• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیوٹرلز کا نام بتانے کیلئے عمران خان کو چیلنج

اسلام آباد (انصار عباسی) پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات خصوصاً حالیہ دنوں میں بد سے بدتر ہو چکے ہیں اور پارٹی کی قیادت کو بھی اس کا علم ہے۔ 

پی ٹی آئی کے کچھ سینئر رہنمائوں، جو اب بھی کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں، کو کچھ ایسی فون کالز موصول ہوئی ہیں جن میں ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے جس کی وجہ پارٹی کی جانب سے کوئٹہ میں فوج کے ہیلی کاپٹر حادثے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی انتہائی توہین آمیز مہم ہے۔ 

پی ٹی آئی کے ایک ذریعے کے مطابق، پی ٹی آئی کے کچھ حامیوں کی ٹوئیٹس انتہائی نفرت آمیز تھیں اور پی ٹی آئی کے رہنما کو یہ ٹوئیٹس دکھائی گئیں اور پھر انہوں نے یہ معاملہ پارٹی کی سینئر قیادت کو بتایا۔ 

اس کے بعد ان ٹوئیٹس کے حوالے سے پارٹی کے آفیشل ٹوئٹر سے یہ ٹوئیٹ کی گئی کہ ’’ان اکائونٹس کا پی ٹی آئی کی آفیشل ٹیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، نفرت پھیلانے والوں کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا، ایسے لوگوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا جو قومی سانحات کو تقسیم کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ 

ایسے اکائونٹس کو پی ٹی آئی آفیشل کی جانب سے بلاک کر دیا جائے گا۔‘‘ لیکن اس کے باوجود ایسے لوگ جو بظاہر پی ٹی آئی کے فالوئرز نظر آتے ہیں، فوج کیخلاف ٹوئیٹس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 اس گندی مہم میں پارٹی کی قیادت کا کوئی کردار نہیں۔ اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ نفرت پارٹی کی قیادت نے اپنے فالوئرز میں منتقل کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا توازن کھو چکے ہیں اور دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ 

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت سوشل میڈیا پر ایسی مہم کے حوالے سے مذمت نہیں کرتی، پارٹی کی زیادہ تر قیادت ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر زیادہ فعال ہے۔ 

جیو نیوز کے سینئر اینکر سلیم صافی نے جمعرات کو اس بات کا انکشاف کیا، ساتھ ہی ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ بیشتر پاکستانیوں کی طرح فوجی افسران اور ان کے اہل خانہ کو پی ٹی آئی کی مہم سے دکھ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ صدر عارف علوی سے شائستہ انداز سے کہہ دیا گیا کہ وہ راولپنڈی میں شہداء کی تدفین میں شرکت نہ کریں۔ صدر مملکت اس موقع پر شرکت کے خواہاں تھے جو کچھ پی ٹی آئی سوشل میڈیا نے کیا اس پر شہداء کے اہل خانہ کی طرف سے ممکنہ رد عمل کا خدشہ تھا۔ 

لیکن پارٹی چیئرمین عمران خان کی طرف سے یہ اچھا تاثر تھا کہ انہوں نے شہید لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کے اہل خانہ سے جمعہ کو ملاقات کی اور تعزیت کا اظہار کیا۔ 

عمران خان شاذ و نادر ہی تدفین میں شرکت کرتے ہیں یا پھر دکھی خاندانوں سے ملاقات کرتے ہیں، حتیٰ کہ ان کا اپنے قریبی دوستوں کے انتقال پر بھی یہی معاملہ رہا ہے۔ 

شومئی قسمت، عمران خان نے یہ کہہ دیا کہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر سکندر سلطان راجہ کو لگانے کیلئے نام نیوٹرلز نے دیا تھا۔ 

اس کے بعد یہ ہوا کہ سرکردہ حکمران جماعتوں، پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اب عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بتائیں کہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کیلئے نام دینے والے نیوٹرلز کا نام سامنے لائیں۔ 

جمعہ کو پیپلز پارٹی سندھ کے وزیر سعید غنی اور نون لیگ پنجاب کے رہنما ملک احمد خان نے کراچی اور لاہور میں اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان سے سوال کیا کہ اگر ہمت ہے تو ان نیوٹرلز کا نام بتا دیں۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ایک باخبر ذریعے کا کہنا تھا کہ اگرچہ عمران خان کی جانب سے اس معاملے میں نیوٹرلز کا حوالہ دینے سے یہ شک پیدا ہوا کہ شاید آرمی چیف نے انہیں سکندر سلطان راجہ کا نام دیا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے۔ 

ذریعے کا کہنا تھا کہ سکندر سلطان کا نام کسی اور نے تجویز کیا تھا اور یہ حقیقت نون لیگ اور پیپلز پارٹی والوں کو بھی پتہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ عمران خان کو چیلنج کر رہے ہیں کہ نیوٹرل کا نام بتائیں۔ جس وقت پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات زوال پذیر تھے، ڈاکٹر شیرین مزاری نے حال ہی میں افغانستان میں ہونے والے ڈرون حملے پر ٹوئیٹ کی کہ ’’پریشان کن سوال: امریکی ڈرون خلیجی ریجن کی طرف سے اُڑ کر افغانستان آیا ۔

 مان لیتے ہیں کہ پاکستان نے اب تک اڈے نہیں دیے (تاوقتیکہ حکومت نے ایسا چھپ کر کر دیا ہو) ۔ لیکن یہ ڈرون کس ملک کی فضائی حدود سے ہو کر گزرا؟ ایران نے امریکی فوج کو اپنی فضائی حدود کی اجازت نہیں دی تو کیا پاکستانی حدود استعمال ہوئیں؟ کیا یہی وجہ تھی کہ امریکی مطالبے پر ایبسولیوٹلی ناٹ کہنے پر وزیراعظم عمران خان کو ہٹانا پڑا؟ میں نے ہمیشہ امریکا کی طرف سے حکومت کی سازش کی بات جون 2021ء سے کی ہے۔ کافی شواہد ہیں۔‘‘ 

اُن کا جون 2021ء کی ٹوئیٹ کا حوالہ واضح تھا کہ وہ اپنی ٹوئیٹ میں کسے ہدف بنا رہی ہیں۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ دفتر خارجہ نے جمعرات کو واضح طور پر ان اطلاعات کو مسترد کر دیا کہ القاعدہ چیف ایمن الظواہری کو کابل میں مارنے کیلئے امریکی ڈرون حملے کیلئے پاکستانی فضائی حدود استعمال کی گئیں۔ امریکی میڈیا نے اطلاع دی کہ ڈرون کرغیزستان سے اُڑا تھا۔ 

تاہم، پی ٹی آئی کے کئی سوشل میڈیا فالوئرز نے شیرین مزاری کے شک کو اہمیت دی اور مسلسل یہ الزام عائد کیا کہ پاکستان نے ڈرون حملے میں امریکا کے ساتھ شراکت داری کی ہے اور اس معاملے کو آرمی چیف کی واشنگٹن کے ساتھ ہونے والی حالیہ بات چیت سے جوڑا۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری کو بھی اس معاملے سے جوڑ رہے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید