آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی آمد سندھ پولیس کے اہل کاروں اور اے ایس آئی سطح کے افسران کے لیے خوشی کی نوید لے کر آئی ، دیگر صوبوں کی طرح سندھ حکومت نے بھی سندھ پولیس کی اپ گریڈیشن کے لیے قدم بڑھاتے ہوئے سندھ پولیس کا دیرینہ مطالبہ پورا کردیا۔ آئی جی سندھ کی سفارش پر حکومت سندھ نے پولیس اہل کار سے اے ایس آئی تک کے ہزاروں اہل کاروں اور افسران کے گریڈ بڑھا دیے ہیں، جس کے مطابق اب پولیس کانسٹیبل کا گریڈ 5 سے بڑھا کر 7 ہیڈ کانسٹیبل کا گریڈ 7 سے بڑھا کر 9 اور اے ایس آئی کا گریڈ 9 سے بڑھا کر 11 کردیا گیا ہے۔
اس اقدام سے کراچی سے کشمور تک پولیس اہل کاروں میں خوشی کی لہر ڈور گئی ہے، کیوں کہ ایک جانب ان کے گریڈ میں اضافہ ہوا ہے، تو دوسری جانب ان کی تنخواہوں میں گریڈ کے اعتبار سے 5 سے 6 ہزار روپے ماہانہ اضافہ ہوگا۔ سندھ حکومت کا یہ بڑا اور احسن اقدام ہے ، اس کا سہرا پیپلزپارٹی کی قیادت وزیراعلی سندھ کے سر جاتا ہے۔
یہ پولیس کی یونی فارم پہنے اہل کار، جن میں کوئی کسی کا والد، کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا ،تو کسی کا عزیز ہوگا۔ یہ سب ہمارے محافظ اور بھائی ہیں، ان کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مسائل بے پناہ اور وسائل انتہائی محدود ہونے کی وجہ سے سندھ پولیس کی کارکردگی متاثر بھی ہوتی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ کئی دہائیوں سے محکمہ پولیس سندھ کسی نہ کسی مسائل سے دوچار ہے، تو غلط نہ ہوگا۔
پولیس اہل کاروں کی تنخواہیں دیگر صوبوں کے اہل کاروں سے کم ہونا، پولیس اسٹیشنز کی عمارتوں کی خستہ حالی، پولیس نفری کی کمی، گاڑیوں، جدید اسلحے و جیسے مسائل میں سرفہرست ہیں، آئی جی سندھ حکومت سندھ نے سندھ بھر کے پولیس اہل کاروں کو ترقی دےکر ایک اچھا اقدام اٹھایا ہے، جس سے نہ صرف پولیس اہل کاروں کے مسائل خاص طور پر تنخواہوں میں اضافے سے ان کی مالی مشکلات بھی بڑی حد تک کم ہوسکیں گی اور وہ پہلے سے زیادہ اچھے انداز سے اپنے فرائض انجام دیں گے۔
سندھ بھر میں اغوا برائے تاوان اور کچے کے جنگلات میں ڈاکو راج آج بھی پولیس کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے، خاص طور سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے اضلاع کشمور شکارپور سکھر اور گھوٹکی خیرپور میں یہ مسائل زیادہ ہیں، حالاں کہ ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ کی سربراہی میں ایک سال کے دوران شکارپور اور کشمور میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن میں درجنوں ڈاکو جن میں متعدد انعام یافتہ اور بدنام زمانہ ڈاکو جو علاقے میں دہشت کی علامت بنے ہوئے تھے، مارے گئے۔
سینئر ترین پولیس افسران ایس ایس پی امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کے بہترین ٹیم ورک نے ان دونوں اضلاع کو وہ کام یابیاں دلائیں، جو ان اضلاع میں پولیس کئی دہائیوں میں حاصل نہیں کرسکی۔ سندھ کے ان اضلاع میں آج بھی ڈاکوؤں کے خلاف پولیس کا ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہے، ان اضلاع میں کچے کے خطرناک علاقے درانی مہر ، گڑھی تیغو اور شاہ بیلو سمیت دیگر شامل ہیں، جن میں ڈاکوؤں کے پاس پولیس سے زیادہ جدید ترین ہتھیار موجود ہیں اور متعدد مرتبہ ایڈیشنل آئی جی سطح کے افسران واضح طور پر میڈیا کے سامنے یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس اینٹی ائیر کرافٹ گنز اور دیگر جدید ہتھیار موجود ہیں، جو پولیس کے پاس نہیں ہیں۔
اس کے باوجود ان اضلاع میں پولیس کی بہترین کارکردگی اور بڑی کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر آپریشنل کمانڈر کی حکمت عملی بہتر اور کچھ کرنے کا عزم ہو تو پھر پولیس غیر یقینی نتائج دے کر یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر ہماری پولیس کی ضروریات کو پُورا کیا جائے، تو کچے کے خطرناک علاقوں میں مزید بہتر نتائج دے سکتی ہے اور ناممکن کو ممکن بھی بنانے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔ اس وقت بھی سندھ پولیس کو جدید اسلحے، نفری اور آلات خاص طور پر کشمور شکارپور سکھر اضلاع میں بکتر بند گاڑیوں، دریا میں پانی کی سطح بلند ہونے کی صورت میں پیٹرولنگ کے لیے جدید بوٹس سمیت آپریشنل ضروریات کو پورا کرنے کی اشد ضرورت ہے، اس طرح کے بے پناہ مسائل کو حل کرنا موجودہ آئی جی سندھ کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے ، ویسے تو ہر آئی جی اپنے عہدے کا چارج لینے کے بعد پہلے خطاب میں یہ نوید سناتا ہے کہ پولیس کو سیاسی دباؤ میں نہیں آنے دیں گے۔ پولیس آزادانہ طور پر اپنی خدمات جاری رکھے گی، پولیس سے سفارشی کلچر کا خاتمہ ہوگا۔
پولیس میں کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی ہوگی اور آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے 18 نکاتی ایجنڈا بھی سندھ کے تمام افسران کو دیا ہے کہ اس پر عمل درآمد کیا جائے جو کہ حقیقت میں ایک بڑا اور احسن اقدام ہے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ جب آئی جی پولیس اس حوالے سے کچھ کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، تو معاملات گڑبڑ ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر یہ خبریں آنا شروع ہوجاتی ہیں کہ آئی جی سندھ اور حکومت ایک پیج پر نہیں ہیں یا اختلاف کے حوالے سے بھی خبریں چند سال پہلے تک سنی جاتی رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے محکمہ پولیس کو درپیش مسائل سے نجات دلانے کے لیے جس عزم کا بیڑہ اٹھایا ہے، وہ اس میں کس حد تک کام یاب ہوتے ہیں اور انہیں حکومت سندھ سے کتنا تعاون حاصل ہوتا ہے، تھانہ کلچر کی تبدیلی کے حوالے سے بات کی جائے تو ماضی میں اس بارے میں بہت کچھ سُنا گیا۔
مگر زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ تھانہ کلچر کی تبدیلی تب تک ممکن نہیں، جب تک پولیس کے وسائل کو نہیں بڑھایا جاتا، سندھ میں اگر 800 تھانے ہیں، تو 400 سے زائد تھانے ایسے ہوں گے، جن کی عمارتیں خستہ حالت میں ہیں، بہت سے پولیس اسٹیشنز کی تو اپنی عمارت ہی نہیں، کسی تھانے میں فرنیچر نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو ٹوٹا پھوٹا ہے، ایسی صورتِ حال میں تھانہ کلچر کو تبدیل کرنا اور اسے عوام دوست بنانا مشکل ہی نہیں ، ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بھی تھانہ کلچر کی تبدیلی اور عوام دوست بنانے کے حوالے سے کام کیا تھا ،اس دوران جو ایک بات سامنے آئی تھی کہ سابق آئی جی نے جب اس حوالے سے افسران کی رائے طلب کی تھی، تو تو اس وقت ایک ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے کہا کہ تھانہ کلچر کی تبدیلی کے لیے پہلے تھانوں کا ماحول تبدیل کرنا ہوگا۔
ہمارا ہیڈ محرر ٹوٹی ہوئی کرسی پر بینچ آگے ڈال کر بیٹھا ہوتا ہے، جس سے عوام کو غلط تاثر ملتا ہے۔ ہم تھانوں کاماحول بہتر کرنے کے لیے سسٹم میں تبدیلی لا سکتے ہیں، تھانہ کلچر تبدیل کرسکتے ہیں، جب تھانے کی اسٹیشنری، اہل کاروں کے بیٹھنے کے لیے کرسی میز اور تھانے کے لیے بجٹ نہیں ہوگا، ایس ایچ اوز اور تفتیشی افسران کو ٹرانسپورٹ کی سہولت موبائل گاڑی کے لیے ڈیزل نہیں ملے گا، تو وہ کیا کریں گے۔ حکومت کو اس حوالے سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ نت نئے تجربات کے بہ جائے نچلی سطح سے پولیس میں اصلاحات لانا ہوں گی، جس کے لیے غیر ضروری تھانوں کا خاتمہ بہت اہم ہے۔
ہر علاقے میں آبادی کے اعتبار سے تھانے بنانا ضروری نہیں ہے، ہر ڈسٹرکٹ میں ایک جیسے تھانے ہوں، چھوٹے اضلاع میں کم اور بڑے اضلاع میں زیادہ ہونے چاہیں اور بہتر ہے ضرورت کے مطابق ایک یا دو یونین کونسل پر مشتمل اچھی عمارتوں میں ماڈل تھانے بنائے جائیں، جن میں بہترین فرنیچر ہو، ڈیزل ، اسٹیشنری، تفتیش کے اخراجات، منرل واٹر اور دیگر ضروریات کے لیے براہ راست تھانوں کا بجٹ رکھا جائے۔ ان میں میرٹ کی بنیاد پر ایس ایچ اوز اور ہیڈ محرر تعینات کئیے جائیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہیڈ محرر تھانے کی اہم ترین پوسٹ ہوتا ہے، کیوں کہ وہی ایف آئی آر لکھتا ہے، جس پر ڈیوٹی افسر دستخط کرتا ہے۔ ہیڈ محرر کی پوسٹ پر ہر ہیڈ کانسٹیبل نہیں لگ سکتا، اس کے لیے پولیس کا اپنا کورس ہوتا ہے۔
ہیڈ کانسٹیبل کے لیے وہ کورس کرنا لازمی ہوتا ہے، لیکن پولیس نظام میں سیاسی مداخلت یا سسٹم کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف سکھر رینج کے تینوں اضلاع میں درجنوں سپاہی ہیڈ محرر تعینات ہیں، یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ ایسا سسٹم بنایا جائے کہ جس کے تحت پولیس اہل کاروں کی ڈیوٹی صرف 8 گھنٹے ہو، اور اگر وی آئی پی ڈیوٹی یا ایمرجنسی یا نفری کی کمی کی صورت میں جو پولیس اہل کار زائد ڈیوٹی کرے تو اسے اوور ٹائم دیا جائے، تمام پولیس اہل کاروں ان کی فیملی کو بہترین اسپتالوں میں فری علاج و معالجے کی سہولیات ان کے بچوں کے لیے اعلی تعلیم، اچھے اسکول کالجز یونیورسٹیاں ہوں۔
تھانوں کی نفری کو بڑھایا جائے ہر پندرہ دن کے بعد تھانوں کی ہائی پروفائل چیکنگ کی جائے۔ پولیس میں ایک اچھا اور معیاری سسٹم بنا دیا جائے۔حکومت سندھ کو زبانی و کلامی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر جس طرح اپ گریڈیشن کی ہے، اسی طرح دیگرعملی اقدامات کرنے ہوں گے، تب ہی جاکر تھانہ کلچر کی تبدیلی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔