تحریک پاکستان سے لے کر قیام پاکستان کے بعد کے پچھتر سالوں میں پاکستان کے لئے گراں قدر خدمات انجام دینے والی خواتین کی اگر فہرست بنائی جائے توبہت طویل مرتب ہو گی ۔ان سر گرم خواتین نے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دیں ،جن کے بارے میں جانتے ہیں ۔مثلاً: شائستہ اکرام اللہ، لیڈی ہارون ،سلمٰی تصدیق حسین ،بیگم نسیم ولی وغیرہ۔ ذیل میں ہم اُن چار خواتین کی جدوجہد کے بارے میں مختصر بتارہے ہیں ،جنہوں نے بڑی دیدہ دلیری سے کام کیے۔ گرچہ اُس وقت خواتین پر بہت پابندیاں تھیں۔ تعلیم کے دروازے بھی بند تھے لیکن جن خواتین کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ، انہوں نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ اہم سماجی اور سیاسی کردار بھی ادا کیا۔
……فاطمہ جناح……
مادر ملّت اور خاتون پاکستان کا خطاب پانے والی محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات کو فرا موش نہیں کیا جاسکتا ۔انہیں ادب ،سیاست کے ساتھ سماجی کا موں میں بہت دل چسپی تھی۔ پرائمرید سے دندان سازی تک کی تعلیم بمبئی میں حاصل کی ۔1923میں دندان سازی میں ڈپلومہ حاصل لے کر بمبئی ہی میں پریکٹس کرنے لگیں۔ انہیں غیر منقسم ہندوستان کی پہلی خاتون دندان ساز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 1929میں بانی پاکستان کی بیگم رتی جناح کا انتقال ہوگیا تو فاطمہ جناح نے اپنے کام کو خیر باد کہہ کر بھائی کی سیاسی جدوجہد میں ہاتھ بٹانے لگیں۔وہ ہر جگہ قائد اعظم کے ساتھ جاتیں، ان کی میٹنگز طے کرتیں تھیں۔جب قائد اعظم قانون کی پریکٹس کرنے انگلینڈ گئے تو فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
1935تک وہاں مقیم رہیں۔1936-37کے انتخابات کے بعد جب قائد اعظم نے عورتوں کی ذیلی کمیٹی بحال کی تو فاطمہ جناح نے اس کمیٹی کے ذریعے آل انڈیا مسلم لیگ کو فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری میں ویمن ریلیف کمیٹی میں کام کیا۔ 1948ء میں مسلم ویمن انڈسٹریل ہوم قائم کیا۔ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کی کوششوں کے نتیجے میں عورتوں کی اقتصادی خود مختاری کے لئے ملک بھر میں انڈسٹریل ہومز کا جال بچھا دیا گیا۔ محمد علی جناح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فاطمہ جناح نے بھی عورتوں کی تعلیم کے لئے بہت کام کیے۔وہ اسپتالوں کو بھی عطیات دیتی رہتی تھیں۔
ایم رضا پیر بھائی نے اپنی کتاب ’’مادر ملت فاطمہ جناح میں لکھا ہے کہ ’’ اگر کبھی کوئی ماں اپنے بچے سے مایوس ہوئی ہو گی تو وہ فاطمہ جناح تھیں اور وہ بچہ پاکستان کی ریاست تھی جو اپنے قیام کے گیارہ سال بعد بھی یعنی 1958ءتک اپنے قیام کاجواز فراہم کرنے کے لئے بنیادی اقدامات نہیں اٹھا سکی تھی۔ فاطمہ جناح کا خیال تھا کہ عوام کو امور مملکت میں نمائندگی دی گئی اور نہ ان کے مسائل و ضروریات کا خیا ل رکھا گیا‘‘۔
قائد اعظم کے ساتھ فاطمہ جناح کی رفاقت اٹھائیس برسوں پر محیط ہے، جس میں آخری صبر آزما اور تھکا دینے والے انیس سال بھی شامل ہیں۔ناشتے یا رات کے کھانے کے وقت قائد اعظم ان سے مختلف مسائل پر بات چیت کرتے تھے۔ فاطمہ جناح بمبئی صوبائی مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کی ممبر بھی تھیں۔ 1947 ءتک اسی حیثیت سے کام کیا۔ ان کی کوششوں سے فروری 1941ء میں دہلی میں آل انڈیا مسلم ویمن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔1947ءمیں مہاجرین کی آمد پر انہوں نے ویمنز ریلیف کمیٹی بنائی، جو بعد میں اپوا کا حصہ بنی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انہیں جو لازوال مقام عطا کیا ،وہ 1965ءکے صدارت انتخابات تھے۔ 1962ءکے آئین کو فاطمہ جناح نے’ ’ون مین شو‘‘ قرار دیا تھا۔ آمریت کا دور طویل ہو چلا تھاکہ 1965ءکے صدارتی انتخابات کا وقت آ گیا۔ حزب اختلاف کی کوئی بھی جماعت تنہا ایک مضبوط آمر کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔چنانچہ ایک مشترکہ حزب اختلاف بنائی گئی، جس نے ایوب خان کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
سوال یہ تھا کہ کس کو امیدوار بنایا جائے۔ قرعہ فال فاطمہ جناح کے نام نکلا، بقول شخصے حکومت کے پاس کوئی ایسی ہتھکڑی نہیں تھی جو فاطمہ جناح کے ہاتھ میں ڈالی جا سکتی۔ اس زمانے میں کراچی میں جہاں بھی حزب اختلاف کا جلسہ ہوتا تھا، حکومت اس علاقے کی بجلی منقطع کر دیتی تھی چنانچہ بیگم اختر سلیمان نے اپنے گھر لکھم ہائوس میں بہت سی لالٹینیں منگوا کر رکھی لیں۔ جب حزب اختلاف فاطمہ جناح کو راضی کرنے میں کامیاب ہو گئی تو لکھم ہائوس میں ہونے والی میٹنگ میں سوال یہ اٹھا کہ ان کا انتخابی نشان کیا ہونا چاہئیے اور وہاں موجود لالٹینوں کو دیکھ کر خیال آیا کہ انتخابی نشان لالٹین رکھتے ہیں۔
حکومت کے خلاف جتنے بھی اتحاد بنے ان میں سب سے اہم کردار نواب زادہ نصراللہ خان کا ہوتا تھا۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے فاطمہ جناح کا نام تجویز کیااور ان کو راضی کرنے میں بھی اہم کردار ان کا ہی تھا۔ پوری دنیا میں یہ خبر حیرانی اور مسرت سے سنی گئی کہ ایک 71 سالہ سفید بالوں والی دبلی پتلی عورت ایک مضبوط آمر کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اتری ہے۔ فاطمہ جناح کامیاب جلسوں کو دیکھ کر حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور وہ گھٹیا ہتھکنڈوں پر اتر آئی۔ ان پر ملک کے خلاف سازش اور غداری کے الزامات لگائے گئے۔ انہیں سربراہ مملکت بننے سے روکنے کے لئے ایوب خان نے لاہور میں ہونے والی علماء کانفرنس میں 650 علما سے فتوے لیے۔ ان فتووں میں کہا گیا کہ، عورت کو سربراہ مملکت بنانا غیر اسلامی اور حرام ہےاور یہ ملک و قوم کے لئے تباہ کن ثابت ہو گا۔
اس کا جواب مشترکہ حزب اختلاف میں شامل امیر جماعت اسلامی نے دیا، ان کا کہنا تھا کہ مختلف مسلم فقہا کے مطابق، عورت سربراہ مملکت بن سکتی ہے۔ اس فتوے پر ایوب کے حامی علما نے مولانا مودودی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ساری سرکاری مشینری کو محترمہ کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ان کے حامیوں کو توڑا گیا، مگر ان حربوں سے عوام کے دلوں میں ان کی محبت کو کم نہ کیا جا سکا۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر نہیں بلکہ بالواسطہ ہو رہے تھے یعنی ملک بھر سے اسی ہزار بی ڈی ممبرز نے صدر کا انتخاب کرنا تھا۔ بنیادی جمہوریتوں کا نظام ایوب خان نے متعارف کروایا تھا، جب کہ عوام کا مطالبہ پارلیمانی نظام اور بالغ حق رائے دہی تھا۔
محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز 18ستمبر 1964 کو راولپنڈی میں عوام کے ایک بڑے مجمع سے کیا۔چار اکتوبر 1964کو وہ لاہور گئیں ،لاہور بار نے ان کی انتخابی مہم کے لئے عطیہ بھی دیا۔ فاطمہ جناح نے اپنی انتخابی مہم جس توانائی اور متحرک انداز میں چلائی اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے ،کم ہے۔ سرکاری وسائل اور دھونس دھاندلی کی بنا پر ایوب خان الیکشن جیت گئے لیکن عوام نے محترمہ کو ہی فاتح مانا اور ان کے دلوں میں بھڑکتا ہوا لاوا اس وقت بہہ نکلا جب 1968ء میں بھٹو نے ایوب خان کے خلاف بغاوت کی اور اپنی پارٹی بنائی۔ انتخابات میں شکست کے بعد فاطمہ جناح تقریباََ گوشہ نشین ہو گئی تھیں کبھی کبھار سماجی تقریبات میں شرکت کرتی تھیں۔ 8جولائی 1967ءکو دنیا سے رخصت ہوئیں۔ آج بھی بہت سے لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی موت فطری تھی۔
…بیگم رعنا لیاقت علی خان…
بیگم رعنا لیاقت علی خاں کا کردارپاکستان کی تاریخ میں نا قابل فراموش ہے۔’ ’ وہ ایک ذہین اور وژنری خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز ماہر اقتصادیات، ایک بہترین منتظم اور سفارت کار بھی تھیں۔ 1947-51کے دوران وہ پاکستان کی خاتون اول رہیں۔ انہوں نے لکھنو سے پہلے مذہبی اسٹڈیز میں اور پھر اقتصادیات میں بی اے کیا۔ بعدازاں اقتصادیات اور عمرانیات میں ڈبل ایم ایس سی کیا۔ ان کے تحقیقی مطالعے کا موضو ع تھا ’’یو پی میں زراعت کے شعبے میں خواتین کا کردار‘‘ کے موضوع پر تحقیق کی، جس کی وجہ سے انہیں دیہی خواتین کے مسائل سے واقفیت ہوئی۔
قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری کے ساتھ اپوا کے پلیٹ فارم سے خواتین کی اقتصادی خود مختاری کے لئے مسلسل کام کیا۔ وہ تحریک پاکستان میں بہت سرگرم تھیں، انہوں نے طلبہ کو متحرک کیا اور عورتوں میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ وہ بھی سیاسی عمل میں شریک ہو سکتی ہیں۔
1936میں جب لیاقت علی خان آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری بنے تو ان کی سیاسی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔1942 ءمیں جب ایسے لگ رہا تھا کہ جاپان ہندوستان پر حملہ کر سکتا ہے تو قائد اعظم نے بیگم رعنا سے کہا کہ عورتوں کو تربیت دینے کے لئے تیار رہو۔ اسلا م نہیں چاہتا کہ عورتیں گھروں میں بند رہیں اور انہیں تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع نہ ملے۔‘‘چنانچہ بیگم رعنا نے ابتدائی طبی امداد اور نرسنگ کے لئے ایک چھوٹی سی رضا کار میڈیکل کور بنائی۔ انہوں نے عورتوں میں سیاسی آگاہی پیدا کرنے کے لئے بھی بہت کام کیا۔ اور تحریک پاکستان میں حصہ لینے کے لئے عورتوں کی حوصلہ افزائی کی۔
خاتون اول بننے کے بعد انہوں نے عورتوں اور بچوں کی سماجی بہبود کے لئے بہت کام کیا۔پاکستانی عورتوں کی والینٹری سروس قائم کی ۔ مسلمان عورتیں جن کی اکثریت گھروں سے باہر نہیں نکلتی تھی ،وہ مہاجر کیمپوں اور اسپتالوں میں خدمات انجام دینے کے لئے باہر نکلیں۔ بیگم رعنانے پاک افواج کے فیصلہ سازوں کو بھی قائل کیا کہ وہ عورتوں کو ابتدائی طبی امدا د اور دفاعی تربیت دیں، اس کے لئے انہوں نے سہ ماہی اور ششماہی کورسز بھی تیار کئے اور پاک افواج نے میڈیکل کور بنایا۔ انہوں نے نرسنگ کا پیشہ اختیار کرنے کے لئے عورتوں کی حوصلہ افزائی کی۔پاکستان نیشنل گارڈز بنائی۔پاک افواج نے ان کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں بریگیڈئیر کا درجہ دیتے ہوئے اعزازی یو نیفارم بھی دیا۔
بیگم رعنا نے ایمپلائمنٹ بیورو،لاسٹ اینڈ فائونڈ بیورو، میرج بیورو،اغوا شدہ عورتوں کا گھراور بیوائوں کے لیے گھر نامی ادارے بھی قائم کئے جنہیں رضاکار خواتین چلاتی تھیں۔ بیگم رعنا بنفس نفیس ان رضاکارانہ سرگرمیوں میں شامل رہتی تھیں۔ مارچ 1948ءمیں انہوں نے پاکستان کایٹج انڈسٹریز ایسوسی ایشن قائم کی، تا کہ لاکھوں مردوں اور عورتوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔ جلد ہی رعنا لیاقت کرافٹسمین کالونی او ر پاکستان کایٹج انڈسٹریز ایمپوریم بنائے گئے۔
عورتوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے انہوں نے کراچی میں گل رعنا نصرت انڈسٹریل ہوم بنایا جہاں عورتوں کو ان کے کام کی اجرت کے علاوہ بونس بھی ملتا تھا۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے بھی ان کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کراچی میں ہوم اکنامکس کالج، لاہور اور ڈھاکہ میں اپوا ہوم اکنامکس کالج قائم کیا۔ انہوں نے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں عورتوں کے لئے تعلیم بالغاں کے مراکز اور دیگر تعلیمی و ترقیاتی ادارے قائم کئے۔
اپنے شوہر لیاقت علی خان کے قتل کے صرف اڑتالیس گھنٹے بعد انہوں نے فون پر سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ اسپتال کا افتتاح کیا اور کہا ’’اللہ ہی زندگی دیتا ہے اور اللہ ہی واپس لیتا ہے لیکن انسانیت کی خدمت کا فی سبیل اللہ کام جاری رہنا چاہیے۔‘‘ وہ1952میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کرنے والے پاکستانی وفد کی پہلی خاتون مندوب تھیں۔ 1954میں نیدر لینڈ 1965 میں اٹلی اور1966میں تیونس میں سفیر رہیں۔ بھٹو کے زمانے میں وہ سندھ کی پہلی خاتون گورنر مقرر ہوئیں‘‘۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان نے 1949میں آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن یعنی اپوا قائم کی۔ان کا کہنا تھا کہ عورت کا کردار کسی طرح مرد سے کم اہم نہیں ہے۔پاکستان کے بہت سے اضلاع میں اس کی شاخیں ہیں۔1952 میں روزویلٹ کے دورہء پاکستان کے دوران اپوا کی چیئر پرسن کی حیثیت سے بیگم رعنا نے انہیں بتایا کہ، پاکستان میں عورتوں کے حقوق کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ اسلام کی اساس انسانی حقوق کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ پاکستان کی پارلیمان نے بھی ان نظریات کو اپنایا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ عام عورتوں کو روزمرۂ زندگی میں جن تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،وہ اس آدرش سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن بیگم رعنا کی جدوجہد ان عورتوں کو ہمیشہ انسپریشن فراہم کرتی رہیں گی۔
ان کی قیادت میں اپواکو 1974میں تعلیم بالغاں کا ایوارڈ اور 1987میں امن کا پیامبر ہونے کا سرٹیفکیٹ ملا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے 1956کی آئین ساز اسمبلی میں عورتوں کی نمائندگی کے لئے نشستیں مخصوص کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔1961میں اپوا کی اراکین نے بیگم رعنا لیاقت علی کی قیادت میں عائلی قوانین کے لئے ایوب خان کی حکومت سے لابنگ کی۔ان قوانین کو پاکستان کی تاریخ میں عورتوں کے لئے بننے والے سب سے ترقی پسند قوانین کہا جاتا ہے۔
عورتوں کے حقوق کے لئے ان کی جدوجہد کے اعتراف کے طور پر اقوام متحدہ نے انہیں 1978میں انسانی حقوق کا ایوارڈ دیا۔اس سے پہلے اور بعد میں بھی انہیں بہت سے بین ا لاقوامی ایوارڈز ملے۔ وہ اپنی آ خری سانس تک پاکستان کے لیے کام کرتی رہیں ،نہ صرف پاکستانی عورتیں بلکہ مرد بھی ان کے کام سے متاثر ہوتے۔ انہیں ایک ایسی خاتون کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنہوں نے اپنے عہد کی ہر اہم تحریک میں حصہ لیا ، خواہ وہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک ہو یا قیام پاکستان کی یا پاکستانی خواتین کو خود مختار بنانے کی، ان کی جدو جہد ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اسے پاکستانی عورتوں کی خوش قسمتی کہا جائے گا کہ انہیں بیگم رعنا لیاقت علی خان جیسی رول ماڈل ملی۔
……بے نظیر بھٹو……
پاکستان کی تاریخ میں بے نظیر پہلی خاتون ہیں جو دو مرتبہ وزیر اعظم بنیں۔ انہیں دنیائے اسلام کی سب سے کم عمر خاتون وزیر اعظم ہو نے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ 1980کے عشرے سے لے کر 2007 میں اپنی شہادت تک وہ پیپلز پارٹی کی شریک چئیر پرسن رہیں۔ زمانہء طالبعلمی میں سفارت کار یا صحافی بننا چاہتی تھیں لیکن حالات انہیں سیاست میں لے آئے۔
1969سے1973تک ہارورڈ یونیورسٹی کے ریڈ کلف کالج میں تعلیم حاصل کی ،ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔دوران تعلیم ہی 1971 میں اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ سلامتی کونسل کے اجلاس میں، 1972میں والد کے ساتھ شملہ کانفرنس میں اور1974میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہان کی کانفرنس میں شرکت کی۔ ہارورڈ سے گریجویشن کرنے کے بعد جب بے نظیر بھٹو وطن واپس آرہی تھیں تو ان کے ذہن میں یہ گیت گونج رہا تھا ’’میں ایک جیٹ پلین میں جا رہی ہوں۔ معلوم نہیں دوبارہ کب واپس آئونگی‘‘1989 میں سولہ سال بعد جب امریکا واپس گئیں تو وہ پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو تھیں۔
بے نظیر کی سیاسی زندگی کا آغاز بھٹو کی پھانسی کے بعد ہوا ۔ انہیں کئی مرتبہ کبھی جیل اور کبھی گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ 1984میں وہ لندن جلا وطن ہوئیں اپنی والدہ کے ساتھ پارٹی کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتی رہیں،ان کی پارٹی کے بے لوث کارکنوں نے ان کے جیل میں یاوطن سے باہر رہنے کے باوجود پارٹی کو زندہ رکھا۔ 1986میں لندن سے واپس آئیں ۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے کے ترقی پسند نوجوان بھٹو کے دیوانے تھے اور جب بھٹو پاکستان کے ترانوے ہزار قیدیوں کی رہائی کے لئے اندرا گاندھی سے مذاکرات کرنے شملہ گئے تو نوعمر بینظیر بھی اس وفد میں شامل تھیں۔
بھارتی اخبارات نے بے نظیر کو بڑی کوریج دی۔اندرا گاندھی کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی تصاویر صفحہ اول پر چھپیں، بھٹو خواتین کی کڑی سیاسی آزمائشوں کا دور اُس وقت سے شروع ہوا، جب بھٹو جیل میں تھے۔ ستمبر 1978سے بے نظیر بھٹو نے پارٹی کارکنوں سے رابطے کا سلسلہ شروع کیا۔’’ بھٹو کی رہائی کی جدوجہد نے پارٹی کو ہر سطح پر ایک نئی قیادت فراہم کی۔ 1977-1988کا زمانہ بے نظیر اور نصرت بھٹو کی جدوجہد کا سنہرا دور تھا۔
21جون 1978کو بے نظیر نے اپنی پچیسویں سالگرہ جیل میں مقید اپنے والد ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ منائی ،جب وہ کیک کاٹنے لگیں تو مسٹر بھٹو نے کہا ’ پنکی، آج جنرل ضیا ا لحق کے لئے بڑا تکلیف دہ دن اس لئے ہے کہ تم آج پچیس سال کی ہو گئی ہو، وہ مجھے جسمانی طور پر ختم کرنا چاہتا ہے،آج چین سے نہیں سونے پائے گااور تم میرے بعد میرا مشن جاری رکھو گی۔‘‘بھٹو کی پھانسی کے بعد نوجوانوں نے بے نظیر کو اسی طرح اپنا لیڈر مانا جیسے گذشتہ نسل نے بھٹو کو مانا تھا۔
بے نظیر کے رول ماڈل ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو تھے ۔جب وہ پانچ سال کی تھیں تو بھٹوایوب خان کی کابینہ میں وزیر توانائی بنے، جب وہ نو سال کی تھیں تو بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ بنے۔ پاکستان کے پدرسری معاشرے کے باوجود ذولفقار علی بھٹو نے ہمیشہ اپنی بیٹی کی تعلیم اور سیاست کے میدان میں آگے بڑھنے کی حوصلہ افزائی کی۔ بے نظیر کو بچپن سے اپنے والد سے ملنے آنے والی اہم غیر ملکی شخصیات سے ملنے کا موقع ملا جن میں چو این لائی بھی شامل تھے۔
بے نظیر بھٹو نے آکسفورڈ اور ہارورڈ سے تاریخ اور سیاسیات کی تعلیم حاصل کی اور آکسفورڈ یونین کی پہلی غیر ملکی خاتون صدر منتخب ہوئیں۔1977 میں وہ پاکستان واپس آئیں اور جولائی 1977میں ضیا ا لحق کے مارشل لا نے ان کی زندگی کا رخ موڑ دیا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی سے پہلے انہوں نے اپنے والد کے ساتھ ہونے والے مظالم اور جیل کی سختیوں کو قریب سے دیکھا ۔ اس دوران وہ اپنی والدہ سمیت سہالہ ریسٹ ہائوس میں نظر بند بھی رہیں۔ وہیں سے ان کی بھٹو صاحب سے پھانسی کی کال کوٹھری میں آخری ملاقات کرائی گئی ۔ مئی 1979میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو رہا کیا گیا ،جس کے بعد وہ کراچی آ گئیں۔
1984میں بیگم نصرت بھٹو کوعلاج کے لئے برطانیہ جانے کی اجازت ملی تو بے نظیر بھٹو بھی ان کے ساتھ تھیں، 1986 میں اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان واپس آئیں۔ واجد شمس الحسن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 14اگست 1986 کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے کال دی کہ وہ قائد اعظم کے مزار پر عوام سے خطاب کریں گی۔ پولیس اور دیگر فورسز نے 70 کلفٹن کو گھیر رکھا تھا ۔ بہت بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے کارکن جمع تھے۔ لیاری میں خبر گرم تھی کہ بے نظیر بھٹو یہاں سے قائد اعظم کے مزار جلوس کی شکل میں جائیں گی۔ جب صحافیوں کو پتہ چلا کہ محترمہ تو لیاری پہنچ گئی ہیں تو انہیں بڑی حیرت ہوئی کہ پولیس نے چاروں طرف سے 70 کلفٹن کو گھیرا ہوا ہے۔
کلفٹن سے لیاری کے راستے پر رکاوٹ لگا کے گاڑیوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ پتہ چلا کہ محترمہ برقع پہن کر رکشہ میں لیاری گئی تھیں‘‘ ایسی دلیر تھیں بے نظیر بھٹو!۔ اسی رات انہیں گرفتار کر کے سکھر جیل بھیج دیا گیا۔ 1987میں بے نظیر نے پارٹی کا کنٹرول سنبھالا اور 1988میں پیپلز پارٹی سادہ اکثریت سے اقتدار میں آ گئی۔ پاکستان کی خواتین کے لئے یہ ایک خوش کن لمحہ تھا کہ ایک نو عمر پاکستانی خاتون کو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ شرائط کے ساتھ ملک کو چلانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن بے نظیر عام لوگوں کے دکھوں کے مداوا کے لئے میدان میں اتریں۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد خواتین کے لئے کئی اقدامات کئے۔ پاکستان کی پانچ یونیورسٹیوں میں ویمن اسٹڈیز سینٹر قائم کے علاوہ فرسٹ ویمن بنک قائم کیا۔ عورتوں کو روزگار کی فراہمی کے لئے سرکاری ملازمتوں میں پانچ فی صد کوٹہ مقرر کیا۔ بے زمین ہاری عورتوں کو زمینیں دی گئی۔ ان کی حکومت نے عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کے کنونشن پر دستخط کئے۔
1993میں جب وہ دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو ویمن پولیس اسٹیشن قائم کئے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام شروع کیا۔ عورتوں کی ترقی کی وزارت قائم کی اور اعلیٰ عدلیہ میں خواتین ججز مقرر کیں۔ عورتوں کے لئے کمپیوٹر سینٹرز بنائے گئے۔ بھوک کا خاتمہ، رہائشی سہولتیں اور ہیلتھ کئیر ان کی اولین ترجیحات تھیں۔ 1996میں ان کی دوسری حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔
1997میں نواز شریف بر سر اقتدار آئے۔ آصف زرداری کو جیل میں ڈال دیا گیا اور بے نظیر کو ایک مرتبہ پھر وطن چھوڑنا پڑا۔ نو سال تک انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزاری۔ اس دوران وہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لئے آواز اٹھاتی رہیں۔ آصف علی زرداری کو 2004 میں رہا کر دیا گیا اور وہ لندن اپنے اہل خانہ کے پاس چلے گئے۔ 2007 میں بے نظیر اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آئیں تو عوام نے بے نظیر کا خیر مقدم کیا لیکن چند گھنٹے بعد ہی ان کے جلوس پر خود کش حملہ ہو گیا۔
بینظیر تو اس قاتلانہ حملے میں بچ گئیں لیکن جلوس کے سو شرکا مارے گئے۔جنوری 2008 میں انتخابات سے چند ہفتے قبل وہ راولپنڈی کے انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد واپس جارہی تھیں کہ ان کی گاڑی پر پھر بم دھماکہ ہوا،بے نظیر کو شدید زخمی حالت میں اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں۔
بے نظیر نے ایک مرتبہ کہا تھا’’میں نے ایک غیر معمولی زندگی گزاری ہے۔ اپنے باپ کو دفن کیا ہے، جسے پچاس سال کی عمر میں مار دیا گیا تھا۔ اپنے دو جوانمرگ بھائیوں کی تدفین کی۔ میرا شوہر میری سیاست کے ہاتھوں یرغمال بن کر آٹھ سال تک جیل میں رہا اور میں نے اپنے بچوں کو تنہا پالا۔‘‘ ایسی دیدہ دلیر خواتین کم کم ہی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو دنیا بھر میں لیکچرز کے لئے بلایا جاتا تھا۔ انہوں نے کئی مضامین اور کتابیں بھی لکھیں۔1988میں دختر مشرق Daughter of East,) لکھی۔ ان کی کتاب ، مفاہمت: اسلام، جمہوریت اور مغرب ، ان کی وفات کے بعد 2008میں شائع ہوئی۔ اقوام متحدہ نے بھی ان کے قتل کے بعد انہیں انسانی حقوق کا ایوارڈ دیا۔
……عاصمہ جہانگیر……
عاصمہ جہانگیر کا نام پہلی مرتبہ اس وقت منظر عام پر آیا جب انہوں نے نوعمری میں اپنے والد کا مقدمہ لڑا۔ اس وقت وہ عاصمہ جیلانی کہلاتی تھیں۔ان کے والد ملک غلام جیلانی کا شمار پاکستان کے باضمیر سیاستدانوں میں ہوتا تھا۔ وہ عوامی لیگ سے وابستہ اور پارلیمنٹ کے رکن تھے۔ انہوں نے یحییٰ خان کی جانب سے فوج کے ذریعے مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کو دبانے کے خلاف سخت موقف اختیار کیا تھا۔
7اپریل1971کو یحییٰ خان کے نام ایک کھلے خط میں انہوں نے اس پر مشرقی پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قتل عا م کا الزام لگایا، بعد میں اس خط پر تبصرہ کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا تھاکہ یہ خط لکھ کر انہوں نے فوج کو دعوت دی تھی کہ انہیں گرفتار کر لیا جائےاور ہوا بھی یہی۔ ملک غلام جیلانی پر غداری کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا اس وقت عاصمہ جہانگیر کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
جیل کے ایک ملازم نے خط کے ذریعے انہیں ان کے والد کی گرفتاری کی اطلاع دی۔ خط میں کہا گیا تھا کہ جیلانی خاندان کے کسی رکن کو ان کی رہائی کے لئے پٹیشن دائرکرنا ہو گی، کچھ وجوہات کی بنا پر عاصمہ جہانگیر کی والدہ اپنے شوہر کی رہائی کی پیٹیشن پر دستخط نہ کر سکیں تو عاصمہ جہانگیر نے دستخط کئے۔ یہ کیس عاصمہ جیلانی بالمقابل حکومت پاکستان کے نام سے مشہور ہوا، جو پاکستان کی تاریخ میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد عاصمہ جہانگیر کا نام ضیا الحق کے دور میں سامنے آیا،جب ضیا ا لحق نے امتیازی اور تفریقی قوانین بنانے شروع کئے تو عاصمہ جہانگیر پاکستانی عورتوں کے حقوق کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
حدود قوانین اور اسلامائیزیشن کے نام پر غریب عورتوں کو قید و بند کی صعوبتیں بھگتنا پڑ رہی تھیں، انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کے لئے عاصمہ جہانگیر نے پاکستان میں خاتون وکلا کی پہلی فرم’’ AGHS legal aid cell ‘‘بنائی اور ایک لیگل ایڈ فورم بھی قائم کیا۔ 1984میں یو ایس ایڈ کے لئے ایک مقالہ ’’پاکستانی عورتوں پر اسلامائیزیشن کی پالیسیوں کا امپیکٹ‘‘ لکھا ، جس میں انہوں نے بتایا کہ کیسے ضیا الحق کے دور میں عدالتوں میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی گواہی آدھی رہ گئی تھی اور کیسے پڑھی لکھی، خود مختار عورتوں کو ریاست کی طرف سے اسلام کی من چاہی تشریحات کے آگے سر جھکانے کے لئے مجبور کیا گیا۔
حدود آرڈیننس اور زنا کی شق کے خلاف بات کرنے والی عورتوں پر فحاشی پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ 1983میں جب عاصمہ اور ویمنز ایکشن فورم کی خواتین نے لاہور میں اس آرڈیننس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تو پولیس نے ان پر بہیمانہ تشدد کیا۔ عاصمہ اور کئی خواتین گرفتار ہوئیں۔1987میں عاصمہ نے انسانی حقوق کا کمیشن قائم کیا، جو آمریت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ملک میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔
عاصمہ جہانگیر، پاکستان کی ممتاز انسانی حقوق کی وکیل تھیں۔ انہوں نے تین عشروں تک بڑی جرات اور ہمت کے ساتھ کچلے ہوئے پاکستانیوں خواہ عورتیں ہوں یا مرد یا بچے ، مذہبی اقلیتیں انہوں نے سب کے مقدمات لڑے اور ان کے حقوق کا دفاع کیا۔ 2010 میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدر منتخب ہو کر تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا۔ انسانی حقوق کے کمیشن کے پلیٹ فارم سے انہوں نے عورتوں پر تشدد، کاروکاری، پھانسی کی سزا ختم کرنے اور مذہبی تشدد جیسے مسائل کے بارے میں شدومد سے آواز اٹھائی اور عورتوں کے خلاف بنائے جانے والے امتیازی قوانین کے خاتمے کے لئے مسلسل جدو جہد کی ،اس پر انہیں دھمکیاں بھی ملیں، ان پر حملے بھی ہوئے، گھر میں نظر بند بھی کیا گیا، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔
وہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے دفاع اور ان کا مقدمہ لڑنے میں سب سے آگے ہوتی تھیں۔ 1995میں ایک چودہ سالہ عیسائی بچے سلامت مسیح کا مقدمہ لڑا جسے توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت ہوئی تھی تو ایک مشتعل ہجوم نے ہائی کورٹ کے باہر کھڑی ان کی گاڑی کے شیشے توڑ دئیے اور ان کے ڈرائیور پر حملہ کیا۔ عاصمہ اور ان کے اہل خانہ پر حملے ہوئے، ان کو یرغمال بنایا گیا، ان کے گھر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی گئی ،قتل کی دھمکیاں دی گئیں لیکن عاصمہ نے سلامت مسیح کا کیس لڑا اور اسے رہا کروا یا۔1996میں ایک لڑکی کے مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ’ ایک بالغ مسلمان عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی۔ اپنی مرضی سے شادی کرنے والی عورتوں کے نکاح فسخ ہو جائیں گے۔
عاصمہ نے یہ مقدمہ لڑا ۔ عدالتی فیصلے کے مضمرات پر روشنی ڈالی اور اپنا موقف تسلیم کروا لیا۔ انہوں نے زنا کے الزام میں قید کی جانے والی کئی عورتوں کو جیل سے رہائی دلوائی۔1999میں صائمہ سرور کا مقدمہ لڑا، جس نے ان کے شلٹر ہوم ’دستک‘ میں پناہ لی تھی اور اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھی۔ صائمہ کو اس کے خاندان والوں نے ملاقات کے بہانے دستک کے دفتر میں قتل کر دیا۔عاصمہ نے 2005 میں ایک مخلوط علامتی میراتھن ریس لاہور میں منعقد کروائی تا کہ خواتین کھلاڑیوں پر مذہبی انتہا پسندوں کے تشدد کو سامنے لایا جائے۔ مسلح انتہا پسند اسلحہ، لاٹھیاں اور پٹرول بم لے کر وہاں پہنچ گئے اور عاصمہ کو سر عام تشدد کا نشانہ بنایا۔
پولیس نے عاصمہ کو حراست میں لے لیا۔نومبر 2007 میں عاصمہ پانچ سو وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی لگائی ہوئی ایمرجنسی کی مخالفت کرنے پر گرفتار ہوئیں، انہیں تین ماہ تک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ عاصمہ جہانگیر نے صرف پاکستان میں نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کی بنیاد پربین الاقوامی طور پربھی انسانی حقوق کو فروغ دیا۔
وہ ماورائے عدالت قتل اور پھانسی کی سزا کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر تھیں۔ انہیں انسانی حقوق کے مارٹن اینلز ایوارڈ، ریمن میگ سی سے ایوارڈ اور دیگر بہت سے ایوارڈز کے علاوہ 2010 میں انہیں پاکستان کا دوسرا بڑا سویلین اعزاز’ہلال امتیاز‘ دیا گیا۔