پنجاب کے بیس حلقوں میں ضمنی انتخابات مکمل ہوچکے ہیں۔تادم تحریر انتخابی نتائج آنے کا سلسلہ شروع نہیں ہوامگر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان دن بھر کانٹے کا مقابلہ دیکھنے کو ملا۔الیکشن مہم کے دوران مسلم لیگ ن کو مرکز اور پنجاب حکومت کی وجہ سے نفسیاتی برتری حاصل رہی۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک لمبے عرصے بعد مسلم لیگ ن کو پنجاب میں الیکشن لڑنا پڑا ہے۔ مریم نواز کی دس دن کی انتھک انتخابی مہم کو اگر مائنس کردیں تو تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں کوئی بڑا فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ان کی انتخابی مہم نے ضمنی انتخابات کی فضاء کو مسلم لیگ ن کے حق میں کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کے آخری چند جلسوں سے قبل حکومتی حلقوں میں شدید اضطراب پایا جاتا تھا۔انتظامی و حساس اداروں کی رپورٹس کچھ اچھی نہیں تھیں۔جس کے بعد چند وزراء کو مستعفی کراکر انتخابی مہم کا ٹاسک سونپا گیا ۔مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی سامنے نہ آسکی تو مریم نواز پر مکمل انحصار کیا گیا۔
میاں نواز شریف کے بعد پنجاب کے عوام میں مریم نواز کو بڑی پذیرائی ملتی ہے۔عوام کی اکثریت انہیں پسند کرتی ہے ۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں یہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہوچکا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن نے مرکز اور پنجاب میں غیر معمولی پرفارمنس کا مظاہرہ نہ کیا تو آئندہ عام انتخابات میں بہت مشکل صورتحال ہوگی۔اگر مرکز اور صوبائی حکومت کی نفسیاتی برتری کے باوجود مسلم لیگ ن کو بہت زور آزمائی کرنا پڑی ہے تو خراب پرفارمنس اور نگران حکومت کی سربراہی میں ہونے والے عام انتخابات میں کیا ہوگا؟
دن بھر انتخابی عمل کا بغور جائزہ لیتا رہا۔نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ ن زور آزمائی کے بعد پنجاب حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کی بھی اولین ترجیح مسلم لیگ ن ہی ہوگی۔مگر دو اراکین کے مستعفی ہونے اور ایک ممبر اسمبلی کے نااہل ہونے سے بھی مسلم لیگ ن کو دھچکا پہنچا ہے۔ضمنی انتخابات کے بعد بھی پنجاب میں عدم استحکام ختم ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔چند ووٹوں کے فرق سے قائم ہونیوالی حکومت بہت کمزور ہوتی ہے۔مشکل اور سخت فیصلے کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ممبران اسمبلی کی بلیک میلنگ جاری رہتی ہے ۔آج سے چند ماہ پہلے تک یہ تصور بھی نہیں تھا کہ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے مگر آ ج یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کے مقابلے میں ایک سیاسی قوت جنم لے چکی ہے۔امریکی سازش کا بیانیے کہیں یا پھر 14جماعتوں کی حکومت کا حصہ بننا،مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کو ایک ڈینٹ پڑا ہے۔پنجاب کے بار ے میں عمومی رائے تھی کہ لوگ امیدوار نہیں بلکہ شیر کے نشان کو ووٹ دیتے ہیںاور میاں نوازشریف جس کو ٹکٹ دے دیں گے وہ کامیاب ہوجائے گا۔لیکن حالیہ ضمنی انتخابات میں ایسا نظر نہیں آیا۔آج مسلم لیگ ن کو بہترین پرفارم کرنا ہوگااور پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کیلئے میاں نوازشریف کو لوٹنا پڑے گا۔پنجاب کے عوام کی اکثریت آج بھی نواز شریف کو ہی مسلم لیگ ن تصور کرتی ہے۔نوازشریف آج بھی پنجاب کے مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں۔تحریک انصاف کی شکل میں پنجاب میں پیدا ہونے والی نئی مزاحمت کا مقابلہ صرف نوازشریف کی عوام میں موجودگی ہی کرسکتی ہے۔مریم نوازعوام میں مقبول ہیں،بہادر خاتون کے طور پر عوام انہیں پسند کرتے ہیںلیکن ان کی مقبولیت کی بھی سب سے بڑی وجہ نوازشریف ہی ہیں۔عوام انہیں نوازشریف کی پرچھائیں کے طور پر دیکھتے ہیں۔مگر جس لیول کی مسلم لیگ ن کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے ،یہ عام انتخابات تک مزید بڑھے گی،ایسے میں نوازشریف ہی واحد رہنما ہیں،جو اس مزاحمت کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔نوازشریف کی عوام میں موجودگی مسلم لیگ ن کی بقاء کے لئے ناگزیر ہے۔مسلم لیگ ن کواپنا ووٹ بینک اور اپنا گھر پنجاب بچانا ہے تو گڈ گورننس ،میرٹ اور شفافیت کے نئے معیار متعارف کرانا ہونگے۔جو بدقسمتی سے گزشتہ چند ماہ کے دوران نظر نہیں آسکے۔ شہبازشریف کو پنجاب کے معاملات پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد مجھے نہیں پتہ حکومت کیسے کی جائے گی؟ مگر پچھلے تین ماہ تو پنجاب کی کارکردگی بزدار حکومت کا تسلسل معلوم ہوتی تھی۔ تکلیف ہوتی ہے کہ پنجاب جیسے صوبے میں چار ایم پی ایز آکر چار ،چار ڈی پی اوز تبدیل کروا کے چلے جائیں۔حالانکہ جنہیں آپکی اپنی حکومت نے دس دن پہلے تعینات کیا ہو۔ مجھے یاد ہے شہباز شریف تو بیس ،بیس ایم پی ایز کو خالی لوٹا دیا کرتے تھے مگر دیانتدار افسران تبدیل نہیں کرتے تھے۔یہ خاکسار 2010کی بات کررہا ہے جب پوری پنجاب حکومت سپریم کورٹ کے ایک حکم امتناعی اور ق لیگ کے فارورڈ بلاک کے40ارکان اسمبلی کے سہارے پر قائم تھی۔لیکن چونکہ تب شہباز شریف خود غلط افسر تعینات نہیں کرتے تھے اس لئے کوئی ایم پی اے بھی انہیں غلط افسر لگانے کا نہیں کہتا تھا۔آج حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میںوہی افسران بیٹھے ہیں جو سارا دن مخالفین کے گھر گزارتےیا پھر کسی کے فرنٹ مین مشہور تھے۔حمزہ شہباز صاحب سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ان کے کرپٹ پرنسپل سیکریٹری کے خلاف اینٹی کرپشن کے مقدمات درج کرنے کا کہتے ہیں تو دوسری طرف ان کے ماتحت کام کرنے والے بعض افسران اپنے سابقہ باسز کو بچانے پر لگ جاتے ہیں۔وزیراعظم صاحب بیشک اس حوالے سے کسی بھی حسا س ادارے سے تفصیلی رپورٹ منگوا لیں۔ آج راولپنڈی،لاہور،رحیم یارخان،منڈی بہاؤالدین سمیت متعدد اضلاع میں بعض افسران کی وہی ٹیم کام کررہی ہے جو عثمان بزدار کے ساتھ تھی۔جب ایسی صورتحال نظر آتی ہے تو پھر میرٹ اور صرف میرٹ کا خواب ادھورا معلوم ہوتا ہے۔ عثمان بزدار پر تنقیدنااہل ٹیم کی وجہ سے ہوتی تھی،اگر افسران کی کوئی ٹیم عثمان بزدار کے ساتھ کام کرتے ہوئے کرپٹ تھی تو آپ کے ساتھ آکر دیانتدار کیسے ہوگئی؟ان معاملات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہےتاکہ پنجاب میں بدانتظامی اور کرپٹ افسران کی تعیناتیوں کا جو سلسلہ عثمان بزدار کے دو ر میں شروع ہوا کم از کم حالیہ دور میں تو وہ تھم سکے۔