• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

4 ارب ڈالرز جلد مل جائینگے، سعودیہ، امارات اور قطر سے ملنے والے فنڈز سے زرمبادلہ ڈخائر میں اضافہ ہوگا،11 سے 12ماہ مہنگائی رہے گی، اسٹیٹ بینک

اسلام آباد (مہتاب حیدر، خبرایجنسی) گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر کامران مرتضیٰ نے کہاہےکہ 4ارب ڈالرز مل جائینگے،سعودیہ ، امارات اور قطرسے ملنےوالےفنڈز سے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوگا،11سے12ماہ مہنگائی رہے گی، زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو اگلے دو ماہ میں ختم ہوجائیگا، روپے کی قدر کومستحکم کرنے کیلئے متحرک رہیں گے،شہریوں کومشکل وقت کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہناچاہیے، 4 ارب ڈالرز کے مالیاتی خسارے پر بھی جلد قابو پالیں گے،ادھر وزیراعظم اور امیر قطر کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیاگیا،وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان میں سرمایہ کاری پرمتحدہ عرب امارات کے صدر کا شکریہ بھی ادا کیا۔ نمائندہ جنگ کےمطابق قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا ہے کہ پاکستان جلد ہی آئی ایم ایف کی شرط کے تحت دوست ممالک کی مدد سے 4ارب ڈالرز کی بیرونی فنانسنگ کو پورا کرے گا تاکہ گرتے ہوئے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بڑھایا جا سکے۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ مہنگائی اگلے 11سے 12مہینوں تک بلند حد میں برقرار رہے گی اس لیے مرکزی بینک نے رواں مالی سال 2022-23 کے لیے افراط زر کا ہدف اوسطاً 18سے 20فیصد کے درمیان رہنے کا تصور کیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے درمیان مانیٹری اینڈ فسکل کوآرڈی نیشن بورڈ کو ختم کرنے کے بعد بھی بہتر کوآرڈی نیشن میکنزم وضع کیا جا سکتا ہے،بین الاقوامی قرض دہندگان کا نقطہ نظر ہے کہ وزارت خزانہ مالیاتی پالیسی پر ڈکٹیٹ کر رہی ہے جس کی وجہ سے نئے ایکٹ کے تحت اس بورڈ کو ختم کر دیا گیا۔ دی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی 34سے 35ارب ڈالرز کی مجموعی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کر چکا ہے لیکن اس کے علاوہ اسلام آباد دوست ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی مدد سے 4 ارب ڈالرز کی آمد کی تصدیق حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ یہ اضافی ڈالر کی آمد کو غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کی پوزیشن میں اضافے کے لیے عمل میں لایا جائے گا تاکہ کسی بھی بحران جیسی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے ایک بفر بنایا جا سکے۔ وہ 4ارب ڈالرز کے فنانسنگ گیپ کو پورا کرنے کے لیے کوئی ٹائم فریم بتانے سے گریزاں تھے اور کہا کہ یہ بہت جلد ہو جائے گا۔ کوئی مخصوص ٹائم فریم دینے کے بجائے انہوں نے یہ کہتے ہوئے دلیل دی کہ اور رینٹ (overrent) اور آئی ایم ایف کے اعلیٰ افسران متعلقہ ممالک سے تصدیق حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ بہت جلد ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو فوری طور پر کنٹرول کرنے کے لیے کوئی جادوئی پٹی نہیں ہے اس لئے لوگوں کو اس مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ مشکل مرحلہ ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس سے زیادہ مشکل صورتحال سے بچا جائے جس میں ملک بے عملی کی صورت میں جاسکتا تھا، وہ سری لنکا کی طرز پر اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے کے لیے کبھی بھی غیر ضروری الفاظ استعمال نہیں کریں گے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ذمہ داری سے برتاؤ کیا اور آئی ایم ایف کے پاس واپس جانے کو ترجیح دی اور یوٹیلیٹیز کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا جبکہ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کی کافی مقدار موجود ہے۔ زیادہ مہنگائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے رائے دی کہ بین الاقوامی سپلائی میں رکاوٹوں نے اشیاء کے بین الاقوامی سپر سائیکل کے لیے راہ ہموار کی اور پاکستان کے پاس خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے زرعی پیداوار پر توجہ دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے درآمدات کیلئے ایل سیز کھولنے پر کیش مارجن کی شرائط میں نرمی کی اور ان لوگوں کو مراعات فراہم کیں جو کچھ عرصے کے لیے ایل سیز کھولیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے تجارتی پابندیوں کی مخالفت کی اور انہوں نے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی سے بچنے کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے ۔ اب امید کی جا رہی ہے کہ غیر ملکی ذخائر پر موجودہ دباؤ اگلے دو ماہ میں ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے درآمدی بلوں پر دباؤ کم کرنے کے لیے توانائی کے تحفظ کی بھی وکالت کی۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان ملک کے ساختی مسائل کو دور کیے بغیر معاشی اتار چڑھاؤ کے چکروں کا سامنا کرتا رہے گا۔ ایک حالیہ مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک نے جی ڈی پی کی شرح نمو 6فیصد حاصل کی تو معیشت کے زیادہ گرم ہونے کے نتیجے میں عدم توازن پیدا ہوا جسے بجٹ خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کساد بازاری موڈ کے قریب نہیں ہیں لیکن معیشت کو محتاط انداز میں سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے مہنگائی کا ہدف 11فیصد رکھا ہے لہٰذا اسٹیٹ بینک کی کارکردگی کا اندازہ اس وقت لگایا جائے گا جب آپ نے 18سے 20فیصد کی حد میں افراط زر کا تصور کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر کے ہدف کو سالانہ بنیادوں پر نہیں، درمیانی مدت کی بنیاد پر ناپا جا سکتا ہے۔ دوسرا حکومت نے اپنا ہدف 11فیصد مقرر کیا لیکن اسٹیٹ بینک نے اپنی سفارشات دی تھیں اور آخر کار مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کی رپورٹ کے موقع پر اپنے موقف کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے عدم توازن پیدا کرنے کی مختلف وجوہات پر روشنی ڈالی لیکن اس پر زور دیا کہ دوسرے ممالک کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے 34ارب یا 35 ارب ڈالرز کا فنانسنگ گیپ اتنا بڑا نہیں لیکن پاکستان کے معاملے میں یہ درد سر بن گیا کیونکہ اس مالیاتی فرق کو پورا کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری بن گئی۔دوسرے ممالک کے معاملے میں انہوں نے کہا کہ ملک کے نجی شعبے نے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرکے بیرونی مالیاتی فرق کے کچھ حصے کو پورا کرنے میں مدد کی۔ شرح مبادلہ کے بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے کچھ انتظامی اقدامات کیے اور بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کا آن سائٹ معائنہ کیا اور ان لوگوں پر جرمانہ عائد کردیا جو کسی بھی غلط کام میں ملوث تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے مداخلت کی تھی اور اگر ایکسچینج ریٹ کے سامنے کوئی بے ترتیب حرکت پائی گئی تو وہ مداخلت کرتا رہے گا۔ انہوں نے اس تاثر کو زائل کیا کہ آئی ایم ایف نے شرح مبادلہ کے پیش نظر کوئی مخصوص شرح دی ہے اور دلیل دی کہ روپے کا انتظام مصنوعی طور پر نہیں کیا جائیگا لیکن قیاس آرائی کرنیوالوں کو وہ کرنیکی اجازت نہیں دی جا سکتی جو وہ کرنا چاہتے ہیں لہٰذا مرکزی بینک شرح مبادلہ کی بے ترتیب حرکت کو روکنے کے لیے کارروائی کرنے کے لیے چوکس رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو معاشی اتار چڑھاؤ میں مستقل ڈوبنے کیلئے برآمدات اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو قرضوں کے بحران کا سامنا نہیں ہے اور اس کا مجموعی عوامی قرض اب بھی قابل انتظام حالت میں ہے تاہم اس کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت اس صورتحال تک بڑھ گئی جب دنیا اشیاء اور پی او ایل کی قیمتوں کے سپر سائیکل کا سامنا کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے پاس ساڑھے 8ارب ڈالرز لیکوئیڈ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر ہیں اور اس میں سونے کی شکل میں 4ارب ڈالرز شامل نہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اگر یہ لیکوئیڈ ذخائر نہیں ہیں تو آئی ایم ایف کو اس پر اعتراض اٹھانا چاہیے تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں یہ حالیہ بحران کیسے پیدا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ ایندھن کی سبسڈی ایک غلط فیصلہ تھا جس نے آئی ایم ایف کو ناراض کیا۔ دوسرا 2021-22کے لیے گزشتہ مالی سال کا بجٹ بھی توسیعی پالیسیوں کا نتیجہ تھا تو مانیٹری پالیسی بھی وقت کی تاخیر کے ساتھ عمل میں آئی۔ انہوں نے کہا کہ ڈیٹا کی دستیابی میں تاخیر ہے لہٰذا اس کے نتیجے میں پالیسی سازوں کو ابھرتی ہوئی معاشی حقیقتوں کا جواب دینے میں کچھ وقت لگا۔ ان کا خیال ہے کہ ایس بی پی کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کیلئے ان پالیسی اقدامات پر نظرثانی کرنی چاہیے جو اس نے کووڈ 19وبائی امراض کے بعد کیے تاکہ مالیاتی محاذ پر مستقبل کی پالیسی کارروائی میں غلطیوں سے بچا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت یا سیاسی محاذ پر بے یقینی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، اس لیے ملک کو معیشت کو بحرانی موڈ سے نکالنے اور اعلیٰ اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پالیسیوں کے محاذ پر غیر یقینی اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ایک سے دو دہائیوں تک مستقل بنیادوں پر زیادہ ترقی کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم محمد شہباز شریف اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے درمیان اتوار کو ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔وزیر اعظم آفس میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا، قطر اور پاکستان کے درمیان قریبی اور خوشگوار تعلقات ہیں۔ قطر میں موجود 2لاکھ سے زائد پاکستانی قطر اور پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔\ادھر وزیراعظم محمد شہباز شریف نے متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان کا پاکستان میں سرمایہ کاری پر شکریہ ادا کیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنے ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا کہ میں اپنے بھائی عزت مآب شیخ محمد بن زاید النہیان کا شکر گزار ہوں کہ متحدہ عرب امارات پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ دونوں برادر ممالک اپنے کثیر جہتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں۔

اہم خبریں سے مزید