سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں وومن پولیس اسٹیشن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا،قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سکھر میں وومن اور چلڈرن جیل تو موجود ہے، لیکن وومن پولیس اسٹیشن نہیں ہے، کئی برس قبل وومن پولیس اسٹیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا، جو آج بھی صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہے۔ ظلم کا شکار ہونےوالی خواتین خاموش رہ کر اپنے اوپر ہونیوالے ظلم کو سہتی رہتی ہیں۔
سندھ کے مختلف اضلاع سمیت پنجاب اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی متعدد خواتین انصاف و تحفظ کے حصول کے لیے سکھر پہنچتی ہیں۔ تاہم وومن پولیس اسٹیشن نہ ہونے کے باعث انہیں یقینی تحفظ کی فراہمی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ پولیس کی جانب سے خواتین کے تحفظ کے لیے ون فائیو مددگار سینٹر میں ایک سیل قائم کیا گیا ہے، جو کہ دو کمروں پر مشتمل ہے اور وہاں بھی وومن پولیس کی تعداد انہتائی کم ہے۔ اس کے باوجود وومن پولیس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ گھریلو جھگڑوں کو وومن سینٹر میں ہی نمٹادیا جائے اور باہمی رضامندی سے ان میں صلح کرادی جائے۔
تاہم زیادہ تر خواتین ایسی ہوتی ہیں، جو واپس اپنے شوہر یا گھر جانے کے بہ جائے دارالامان میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ماضی میں چند سال قبل اس وقت کے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے سکھر میں وومن پولیس اسٹیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، اس حوالے سے یہ بات طے ہوئی تھی کہ وومن پولیس اسٹیشن سکھر میں ڈی ایس پی/اے ایس پی کی پرانی رہائش گاہ میں بنایا جائے گا ، وومن پولیس اسٹیشن کے ساتھ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس برانچ (ڈی آئی بی) اور لائسنس برانچ بھی اسی چاردیواری میں قائم ہوگی۔
یہ عمارت شہر کے وسط میں واقع ہے، یہاں وومن پولیس اسٹیشن، ڈی آئی بی برانچ اور لائسنس برانچ بنائے جانے سے لوگوں کو ریلیف ملے گا اور مسائل مشکلات کا شکار خواتین باآسانی وومن پولیس اسٹیشن آکر اپنی شکایت درج کراسکیں گی، مگر افسوس کہ کئی برس گزر جانے کے باوجود سکھر میں وومن پولیس اسٹیشن قائم کیے جانے کے حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ چند روز قبل ڈی آئی جی سکھر رینج طارق عباس قریشی نے آئی بی اے یونی ورسٹی سکھر میں جینڈر بیس وائیولیشن کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا اور آج ہم پسند کی شادی کے معاملے پر بچیوں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔
ان واقعات کی روک تھام کے لیے تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ اپنا کردار ادا کریں، لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے اور قانون پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے، جب کہ دوسری جانب اس حوالے سے خواتین کی بعض تنظیمیں بھی موجود تو ہیں، لیکن وہ بھی خواتین کے حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم کی روک تھام کے لئیے زیادہ تر کاغذی خانہ پوری اور اعداد وشمار جاری کرنے سے زیادہ کچھ کرتی دکھائی نہیں دیتیں، چند ایک ہیں جو فعال کردار ادا کررہی ہیں، لیکن وہ بھی شہروں تک دیہی اور پسماندہ اضلاع ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
نا انصافیوں کا شکار خواتین سکھر پریس کلب بھی پہنچتیں اور وہاں اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کی داستان بیان کرتی ہیں۔ ان میں متعدد خواتین ضعیف العمر بھی ہوتی ہیں، جن کا کہنا ہوتا ہے کہ ان کے بھائیوں یا بیٹوں نے انہیں گھر سے نکال دیا ہے، ان کی جگہ پر قبضہ کر لیا ہے، جب کہ شوہر کے تشدد سے تنگ خواتین بھی سکھر پریس کلب آتی ہیں ، پریس کلب آنے والی خواتین کی تعداد بھی ہر ماہ 40 سے 50 یا اس سے بھی زائد ہوتی ہے۔ وومن پولیس اسٹیشن کا قیام عمل میں لاکر خواتین پر ہونے والے مظالم اور ذیادتیوں کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، مگر نہ جانے کیوں بالا پولیس افسران اور حکومت سندھ کی جانب سے اس اہم مسئلے پر کسی بھی قسم کی کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔
سندھ پولیس کی جانب سے خواتین کو تحفظ اور قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے سندھ کے مختلف اضلاع میں وومن ہیلپ سینٹرز تو قائم کیے گئے ہیں، لیکن ان کے وہ خاطر خواہ نتائج دکھائی نہیں دیتے ، جو کہ نظر آنے چاہیں۔ ملک میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے قانون سازی بھی کی جاتی ہے اور سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں خواتین پر ہونے والے تشدد اور ذیادتیوں کی روک تھام کے لئے کام کرنے کا دعویٰ بھی کرتی دکھائی دیتی ہیں، حکومت کی جانب سے خواتین کے تحفظ اور حقوق کے لیے بلند وبانگ دعوے بھی کئے جاتے ہیں، لیکن سکھر جیسے بڑے شہر میں وومن پولیس اسٹیشن کا قیام عمل میں نہ آنا حکومت و پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
حکومت سندھ اور موجودہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کو اس جانب خصوصی توجہ دیتے ہوئے نہ صرف سکھر بلکہ سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی وومن پولیس اسٹیشن کا قیام عمل میں لانا چاہیے ، تاکہ خواتین اپنے ساتھ ہونے والے مظالم، زیادتی یا کسی بھی قسم کی شکایات کے ازالے کے لیے وومن پولیس اسٹیشن سے رجوع کرسکیں اور ان کی شکایات کا فوری ازالہ کیا جاسکے، شہری عوامی حلقوں کو موجودہ آئی جی سندھ سے بہت زیادہ توقعات ہیں کہ جس طرح انہوں نے سندھ پولیس میں موجود خواتین پولیس افسران اور اہل کاروں کا مورال بلند کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور پہلی بار سکھر سمیت دیگر اضلاع میں خواتین پولیس افسران و اہل کاروں کو تھانوں پر تعینات کیا ہے، اس احسن اقدام کے بعد اُمید کی جارہی ہے آئی جی سندھ، سکھر میں وومن پولیس اسٹیشن کے قیام کو عملی جامہ پہنائیں گے۔