پاکستانی خواتین نے کھیل کے میدان میں سہولتوں کی کمی، مقابلوں کے مواقع نہ ہونے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کا بہتر انداز میں مظاہرہ کیا ہے،ہر کھیل میں ہماری خواتین کھلاڑیوں کی پر فار منس خاصی اچھی رہی ہے،مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری کھیلوں کی فیڈریشنوں، پاکستان اسپورٹس بورڈ، پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن اور ان کی ذیلی تنظیموں نے خواتین کھلاڑیوں اور ان کے کھیل کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جس کے باعث ہماری کھلاڑی ایشیائی یا عالمی سطح پر وہ نتائج حاصل نہیں کرسکیں جس سے وہ لیجنڈ بن سکتی تھیں۔
ہمارے ملک میں ہر کھیل کی فیڈریشن اپنی( مدرباڈی) عالمی تنظیم کے دبائو پر خواتین کے لئے ایک قومی چیمپئن شپ کرا کر اپنی جان چھڑا لیتی ہیں، سال بھر ان کھلاڑیوں کی کوچنگ، ٹریننگ کے لئے وہ مربوط نظام آج تک قائم نہ ہوسکا جس کی مدد سے ان کھلاڑیوں کو فائدہ ہوتا، پورے سال خواتین کھلاڑیوں کو سوائے کرکٹ کے دیگر کھیلوں میں بیرون ملک مقابلوں کے لئے نہیں بھیجا جاتا، اس کے علاوہ ملکی سطح پر بھی انہیں انعامی رقوم، اسپانسر شپ، سہولتیں اور سامان کی فراہمی جیسے معاملات میں امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ مگر کھیلوں کے ادارے ان امتیازی روایات کو بدلنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتے۔
خواتین کیلئے کھیلوں کی دنیا میں نام پیدا کرنا کوئی مرحلہ نہیں تھا۔ اس کیلئے بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑا، فرسودہ تصورات سے لڑنا پڑا اور اس مقام تک پہنچنے کیلئے انہیں بہت سی قربانیاں دینا پڑی ہیں۔ دنیا بھر میں اتھلیٹس کو نوجوان اپنا رول ماڈل تصور کرتے ہیں، ان میں خواتین ایتھلیٹس بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں مگر پاکستان میں بدقسمتی سے خواتین کھلاڑیوں کو معاشی مسائل کا سب سے زیادہ سامنا ہے، محکمہ جاتی سطح پر ان کی پذیرائی اور حمایت کا فقدان ہےجس کی وجہ سے کئی اچھی کھلاڑی دل برداشتہ ہوکر کھیلوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئیں۔
خواتین ہاکی ٹیم کا معیار ایک زمانے میں ایشیائی سطح پر قابل دید تھا، بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس میں ہماری کھلاڑی حریف کے لئے آسان تصور نہیں کی جاتی تھیں، شکور سسٹرز،شمیم نازلی، نسیم نازلی، سیما خان، نور جہاں ٹیبل ٹینس کےکھیل میں قومی اور ایشیائی سطح پر خاصی شہرت کی حامل تھیں، بیڈ منٹن میں عائشہ اکرام، افشاں شکیل کا بڑا نام تھا، جس وقت ملک میں کھیلوں کی ٹریننگ عالمی معیار کی نہیں تھیں، اداروں نے خواتین کھلاڑیوں کو بھی ملازمت دی، مگر صورت حال تبدیل ہوئی تو کھیلوں کی سہولتیں تو دستیاب تھیں مگر ملازمت کے دروازے ان پر بند کر دئیے گئے، سائوتھ ایشین گیمز میں تیز ترین خاتون ایتھلیٹ کا اعزاز حاصل کرنے والی نسیم حمید نے غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود نامور ایتھلیٹ محمد طالب کے فٹنس اسکول سے اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر کے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔
اسکواش میں بشرہ حیدر نے قومی سطح پر کامیابی کے ریکارڈ قائم کئے مگر ان کو کبھی پاکستان اسکواش فیڈریشن نے پاکستان میں نئے کھلاڑیوں کو گروم کرنے کی ذمے داری نہیں دیا، اسی لئے اگر یہ کہا جائے کہ کھیلوں کے شعبے میں خواتین کھلاڑیوں کے لئے صورتِ حال نہایت مایوسکن ہے تو بے جا نہیں ہوگا، اس کے علاوہ بعض کھلاڑیوں کے ساتھ ان کے کوچنگ اسٹاف کی طرف سے جنسی استحصال کے واقعات نے بھی نئی کھلاڑیوں کو خوف زدہ کیا، خواتین کھلاڑیوں کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ پاکستان میں کھیل کے شعبے میں کرپشن اور سیاسی رویوں نے خواتین کو بھرپور شرکت سے محروم کر رکھا ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کھیل کی تنظیمیں سیاسی روابط پر استوار ہیں اور ان پر مردوں کا غلبہ ہے اور اس کا مطلب ہے کہ عورت کا کھیل میں داخلہ کسی حد تک ممنوع ہے۔
ملک میں کھیل کی قیادت کمزور ہاتھوں میں ہے اور مالی معاملات میں خیانت کا عنصر موجود ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے کھیل کے میدان ہوں یا تنظیموں میں انتظامی معاملات، خواتین کو ان کے جائز حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس وقت بیڈ منٹن میں ماحور شہزاد،ویٹ لفٹنگ میں ٹوئنکل سہیل اور سونیا عظمت،رابعہ شہزاد، ذوالفیا نذیر،ٹیبل ٹینس میں پرنیا خان،حائقہ حسن ، عائشہ شر جیل، راحیلہ کاشف، سعدیہ فلک شیر ،اسکواش میں ماریہ طور پکئی ، سائیکلنگ میں نیلم ریاض، شطرنج میں مہک گل،کوہ پیما ثمینہ بیگ، کوہ پیما نائلہ کیانی، دیگر کھیلوں میں بھی کئی خواتین کھلاڑی اس وقت اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں مگر انہیں کئی مشکل اور کھٹن مسائل کا سامنا ہے جسے دور کرنے پر توجہ کی ضرورت ہے۔