• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ممنوعہ عطیات پر الیکشن کمیشن پاکستان کافیصلہ

تحریر:حمیداللہ بھٹی ۔۔۔۔راچڈیل
طویل سماعت کے بعدپولیٹکل پارٹیز آرڈر 2022کی دفعہ 6 کے تحت الیکشن کمیشن پاکستان نے ممنوعہ عطیات کا فیصلہ سنا دیا، اِس فیصلے کی روشنی میں تحریک انصاف کو کافی نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ نہ صرف پارٹی کے سربراہ کے طور پرعمران خان کے جمع کرائے گئے بیانِ حلفی غلط قرار دیئے گئے بلکہ پی ٹی آئی کو غلط وصولیاں ضبط کرنے کا شوکاز نوٹس بھی مل چکا ہے جس سے جماعت کے لیے مقبولیت برقراررکھنے میں مشکلات پیداہوں گی بظاہر پی ٹی آئی رہنما اِس فیصلے کو بہت نرم سمجھ رہے ہیں بلاشبہ شوکاز اور ممنوعہ عطیات ضبط کرنے کے حوالے سے دیکھیں تو یہ فیصلہ زیادہ سخت نہیں کیونکہ جماعت کے کالعدم ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے مگر عطیات کی بابت جمع کرائے جانے والے پارٹی چیئرمین عمران خان کے بیانِ حلفی کوغلط قرار دینے کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں، اِس ایک فیصلے سے اب عمران خان بھی اس پوزیشن کے قریب آگئے ہیں جس پر ملک کی دیگرمقبول قیادتیں ہیں،خود کو صادق و آمین ثابت کرنے کا انھیں بھی مرحلہ درپیش ہے اگر وہ جمع کرائے بیانِ حلفی کو درست ثابت نہیں کر پاتے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے جھوٹا قرار پانے پر کوئی بڑی عدالت سے رجوع کرتا ہے تو نااہلی کا سامنا کرنا ہوسکتا ہے، ایسا ہونے سے ایک تو ان کی ایمانداری اور دیانت داری کا تاثر ختم ہو گا دوسرا ملک کی دیگر سیاسی قیادت کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ عمران خان جو کہتے ہیں اس پر خود عمل نہیں کرتے قول و فعل کا یہ تضاد واضح ہونا ان کو، ان کے چاہنے والوں کی نظروں سے گرانے کا باعث بن سکتا ہے۔ پی ٹی آئی پہلے ہی چیف الیکشن کمیشنر پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر چکی ہے، عمران خان و دیگر پارٹی رہنما کہتے ہیں کہ وہ ان سے بھی دیگر جماعتوں کی قیادت کی طرح سلوک کریں وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن سب سے مساوی سلوک کی بجائے ان کو خاص طور پر ٹارگٹ کررہا ہے ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پی پی ،ن لیگ ، جمعیت علمائے اسلام اورایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ملنے والے عطیات کا بیک وقت جائزہ لے کرایسا غیرجانبدارانہ فیصلہ کیا جائے جسے سب تسلیم کریں، پی ٹی آئی کے یہ مطالبات جائز اور مناسب ہیں ایسا کرنے میں کوئی خاص قباحت نہیں کیونکہ اِس حوالے سے الیکشن کمیشن میں مختلف درخواستوں کی سماعت جاری ہے مگر بتانے والی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ عطیات کا فیصلہ اس کی کسی حریف جماعت کی ایما پر نہیں ہوابلکہ اِس کے مدعی اکبر ایس بابر ہیں جن کا شمار پی ٹی آئی کے بانی اراکین میں ہوتا ہے، اس لیے یہ کہنا کہ شوکاز دلانے میں کسی حریف جماعت کی سازش یا دبائو کا عمل دخل ہے مناسب نہیں، بلکہ یہ لنکا گھر کے بھیدی نے ڈھائی ہے، پی ٹی آئی کو حالات کا دھارا انتہائی نازک موڑاور بھنور میں لے آیا ہے جس سے بچنا اسی صورت میں ممکن ہے کہ قیادت محض بیان بازی پر زوردے کر خود کو سچا ثابت کرنے کی بجائے قانونی ماہرین کے ذریعے حالات کا سامنا کرے اور قانونی دلائل سے خود کو راست گو ثابت کرے وگرنہ عطیات سے محرومی کے ساتھ پارٹی چیئرمین کی نااہلی کا خطرہ زیادہ دور نہیں رہا ۔ ممنوعہ عطیات کیس میں پی ٹی آئی کو جو سب سے بڑاریلیف ملا ہے وہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے کم از کم یہ تسلیم کر لیا ہے کہ رقوم کو بیرونی عطیات کہنا مناسب نہیں البتہ یہ ایسے ممنوعہ عطیات ہیں جن کی عطیہ کردہ رقوم پر کئی قسم کے سوالات ہیں جن کے مناسب جواب نہ دے کر پارٹی نے ایک جرم کرنے کے بعد دوسرا جرم کیا ہے، ممکن ہے اس کی وجہ جماعت کی فلاحی سرگرمیاں ہوں جن کے لیے لوگ بڑی تعداد میں عطیات جمع کراتے ہیں پھر بھی رقوم چھپانے کے لیے عمران خان کے جھوٹے بیانِ حلفی کا سہارا لینے کی منطق ذہن تسلیم نہیں کرتا اگر کیس کے آغاز پر ہی جماعت اور فلاحی اِداروں کی تفصیلات الگ الگ پیش کی جاتیں تو ممکن ہے ایسا فیصلہ سامنے نہ آتا مگر لاپروائی اور غیر سنجیدگی کی بنا پر دوقسم کے نقصانات کا سامنا ہے اول عطیات کی ضبطگی یقینی ہے دوم عمران خان کسی بھی وقت کسی عدالت سے نااہلی کی زد میں آسکتے ہیں، پی ٹی آئی کے اکابرین کا موقف ہے کہ اِس فیصلے کے پسِ پردہ حکمران اتحاد ہے اور حکومتی دبائو پر ہی الیکشن کمیشن نے دیگر جماعتوں سے پہلے پی ٹی آئی کے بارے میں یہ فیصلہ سنایا ہے اسی بنا پر چیف الیکشن کمیشن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے پربھی کام جاری ہے مگر سنجیدہ حلقے اِس رویے کو مسائل کی گرداب میں مزید دھنسنا قرار دیتے ہیں۔
یورپ سے سے مزید