• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبے میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران غیرت کے نام پر قتل کے بتیس واقعات رپورٹ ہوئے ، جب کہ108 خواتین کا قتل ہوا،119 خواتین نے خودکشی کی۔ رپورٹ کے مطابق 11 خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، جب کہ 40 خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ 74 خواتین کو اغوا کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ 66 واقعات ضلع خیرپور میں ہوئے، جب کہ دادو میں خواتین سے ظلم و زیادتی کے اکیاون ضلع سانگھڑ میں 47 اور ضلع شہید بینظیر آباد میں خواتین کے ساتھ 39 ظلم و زیادتی کے واقعات رپورٹ کیے گئے ۔ این جی او کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق ضلع لاڑکانہ میں 36 خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی طرح سندھ میں کاروکاری کے بڑھتے ہوئے واقعات میں خواتین پر تشدد اور قتل نے سول سوسائٹی کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اس بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ کوئی دن نہیں گزرتا، جس میں ضلع شہید بینظیر آباد میں کسی بھی تھانے پر کسی خاتون کے ساتھ ظلم و زیادتی کی رپورٹ نہ کی جاتی ہو، اس کے محرکات کیا ہے، اس بارے میں سینئر وکیل نعیم احمد منگی کا کہنا تھا کہ ضلع شہید بینظیر آباد فیملی کورٹ میں خلع اور طلاق کے مقدمات کی تعداد ماہانہ 100 سے زائد تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں اکثر وہ خواتین، جنہوں نے پسند کی شادی کی ہوتی ہے۔ 

سندھ میں پسند کی شادی کا انجام قتل و غارت گری پر منتج ہوتا ہے اور اس سلسلے میں اعداد و شمار انتہائی تشویش ناک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پسند کی شادی کرنے والے اکثر جوڑے یا تو لڑکی والوں کے ہاتھوں یا لڑکے والوں یا ان کے رشتے داروں کے ہاتھوں کارو کاری قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔ وومن تھانے کی انچارج مریم کا کہنا تھا کہ پسند کی شادی کرنے والی لڑکیوں کا مستقبل اچھا نہیں ہوتا۔ بہت کم جوڑے ایسے دیکھے گئے ہیں، جو پسند کی شادی کرنے کے بعد اپنی زندگی ہنسی خوشی گزار رہے ہوں۔

ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ پسند کی شادی اسی فی صد ناکامی کی طرف جاتی ہے۔ اس لیے کہ اس میں لڑکا اور لڑکی دونوں کے گھر والوں کی رضامندی شامل نہیں ہوتی اور پھر یا تو بات کاروکاری پر جا کر منتج ہوتی ہے یا پھر دونوں کی ان بن کے نتیجے میں بات خلع اور طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک جانب ہماری نوجوان نسل، جس میں خاص طور پر لڑکے شامل ہیں، نشے کی عادت میں مبتلا ہو رہے ہیں اور دوسری جانب لڑکیاں انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے سے وقت گزاری کرنے کے لیے نوجوان لڑکوں سے رابطہ کرتی ہیں اور اس کے بعد اس کے نتائج جو کہ انتہائی بھیانک ہی سامنے آتے ہیں۔ 

ایسے کیس بھی ان کے سامنے آئے ہیں کہ لڑکی والے انتہائی متمول قسم کے لوگ اور معاشرے میں معزز فرد کی حیثیت رکھنے والے، لیکن ان کی بچی ایک ایسے شخص کے ساتھ گھر سے فرار ہوکر جا چکی تھی کہ جو کہ تعلیم اور معاشی طور پر انتہائی نچلے درجے کا نوجوان ہوتا ہے اور پھر ایسے میں ان ماں باپ کے لیے سوائے منہ چھپا کر بقیہ زندگی بسر کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض ایسے ماں باپ بھی ہمارے پاس آتے ہیں، جن کی بچی گھر سے فرار ہوکر جا چکی ہے، لیکن ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ بچی کو بازیاب کرایا جائے۔

تازہ اطلاع ہے کہ قاضی احمد کے قریب ایک خاتون کو اس کے دیور نے قتل کیا اور اس کے بعد اس کو خودکُشی کا نام دے کر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ تاہم لڑکی کے والدین کی جانب سے ایس ایس پی امیر سعود مگسی کو شکایت کیے جانے کے بعد اُن کے حکم پر پولیس نے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی اورانہیں گرفتار کیا۔ اس سلسلے میں پولیس رپورٹ کے مطابق پوسٹ مارٹم کرنے پرمعلوم ہوا کہ خاتون کا گلا گھونٹا گیا اور اس کے بعد جب نیم بے ہوشی کے عالم میں تھی، تو اس کو فصلوں میں اسپرے کی جانے والی دوا منہ میں انڈیل کر یہ ڈراما کیا گیا کہ اس نے زہر پی کر خودکُشی کی ہے۔ اس قتل کے محرکات تو سامنے نہیں آ سکے۔ 

تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قتل رشتے کے تنازع پر کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں اب بھی دور جاہلیت کی رسم کاروکاری اور اس کے علاوہ زمین جائیداد کے جھگڑوں میں قبائلی دشمنی اور خاص طور پر خواتین کے ساتھ زیادتی اور اس کے علاوہ اجتماعی زیادتی کے واقعات میں اضافہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس سلسلے میں قوانین کو سخت کیا جائے اور مجرموں کو سزا دلانے کے لیے ایسے قوانین وضع کی جائیں، جس میں کسی بے گناہ خاتون یا شخص کو قتل کرنے والے سو مرتبہ سوچیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید