• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی تعلقات :نئے حقائق اور ہماری قومی ضرورت...آئین نو۔۔۔۔۔ڈاکٹر مجاہد منصوری

آج کی دنیا میں بین الاقوامی تعلقات کی تین عملی شکلیں ہیں۔
(۱) ایسے منتخب ملکوں سے دو طرفہ تعلقات جن سے ایک ملک کے اہم قومی مفادات وابستہ ہوں۔ بہت سازگار صورت ہوتی ہے کہ ان منتخب ممالک کے اہم قومی مفادات بھی اس سے منسلک ہوں۔
(۲) تیزی سے فروغ پاتی دوسری شکل کسی مخصوص خطے (جیسے جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا وغیرہ) میں واقع ممالک کے باہمی تعلقات ہیں، یہ مخصوص خطے میں واقع ممالک اور پورے خطے کے اقتصادی استحکام بذریعہ ’’منافع بخش تجارتی سرگرمیاں‘‘ اور ہر ملک کے داخلی امن کی ضرورت ہیں۔ یورپی یونین، آسیان، افریقی یونین اور گلف کوآپریشن کونسل (جی سی سی) کے ممالک ریجنل ارینجمنٹ (علاقائی تعاون) کی یہ ہی اپروچ اختیار کرنے کے یکساں benificiary بنے۔
(۳) بین الاقوامی تعلقات قائم کرنے کی تیسری عملی شکل زیادہ سے زیادہ ممالک سے (بمطابق) خوشگوار تعلقات قائم کرنا ہے تاکہ ایک ملک کا بین الاقوامی امور میںاثر بڑھے اور اس کے بارے میں اقوام کی رائے مثبت ہو۔ فارن ریلیشنز کو اپنے حق میں منیج کرنےکے لئے کسی ملک کی ایسی بین الاقوامی قبولیت کی اپنی اہمیت ہے۔
اب جبکہ ہم اپنے بین الاقوامی تعلقات کی نئی صف بندی کے عمل میں آچکے ہیں بہتر عمل کے لئے ہمیں بین الاقوامی تعلقات کے نئے (نظری) فریم کوپیش نظر رکھنا ہے کہ یہ فریم اب عمل کی شکل میں ہے۔ ہمارے (خارجہ) پالیسی سازوں کو بین الاقوامی تعلقات کے نئے رجحانات اور اپروچز کو بھی سمجھنا ہے جن کا تعلق کامیاب خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اہداف حاصل کرنے میںاس کی کامیاب حکمت ہائے عملی سےہے۔ بلاشبہ ہمارے فارن پالیسی میکرز اور اس کی پریکٹس کرنے والے سفارتکار بین الاقوامی تعلقات کے نئے رجحانات اور ہیت نیز خارجہ پالیسی کی سائنس کے نظری علم سے بخوبی واقف ہیں، لیکن اب یہ ناکافی ہے کہ فقط وہ ہی اس سے واقف رہیں۔ پاکستان جمہوریت کی طرف گامزن ہے۔ اس مشکل سفر میں عوام کو بڑی مایوسیاں اور صدمات بھی برداشت کرنے پڑ رہے ہیں، لیکن پاکستانی پھربھی یہ راہ ترک کرتے نظر نہیں آتے جسے انہوںنے بڑی مشکلات سے گزرنے کے بعد اختیار کیاہے۔ یہ صورت تقاضہ کرتی ہے کہ خارجہ پالیسی سمیت تمام ریاستی امور میں ان کا شیئر حقیقی معنوں میں ہو۔ وہ دن گئے جب خارجہ پالیسی کی تشکیل اور عملداری کم وژن کے حامل فوجی اور سول حکمرانوں اور ان کے ملازم سفارتکاروں تک محدود تھی۔ بین الاقوانی تعلقات اور خارجہ پالیسی کے روایتی ڈیزائنرز کی یہ اپروچ اب نہیں چل سکتی کہ ’’خارجہ امور کو رائے عامہ کے تابع نہیں کیاجاسکتا‘‘ اوپر کے فارن پالیسی میکرز اور ڈپلومیٹس کی Cold Interllectual Calcolations اور رائے عامہ میں ایک توازن مطلوب ہے۔ ہمیں سیکھنا ہے کہ یہ توازن کیسے قائم ہوتا ہے۔ ایک جمہوری ملک کے بین الاقوامی تعلقات میں کامیابی کی اس نئی حقیقت کو شاید اس طرح بہت آسانی سے سمجھاجاسکتا ہے کہ ہم اور دوسرے جمہوریت پذیر ممالک یہ سمجھیں کہ امریکہ جیسی طاقت کی انتظامیہ بھی خارجہ پالیسی کی تشکیل اور بین الاقوامی تعلقات کے نئے چیلنجز سے نبٹنے میںپرانی اپروچ کے مطابق رائے عامہ کو نظرانداز کرکےخسارے میں رہی۔ یہ ثابت کرنا اس کالم کاموضوع نہیں لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے بہت کچھ عالمی منظراور امریکہ کی موجودہ داخلی صورتحال میں موجود ہے۔
پاکستانی حکومت، پارلیمینٹ، روایتی اسٹیبلشمنٹ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو بین الاقوامی امور (اور داخلی بھی) میں رائے عامہ کی طاقت پکڑتی حقیقت کو تسلیم کرلینا ملک و قوم اور خود ان کے اپنے وسیع تر مفاد میں ہے۔ دوسری جانب عوام میں اس اہم ترین ضرورت کا شعور پیدا کرنا ناگزیر ہو گیا ہے کہ ایک موضوع پر تشکیل ہوئی رائے عامہ کو (محدود اختلاف کے باوجود) قومی موقف میں کس طرح ڈھالا جاسکتاہے۔ اس تناظر میں دو اہم قومی ضروریات کو پورا کرنے میں پاکستان کو حال ہی میں خوشگوار تجربات ہوئے ہیں۔ اس طرح کہ ’’ڈرون حملوں کی بندش‘‘ اور ’’طالبان سے مذاکرات‘‘ ہر دوقومی موقف وسیع تر رائے عامہ کے نتیجے میں تشکیل پائے۔ اب امریکی میڈیا اوراس کے سرکاری عہدیداروں کے ان انکشافات کی اہمیت بہت کم رہ گئی ہے کہ ’’ڈرون حملوں کا فیصلہ صرف امریکی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ پاکستان اور امریکہ کی حکومتوں کاباہمی فیصلہ تھا‘‘ ان کے غیرقانونی ، غیرانسانی اور پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہونے کی پاکستانی اور عالمی رائے عامہ، اس تلخ حقیقت (اگر یہ ہے ہی) پر حاوی ہے کہ پاکستان کی حدود میں ڈرون حملے دونوں حکومتوں کا باہمی فیصلہ تھا۔ اسی طرح طالبان سے مذاکرات کے سوال پر پاکستان میں کھلی بحث ہوئی اور اس میں میڈیا نے اہم اور مطلوب کردارادا کیا۔ اسی کے نتیجے میں ’’طالبان سے مذاکرات‘‘انسداد ِ دہشت گردی کے لئے قومی موقف بنا ہے جو برقرار ہے۔ پاکستان کا یہ موقف پاکستان کو دہشت گردی سے، طالبان کو ان کی مشکلات اور خود دلدل میں پھنسے افغانستان اور امریکہ کو ان کی موجودہ تکلیف دہ صورتحال سے نکالنے کی راہ ہے جو خود امریکہ نے بھی اختیار کی ہے۔ اس کے مقابل اب اپنے الگ تشخص پر چوکس رہنے والے دانشوروں کے محدود اختلافات کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس راہ کی طرف بڑھنے اور پہلا قدم اٹھانے تک کی اپنی مشکلات اور پیچیدگی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’مذاکرات‘‘ سے امریکہ اور پاکستان دونوں کے لئے اپنے اپنے مسائل کا حل نکالنے کی راہ امریکی حکومت کو امریکی اور پاکستان کی حکومت کو پاکستانی عوام کے سچے اور کھرے موقف نے ہی دکھائی ہے۔ اب امریکہ میں بھی افغانستان میں جنگ و جدل کو جاری رکھنے کی عوامی حمایت کی ڈگری اتنی ہی گر چکی ہے جس طرح موسم سرما کی آمد پر تیزی سے چڑھا ٹمپریچر گرتا ہے۔ امریکی انتظامیہ اور عوام دیکھنے والے ہیں کہ تازہ ترین عوامی احساسات و جذبات، جو رائے عامہ میں ڈھل کر قومی موقف بنتے جارہے ہیں، کے تابع ہونے والے فیصلے امریکی حکومت اور عوام کو نجات اور نئے اور پرامن اہداف کے حصول کی جدوجہد میں داخل کریں گے، گویا وہ ارتقا کا ایک نیا سفر شروع کرنے کو ہیں۔
یہ امید افزا صورتحال پاکستانیوں کے لئے ایک حساس چیلنج ہے جس سے ضرورت کے مطابق نپٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم بین الاقوامی تعلقات کی ظہور پذیر حقیقتوںکو سمجھیں۔ پارلیمینٹ، میڈیا، تجزیہ نگاروں اور دوسرے رائے سازوں کی سطح تک خارجہ پالیسی کی سائنس کے بنیادی علم کو سمجھیں تاکہ ہم خارجی تعلقات کی ترجیحات کے تعین، اس ضمن میں اہداف کے حصول اور کامیابیوں کو برقرار رکھنے اور ان میں وسعت پیداکرنے کی قومی جدوجہد میں عوام کے شیئر کو ممکن بنا سکیں۔ یہ شیئر جب ہی کوالٹی شیئر ہوگا جبکہ فارن پالیسی سائنس کے فہم کو عام کر دیاجائے۔اس موضوع پر فقیر کے شیئر کو آئندہ سے تین چارکالموں میں ’’آئین نو‘‘ کی صورت میں پیش کیا جائے گا، جس پر سوال اور اہل نظر کی آرا ءاس قومی ضرورت کے حصول میں معاون ہوںگی۔
تازہ ترین