• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امتیاز متین

’’آج لنچ کے لئے تم کس قسم کا سینڈوچ لائے ہو؟ ‘‘جواد نے پوچھا

’’پی نٹ بٹر اور کیلے کا۔‘‘ عاصم نے اپنا لنچ باکس میز پر رکھتے ہوئے کہا۔

’’آج پھر؟‘‘ جواد نے پوچھا

’’یہ میرا پسندیدہ سینڈوچ ہے اور مجھے پی نٹ بٹر میں ملائےہوئے کیلے سے زیادہ کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔‘‘ عاصم نے اپنا لنچ باکس کھولتے ہوئے کہا۔

’’ارے!! ‘‘لنچ باکس کھولتے ہی عاصم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ’’میرا سینڈوچ کہاں گیا؟‘‘

جواد نے عاصم کے لنچ باکس میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے تو یہاں صرف چند بسکٹ ہی رکھے نظر آرہے ہیں۔‘‘

’’میرا خیال ہے کہ ماما آج میرا سینڈوچ پیک کرنا بھول گئیں۔‘‘عاصم نے کہا۔

تم میرے چیز سینڈوچ میں سے آدھا کھا سکتے ہو۔‘‘جوادنے اپنا سینڈوچ عاصم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’شکریہ۔‘‘ عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

گھر آکر اس نے ماما سے پوچھا۔ ’’آج آپ میرا سینڈوچ پیک کرنا بھول گئی تھیں۔‘‘

’’بھول گئی تھی؟ ـــــ میں نے تو بسکٹ کے ساتھ رکھا تھا ۔‘‘ امی نے کہا۔

’’لیکن لنچ باکس میں تو نہیں تھا،وہ تو اچھا ہوا کہ جواد نے مجھے اپنا آدھا سینڈوچ دے دیا ورنہ میں تو اب تک بھوک سے نڈھال ہوچکا ہوتا۔‘‘

’’آئی ایم سوری بیٹا، کل تمہیں تمہارا پسندیدہ سینڈوچ مل جائے گا۔ ‘‘امی نے کہا ۔

اگلے دن اسکول کی کینٹین میں جواد نے عاصم سے پوچھا۔’’ کیا آج تم اپنا پسندیدہ سینڈوچ لائے ہو؟‘‘

’’ہاں ـــــ ماما نے اسے میرے سامنے پیک کیا ہے۔ اور آج تو انہوں نے میرے سینڈوچ میں زیادہ مکھن بھی لگایا ہے۔‘‘ عاصم نے یہ کہتےہوئے اپنے لنچ باکس کھولا۔

’’ ارے یہ کیا ، میرا سینڈوچ آج پھر غائب ہوگیا ۔‘‘ ’’نہیں نہیں!!‘‘ جواد نے لنچ باکس میں جھانکتے ہوئے کہا۔اچھاتم میرا آدھا سینڈوچ کھالو۔‘‘ جواد نے لنچ باکس میں جھانکتے ہوئے کہا۔’’لیکن مجھے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ میرے لنچ کون کھا رہا ہے؟‘‘ ’’ لگتا ہے پی نٹ بٹر اور کیلے کا سینڈوچ کسی اور کا بھی پسندیدہ ہے۔‘‘ جواد نے کہا۔

دوسرے دن عاصم اپنے لنچ باکس کی حفاظت کرتا رہا۔ اس دن اس نے اپنا لنچ باکس ایسی جگہ رکھ دیا تھا، تاکہ سب کو نظر آتا رہے اس نے دیکھا کہ کوئی بچہ بھی اس کے لنچ باکس کے نزدیک نہیں گیا لیکن جب اس نے کینٹین میں پہنچ کر اپنا لنچ باکس کھولا تو اس میں سینڈوچ نہیں تھا۔’’بڑی عجیب بات ہے میں نے خود دیکھا ہے کہ کسی بچے نے لنچ باکس کو چھوا تک نہیں۔

سوائے اسپورٹس کے پیریڈ کے، لیکن اس وقت تو تمام بچے کلاس سے باہر تھے۔ ‘‘عاصم نے کہا۔

’’ہوسکتا ہے کہ ہر کوئی کلاس سے باہر نہ گیا ہو۔‘‘ جواد نے کہا

اگلے دن جب عاصم اسکول آیا تو اس نے سب لوگوں کے سامنے اپنا لنچ باکس کلاس روم میں سامنے کی طرف ایک کونے میں رکھی ہوئی میز پر رکھ دیا تاکہ پوری کلاس کو نظر آتا رہے۔ اور وہ خود بھی اپنے لنچ باکس کی نگرانی کرتا رہا۔ اسپورٹس کے پیریڈ کے لیے جب سارے بچے قطار بنا کر کلاس سے باہر جانے لگے تو عاصم قطار کے آخر میں کھڑا ہوگیا، تاکہ یہ اطمینان کر سکے کہ ہر بچہ کلا س رُوم سے باہر جا چکا ہے۔

جواد نے کہا ، چلو پیچھے کی کھڑکی سے چھپ کر جھانکتے ہیں۔‘‘

عاصم اور جواد پچھلی کھڑکی سے چھپ کر کلاس میں جھانک رہے تھے۔

’’کوئی آرہا ہے۔‘‘ عاصم نے سرگوشی کی۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک بچہ خاموشی سے کلاس روم میں آیا اور اس نے عاصم کے لنچ باکس میں سے سینڈوچ نکال لیا اور اپنی جیب سے ایک کاغذ کی تھیلی نکال کر اس میں رکھ لیا۔

’’یہ توحید ہے، لیکن یہ میرے سینڈوچ کیوں چرا رہا ہے؟ ‘‘عاصم نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔

’’ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس کینٹین میں کچھ خرید کر کھانے کے لئے پیسے نہ ہوں ۔

’’معلوم نہیں ــــــــ لیکن تم اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتانا، میں خود ہی توحید سے نمٹ لوں گا۔‘‘ عاصم نے کہا۔

اگلے دن اسپورٹس کے پیریڈ میں جواد اور عاصم پھر پچھلی کھڑکی کے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے، اس بار بھی توحید نے لنچ باکس میں سے سینڈوچ نکال کر اپنی تھیلی میں رکھا۔

’’میرا خیال ہے کہ تم توحید کا بہت خیال کر رہے ہو، وہ تمہارا سینڈوچ مزے سے چرا رہا ہے اور تم یہاں خاموش کھڑے تماشا دیکھ رہے ہو۔ چلو چل کر اسے سبق سکھاتے ہیں۔‘‘ جواد نے کہا۔’’اس وقت تک انتظار کرو جب تک ہم کینٹین میں جاکر لنچ نہیں کرتے۔‘‘ عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

عاصم اور جواد کینٹین میں بیٹھے ہوئے توحید کو سینڈوچ کھاتے ہوئے دیکھتے رہے۔

’’دیکھو ــــــــــ وہ ادھر ہی آرہا ہے!‘‘ جواد نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ ’’ اور اب تم اس سے کہہ سکتے ہو کہ وہ تمہارے سینڈوچ چوری کرنا بند کردے۔‘‘

توحید آہستہ آہستہ چلتا ہوا عاصم کے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں مڑی ہوئی براؤن کاغذ کی تھیلی تھی۔ توحید نے قریب آکر تھیلی میں سے پھاڑا ہوا کاغذ کا ٹکڑا مسکراتے ہوئے عاصم کو دیا اور خاموشی کے ساتھ کینٹین سے باہر چلا گیا۔

’’اس پر کیا لکھا ہے؟‘‘ جواد نے عاصم کے کندھے کے اوپر جھکتے ہوئے کہا۔

’’شکریہ ‘‘ عاصم نے جواب دیا

’’کس بات کا شکریہ؟ ‘‘جواد نے پوچھا

عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔’’کیونکہ آج میں گھر سے دو سینڈوچ بنوا کر لایا تھا۔‘‘