• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی میڈیا کے مبصرین اور مجموعی طور پر معاشرہ صدمے سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی تیز اور اچانک گراوٹ ہوئی۔افراط زر کی شرح 24فیصدتک جاپہنچی ۔زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، کرنٹ اکائونٹ کا غیر متوقع حد تک وسیع خسارہ، پالیسی ریٹ میں مسلسل اضافہ جس کا اثر بینکوں کے قرضے کی شرحوں پر ہوتاہے، بیرونی ممالک سے ترسیلات میں سست روی، لسٹڈ کمپنیوں کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں کمی نے مل کر خوف و ہراس کی صورتحال پیدا کر دی ۔ پریشان کن اور غیر یقینی صورت حال میں غیر ملکی کرنسی مارکیٹ میں سٹہ بازوں کے رحم و کرم پر چلی گئی۔اس سے ڈالر کی مانگ میں اس کی حقیقی مارکیٹ کی طے شدہ قدر سے زیادہ اضافہ ہونے لگا۔ برآمد کنندگان اپنی کمائی کو اس سے بھی بہتر شرح میں تبدیل کرنے کی امید لگابیٹھے،جولائی کی برآمدات میں کمی اس رجحان کی گواہی دیتی ہے۔ درآمد کنندگان ڈالر کی اپنی معمول کی مانگ کو بڑھانے کے خواہشمند ہیں تاکہ مستقبل میں روپے کی قدر میں گراوٹ سے پیدا ہونے والے مزید نقصانات کو روکا جا سکے۔ اشیائے ضروریہ کی منڈی میں طلب اور رسد کا نظام بگڑ گیا۔ جولائی 2018سے مارچ 2022 تک روپے کی قدر میں مجموعی طور پر 35 فیصد کمی ہوئی جبکہ گزشتہ ساڑھے 3 ماہ میں یہ گراوٹ 40 فیصد تھی ،جو انتہائی غیر معمولی ہے ۔

اس مضمون کا مقصد اس بات کا احاطہ کرنا ہے کہ آیا یہ غیر معمولی حرکات مالیاتی بحران (یعنی پہلے سے طے شدہ)، لیکویڈیٹی بحران کا نتیجہ ہے یا محض غیر ضروری خوف اور غلط فہمیوں سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ کی وجہ سے صورت حال اس نہج تک پہنچ گئی۔ مالی حوالے سے آئی ایم ایف کی فروری 2022 کے آرٹیکل 4کی مشاورتی رپورٹ میں قرض کا تازہ ترین تجزیہ دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق حکومتی قرضوں کی سطح نیچے گرے گی بشرطیکہ پاکستان توسیعی فنڈ سہولت کے تناظر میں طے شدہ ایڈجسٹمنٹ کے راستے پر عمل کرے۔

زرمبادلہ کی آمدنی کے حوالے سے اقتصادی بنیادی باتیں اشیا اور خدمات کی برآمدات میں 27 فیصد اور اندرون ملک ترسیلات زر میں 6 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ جون 2022 میں ختم ہونے والے مالی سال میں کل کمائی غیر ملکی زرمبادلہ میں75 بلین ڈالر رہی جو پچھلے سال کے 67 بلین ڈالر کے مقابلے میں 12 فیصد کا مثبت فرق ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد ملک کے بیرونی قرضوں اور واجبات کی ادائیگی کی صلاحیت کا اظہار کرتی ہے۔ پاکستان اجناس کی مارکیٹ کو لگنے والے بیرونی جھٹکے کے باوجود 16 بلین ڈالر کی اصل رقم مع سود واپس کرنے میں کامیاب رہا ۔ اس دوران ایندھن اور خوراک کی قیمتوں میں دوگنا اور تین گنا اضافہ ہوا۔ ایڈجسٹمنٹ کے راستے پر رہنے کے لیے پالیسی اقدامات کیے گئے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی واپس لے لی گئی ہے۔ پی او ایل کی مصنوعات پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی لگا دی گئی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں ری بیسنگ، ماہانہ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ اضافہ کیا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ میں جی ڈی پی کے 2.5 فیصد اضافی ٹیکسوں کے ساتھ نظر ثانی کی گئی ہے، صوبوں کو 700 ارب روپے نقد سرپلس کے طور پر منتقل کیے گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں پرائمری بجٹ میں جی ڈی پی کا 0.4 فیصد سرپلس ہوگا۔

افراط زر کے دباؤ کی روشنی میں پالیسی ریٹ میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ زر مبادلہ کی شرح کا تعین مارکیٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے، اسٹیٹ بینک کے ذریعے طے نہیں کیا جاتا ۔عوامی سطح پر ہونے والی گفتگو میں قرض کے بوجھ کو جس طرح سے پیش کیا گیا ہے وہ کئی وجوہات کی بنا پر انتہائی ناقص ہے۔ قرضوں کے بوجھ کے بارے میں بھی سنگین غلط فہمی پائی جاتی ہے کیونکہ 47 ٹریلین روپے کے اعدادوشمار کی تشہیر اکثر کی جاتی ہے۔ 2008 - 2013 کی مدت میں مجموعی قرضوں کے ذخیرے میں دوبارہ اضافے کا موازنہ 2014-2018 اور 2018 - 2022 کے ساتھ کیا گیا۔

سب سے پہلے، کل قرض کاکل حجم اور واجبات ملکی قرضوں اور بیرونی قرضوں کا مجموعہ ہے۔ تیزی سے گرتی ہوئی شرح مبادلہ کے نظام میں روپے کی شرح گرنے سے بیرونی مجموعی قرضوں کا حجم بڑھتا جائے گا چاہے ایک ڈالر کا اضافی قرض نہ لیا جائے۔ اپوزیشن میں موجود ہر جماعت حکمران جماعت کو ان کے غیر ذمہ دارانہ رویے، نااہلی اور بدانتظامی سے پاکستانی عوام پر قرضوں کا بوجھ بڑھانے پر طعنہ دیتی۔ یہ الزام تراشی کا کھیل حکومت میں تبدیلیوں کے ساتھ بھی جاری ہے۔اس میں صرف فریقین کی تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے ، الزامات کی نوعیت ایک سی رہتی ہے ۔

دوسرا، ملکی قرضوں کے خطرات بیرونی قرضوں سے بالکل مختلف ہیں۔ جب کہ دونوں بجٹ کے مقاصد کے لیے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ ان سے یقیناً مالیاتی توازن متاثر ہوتا ہے۔ لیکن دونوں کے رسک پروفائل ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ملکی قرضہ روپوں میں ادا کرنا پڑتا ہے جسے پرنٹ کیا جا سکتا ہے یا مرکزی بینک ریزرو منی بنا کر اپنی بیلنس شیٹ پر ان ذمہ داریوں کو ادا کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکنہ افراط زر کا دباؤ پیدا کیا جائے گا لیکن ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ،جو کہ غیر ملکی کرنسی کے قرض کی صورت میں ایک حقیقی خطرے کے طور پر موجود رہتا ہے ۔ جن ممالک کو قرضوں کے بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے انھیں غیر ملکی کرنسی کی کمی کا سامنا تھا۔ وہ قرض ادا کرنے کے لیے غیر ملکی کرنسی فراہم نہ کرسکے ۔ جون 2022 تک پاکستان کے کل قرضوں اور واجب الادا ارقوم کے حجم کا ذخیرہ 60 فیصد ملکی اور 40 فیصد بیرونی قرضوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے ممکنہ ڈیفالٹ پر بحث بیرونی قرضوں اور واجبات اور اس قرض کو وقت پر ادا کرنے کی صلاحیت پر مرکوز ہونی چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین