کے بعد دونوں فریقین کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے بعد علاقہ میدان جنگ بن گیا اور کئی روز تک دونوں فریقین ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن رہے۔ تاہم معاملہ یہیں تک نہیں ہے، بلکہ اس میں مزید تیزی آگئی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالعزیز کھوسو کو نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں میں نشانہ بنایا اور انہیں قتل کردیا۔ اس واقعے کے بعد پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا اور پھر ایک مرتبہ دونوں فریقین مورچہ بند ہوگئے۔
اس سلسلے میں پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی انتہائی سنجیدگی سے لیا گیا، میں اور قاتلوں کی فوری گرفتاری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب یہ شنید بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کی ہائی کمان نے اس سلسلے میں کھوسہ برادری کے سردار سے رابطہ کیا ہے اور یہ کشت و خون بل کرانے کے لیے اپنا عقل استعمال کیا ہے۔
اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کے مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ چوں کہ کھوسہ برادری متعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے اس لیے اس کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کے سرداروں کو بیچ میں ڈال کر اس معاملے کو سلجھایا جائے، ہم اس میں کس حد تک کام یابی ہوئی ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ سردارکس حد تک مفید ثابت ہوتے ہیں۔ ادھر آئی جی پولیس غلام نبی میمن کی ہدایت پر ضلع شہید بے نظیر آباد کی پولیس لے منشیات فروشوں کے گرد گھیرا تنگ کر لیا ہے۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی امید کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں ہو سر ہاری روڈ پر پولیس نے منشیات فروشوں کے ایک منظم گروہ کو جو کہ بلوچستان اور کے پی کے سے اعلیٰ قسم کی چرس، افیون اور ہیروئن کی اسمگلنگ میں ملوث ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس گروہ میں خواتین بھی شامل ہیں اور ان پر سندھ مختلف تھانوں میں ایف آئی آر درج ہے۔
ایس ایس پی نے بتایا کہ صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر یہ منظم گروہ خواتین اور بچوں کی آڑ لے کر منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہے، اس کے ذریعہ سے وہ عوام میں نشے کی لت پیدا کر کے انہیں مفلوج کر رہے ہیں، جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گٹکا مین پوری اور نشہ آور زیڈ اکیس کے اس جنگ کی روک تھام کے لیے انہوں نے بھرپور کوشش کی ہے اور اس میں نے کام یابی بھی ملی ہے۔
ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے سندھ میں منظم طریقے سے بیک وقت اس کے خاتمے کے لیے آپریشن کیا جائے اور اس کے بعد ان تمام اضلاع کے پولیس افسران جن کے اضلاع میں اس مسئلے کی روک تھام نہیں کی جا سکی ہو، ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔