گزشتہ ماہ، شہرمیں مسلسل بارشوں اوردیگر حادثات اورقتل و غارت گری کے المناک واقعات میں کئی قیمتی جانیں نِگل کر کئی خاندانوں کو سوگوار کرگیا، آج ہم یہاں چند اہم واقعات کا ذکرکریں گے۔ حکومت سندھ کی جانب سے دفعہ 144کے تحت سمندر میں نہانے پر پابندی کے باوجود لیاقت آباد کے سندھی ہوٹل کے رہائشی 4 جگری دوست 25 سالہ نہار ولد عرفان ہاشمی، 18سالہ عبید ولد سلیم، فہد اور شاہ رخ ماڑی پور تھانے کی حدود ہاکس بے ٹرٹل بیچ پکنک منانے آئے اور نہانے کےدوران ڈوب گئے، ریسکیو ٹیم نے فوری طور پر دونوں جوانوں کو نیم بے ہوشی کی حالت میں نکال کر بچا لیا۔
بعدازاں دیگر 2 دوستوں کی لاشیں بھی نکال لی گئیں، علاوہ ازیں نارتھ کراچی سیکٹر سیون سی کے رہائشی اپنے ٹیچر مقیم اور دیگر دوستوں کے ساتھ پکنک منانے کے لیے آنے والے سینڈز پٹ کے ساحل سمندر میں نہاتے ہوئے2 نوجوان 16 سالہ محسن اور 16 سالہ معمون ڈوب کرجاں بحق ہوگئے۔ ان کی لاشیں بھی ریسکیو عملے نے نِکال کر اہل خانہ کے حوالے کردیں۔ ساحلی مقامات پر پولیس نے سندھ حکومت کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کرنے کے باوجود مبینہ رشوت وصول کرکے شہریوں کو ساحل پر جانے کی اجازت دی۔
ڈوبنے والے نوجوانوں کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا کہ جب حکومت سندھ کی جانب سے سمندر میں نہانے پر پاپندی تھی، تو پولیس نے انھیں کیوں جانے دیا، ہاکس بے جانے کے لیے ایک ہی راستہ ہے، جو ماڑی پور تھانے سامنے سے گزرتا ہے، مشتعل اہل خانہ نے الزام عائد کیا کہ پولیس مبینہ طور پر رشوت وصول کرکے پابندی کے باوجود شہریوں کو سمندر پر جانے کی اجازت دیتی ہے ،انھوں نے حکومت سندھ اور پولیس کے اعلیٰ افسران مطالبہ کیا ہے کہ علاقہ پولیس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے ، نوجوانوں کی اموات کی ذمے داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ پابندی کے باوجود نوجوانوں کےہاکس بے سمندر تک رسائی نےمتعلقہ پولیس کی کارکردگی پر کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
عدم بردا شت کے نتیجے میں کسی کی جان لے لینا کھیل بن گیا ہے۔ گزشتہ دنوں لیاقت آباد تھانے کی حدود بندھانی کالونی میں واقع شادی لان کے سامنے کار پارکنگ کے تنازع پر فائرنگ سے نوجوان حماد جاں بحق ہوگیا، پولیس کے مطابق کمیونٹی سینٹر میں مقتول حماد کے بھائی وقاص کا ولیمے اور بہن کی بارات کی تقریب تھی، جب کہ قریبی واقع شادی لان میں دوسری شادی کی تقریب تھی، شادی لان کی تقریب میں شریک شخص نے فائرنگ کردی ، مقتول کے سینے پر 2 گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔
وہ شخص ہوائی فائرنگ کرتا ہوا گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہوگیا، اورچند لمحوں میں شادی کی تقریب سوگ میں بدل گئی۔ پولیس نے دُلہا دانش ولد بشیر کو حراست میں لے کر فائرنگ کرنے والے ملزم ذیشان قریشی کی تلاش شروع کردی۔ نوجوان کےقتل کے خلاف اہل خانہ اور علاقہ مکینوں نے شدید احتجا ج کر کے سڑک بلاک کردی ، جس کے نتیجے میں حسن اسکوائر سے لیاقت آباد جانے والا ٹریفک گھنٹوں معطل رہا۔
بعدازاں پولیس افسران کے جانب قاتل کی گرفتاری اور غم زدہ خاندان کو انصاف دلانے کی یقین دہانی پر احتجاج ختم کردیا گیا۔ مدعی محمد یونس کا کہنا ہے کہ ملزم ذیشان قریشی برابر والے شادی لان میں شادی کی تقریب میں آیا تھا، مقتول حماد کی راستہ نہ دینے پر ملزم ذیشان قریشی سے تلخ کلامی ہوئی، ملزم کی بیوی نے گاڑی سے اتر کر مقتول کو تھپڑ مارتے ہوئے شوہر سے کہا اسے شوٹ کردو، مدعی یونس کا مزید کہنا ہے کہ شادی کی تقریب کے دُلہا سمیت رینٹ اے کار وا لے چند باراتیوں کو ہم نے خود پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا ۔ ہم نے دھرنا قاتل ذیشان قریشی کو 3دن گرفتار کرنے کی پولیس کی یقین دہانی پرختم کیا تھا، لیکن پولیس صرف تسلیاں دے رہی ہے۔اس حوالے سےپولیس کا کہنا ہے کہ قاتل کراچی میں مختلف ٹھکانے بدل رہا ہے، اسے جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔
بھینس کالونی روڑ نمبر 12 پیرانو گوٹھ میں واقع گھرمیں سفاک قاتل شوہر نےتیز دہار آلےکے وارسے بیوی سکینہ کو قتل کر کے آلہ قتل سمیت فرار ہو گیا۔ مقتولہ کی بہن کے مطابق ملزم جہاں زیب نے دو شادیاں کی ہیں، مقتولہ ملزم کی دوسری بیوی تھی اور دونوں کے درمیان آئے روز جھگڑا ہوتا تھا، مقتولہ سکینہ 3 بچوں کی ماں تھی۔ اتحاد ٹاؤن تھانے کی حدود شانتی نگر ابوبکر مسجد کے قریب گھر میں قتل کی لرزہ خیز واردات میں سفاک قاتل نے کمسن بھانجی کے سامنے چُھری کے وار سے بہنوئی 35 سالہ اسد ولد غلام قاسم کو قتل اور سگی بہن 28 سالہ ماریہ کو شدید زخمی کر دیا اور کمسن بھانجی کو ساتھ لے کر فرار ہو گیا۔
ملزم دیدار مقتول اسد کی اپنی بہن سے پسند کی شادی پر ناخوش تھا،ملزم بہنوئی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہائش پذیر تھا، جس نے موقع ملتے ہی بہنوئی اور بہن پر چُھری کے وار کیے اور دونوں کو مردہ جان کر کمسن بھانجی کو لے کر فرار ہو گیا۔ پڑوسیوں کے مطابق خون میں لت پت ملزم کی بہن ماریہ نے ہوش میں آنے کے بعد گھر کے دروازے تک پہنچ کر دروازہ کھولا اور مدد کے لیے آواز لگائی، جس پر پڑوسی پہنچ گئے اور پولیس کو اطلاع دی ، پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر شواہد اکٹھے کرکے زخمی خاتون اور مقتول کی لاش اسپتال منتقل کر کے مقدمہ درج کر لیا۔
نوجوان طلبہ وطالبات میں برھتی ہوئی نشے کی لعنت مستقبل کے معماروں کی زندگیاں تباہ کررہی ہے۔ ڈیفنس دو دریا کے قریب واقع رہائشی عمارت کی سترہویں منزل کے فلیٹ سے پُراسرار طور پر نوجوان 28سالہ طالب علم عادل مسعود کے گرنے کے واقعے میں انکشاف ہوا کہ مقتول اور اس کے دوست نشہ کررہے تھے، عادل نے حال ہی میں آئی بی اے سے بی بی اے کیا تھا، پولیس کے مطابق اس کی والدہ بیرون ملک، جب کہ بہن لاہور میں رہائش پذیر ہے۔
عادل گلستان جوہر کا رہائشی تھا اور اپنے دوستوں کے ہمراہ مذکورہ فلیٹ پر نشہ کرر ہا تھا، دوستوں نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ عادل کس وقت بالکونی سے گرگیا، عادل کی بہن نے اس کے دوستوں پر قتل کا شبہ ظاہر کیا ہے ، پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی اصل وجہ موت کا تعین ہوسکے گا۔ پولیس ورثا کی مدعیت میں قتل کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کر کے ساتوں دوستوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
کراچی کے شہریوں کے لیے یہ خبر خوش آئند ہے کہ کراچی سیف سٹی پروجیکٹ آزمائشی بنیادوں پر شروع ہو گیا، اطاعات کے مطابق پہلے مرحلے میں 2مقامات پر ہائی ٹیک کیمرے نصب کر دیئے گئے،مجموعی طور پر 5 کیمرے حسن اسکوائر اور بلوچ کالونی پُل کے نیچے نصب کیے گئے ہیں۔12میگا پکسل کے کیمروں میں جدید ترین سیکیورٹی فیچرز شامل ہیں، سڑک پر چلتی گاڑی کا نمبر اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھے افراد کی شناخت ممکن ہورہی ہے۔
صرف گاڑی نمبر سے اس کی شاہراہوں پر نقل و حرکت کا پتہ لگایا جاسکے گا۔ جدید کیمروں کے ’’چہروں کی شناخت‘‘ کے فیچر کے ذریعے تصاویر کا ڈیٹا بنک بنایا جائے گا، کیمروں کے ساتھ نصب ریڈار گاڑیوں کی اسپیڈ کا سراغ لگانے میں مدد دے گا۔ 2سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر بھاگنے والی گاڑی کی بھی قابل شناخت ہوگی ،جدید کیمروں میں آئی ٹی ایس سسٹم کے ذریعے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر خودکار چالان ہوسکیں گے، کیمرے دن اور رات میں یکساں ریکارڈنگ کی اہلیت رکھتے ہیں۔
سیف سٹی کراچی پروجیکٹ کی منظوری ستمبر سے پہلے متوقع ہے اور منظوری کے بعد فوری طور پر پروجیکٹ پر کام شروع کردیا جائے گا۔ اس حولے سے ڈی جی سندھ سیف سٹیز اتھارٹی/ڈی آئی جی سیکیورٹی اینڈ ایمرجنسی سروسز ڈویژن ڈاکٹر مقصود احمد نے استنبول پولیس ہیڈ کوارٹرز اور کمانڈ سینٹر کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پرڈی جی سندھ سیف سٹیز اتھارٹی نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ پولیس پولیسنگ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی حکمت عملیوں کو اپنانے کے لیے کو شاں ہے۔‘‘
پولیس میں موجود کالی بھیڑیں بلاخوف و خطراپنی مجرمانہ کارروائیاں بد ستورجاری رکھے ہوئے ہیں ،اطلاعات کے مطابق اسپیشل برانچ میں تعینات اہل کار سرفراز نے محکمہ پولیس میں بھرتی کرانے کے نام پر شہری سے 2 لاکھ روپے لُوٹ لیے۔ متاثرہ شہری جہانگیر نے رقم کی واپسی کے لیے پولیس کے اعلی افسران کو درخواست دے دی، کیماڑی میں واقع اسپیشل برانچ کے افسران نے متاثرہ شہری جہانگیر کو انکوائری کے لیے 22 جولائی کو طلب کیا۔ متاثرہ شہری جب انکوائری کی غرض سے کیماڑی اسپیشل برانچ کے دفتر گیا، تو پولیس اہل کار سرفراز نے دیگر دوستوں سے مل کر شہری جہانگیر پر شدید تشدد کرکے اس کی ناک توڑ دی اور جسم کے دیگر حصہ پر بھی چوٹیں آئیں۔
متاثرہ شہری جب جیکسن تھانہ رپورٹ درج کرانے گیا، تو پولیس نے رپورٹ درج نہیں کی، جس کے بعد اس نے ایڈیشنل آئی جی کراچی کے کمپلینٹ سینٹر سے رابطہ کیا، تو جیکسن پولیس نے بحالت مجبوری رپورٹ درج کر کے میڈیکل لیٹر دے کر چلتا کر دیا ، مگر تاحال اسپیشل برانچ کے اہل کار سرفراز کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی، متاثرہ شہری جہانگیر کے مطابق پولیس اہل کار سرفراز جو کہ متاثرہ شہری کا محلہ دار ہے، نے 2020 میں متاثرہ شہری سے پولیس میں بھرتی کرانے کے نام پر 2 لاکھ روپے لیے، مگر نہ تو پولیس میں بھرتی کروایا اور نہ رقم واپس کی، رقم کے تقاضے پر ٹال مٹول کرتا رہا، جس کی وجہ سے شہری نے تنگ آ کر پولیس کے اعلی افسران کو درخواست دی شہری کو انصاف ملنےکی بہ جائے اس پر شدید تشدد کیا گیا اور اسے اسپیشل برانچ کے دفتر بھی نہیں جانے دیا۔
مزکورہ اہل کار سرفراز کے بارے میں ذرائع نے انکشاف کیا کہ یہ عادی فراڈی ہے، لوگوں کو پولیس کے نام پر بھرتی کروانے کے نام پر لوٹتا ہے، اس سے قبل بھی اس کے مقدمہ درج کیا گیا تھا، مگر اثر و رسوخ رکھنے کی وجہ سے معاملہ لے دے کر ختم کر دیاگیا۔ متاثرہ شہری جہانگیر نے پولیس کے اعلی افسران سے اپیل کی ہے کہ میں غریب شخص ہوں، میرے ساتھ انصاف کر کے رقم واپس کروائی جائے۔